تقریبات کا اہتمام انسان خوشی کے مواقعوں پر کرتا ہے تاکہ اپنی خوشی اپنے پیاروں سے مل کر بانٹی جاسکے جس کے لئے وہ اپنی گنجائش کے مطابق ہر طرح کے انتظامات کرتا ہے کھانے پینے سے لے کر اچھی جگہ کا انتخاب تک بہت سوچ سمجھ کر کرتا ہے اور پھر اس کی ڈیکوریشن اور تھیم وغیرہ سب کچھ دیکھتے ہوئے خرچہ کرتا ہے۔ لیکن آج ہم آپ کو ایک ایسی پارٹی کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں جو نہ تو کسی خوشی میں کی جا رہی ہے اور نہ ہی کسی کی سالگرہ کی پارٹی ہے، نہ تو کسی شادی کا جشن ہے اور نہ بچے کی ولادت کی خوشی، دراصل یہ ایک بادشاہ کے جاہ و جلال اور عیش و عشرت کی دھاک دنیا میں بٹھانے والی پارٹی کا احوال ہے جو آج تک دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہے۔
بادشاہوں کے شاہانہ انداز اور منفرد مہنگی زیرِ استعمال چیزیں دیکھ کر ایک عام انسان صرف خواہش ہی رکھ سکتا ہے کہ کاش ہمیں بھی وہ شاہانہ لائیوو سٹائل مل سکے، لیکن جب ملک بدحال کا شکار ہو، کھانے پینے کی بنیادی سہولت موجود نہ ہو تو عوام میں ایک غم و غصے کی لہر دوڑ جاتی ہے کہ بادشاہ اتنی آسائشوں میں رہ رہا ہے اور ہمیں کھانے کو بھی نہیں مل رہا۔
بادشاہ کون ہے؟
یہ کہانی ایران کے سابق بادشاہ رضا احمد شاہ پہلوی کی ہے جن کو بادشاہوں کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے جو دنیا کے ان امیر ترین لوگوں میں سے ایک رہے جن کے پاس صرف دولت کے خزانے ہی نہیں بلکہ طاقت بھی اس قدر تھی کہ جس کو چاہے حکومت سے برطرف کرواسکتے تھے لیکن ان کی طاقت کا بھوت صرف ایران کی حدود میں ہی رہا، سیانے کہتے ہیں اگر تھوڑی عقل اور سمجھ بوجھ سے احمد رضا اپنی پالیسی بناتا تو آج مسلم دنیا امیر ترین ممالک میں سے ایک ہوتی بہرحال رضا احمد شاہ پہلوی نے ساری زندگی صرف اور صرف اپنے آرام اور عیش میں گزار دی لیکن پھر اس کے ایک غلط فیصلے نے اس کو قبر تک کے لئے بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا۔
پارٹی کیوں کروائی؟
چونکہ ایران میں حد سے زیادہ غربت اور اموات کی شرح بڑھ چکی تھی اس لئے
بادشاہ رضا احمد شاہ پہلوی نے ایران کی گلوبل امیج کو خوبصورت اور اچھا، امن پسند اور دوستانہ دکھانے کی خاطر شاہی پارٹی کروائی جس میں 65 ممالک کے سربراہ، بادشاہ، وزیرِاعظم، شہنشاہ، اداکار اور سیلیبریٹیز کو مدعو کیا گیا۔
پارٹی کہاں کروائی گئی؟
بادشاہ رضا احمد شاہ پہلوی نے ایران کی امیج کو بہتر بنانے کے لئے شاہی پارٹی کا انتخاب ایران کے دارالحکومت میں نہیں بلکہ ایران کے صحرا میں کروائی گئی تاکہ کوئی بھی بادشاہ یا وزراء ایران کے اندر کی غربت اور چھوٹے لوگوں کو دیکھ ہی نہ سکے۔
صحرا میں انتظام کیسے کروایا؟
بادشاہ رضا احمد شاہ پہلوی نے ایران کے صحرا میں 3 دن کی پارٹی منعقد کروائی جس کے لئے ایک سال قبل ہی تیاریاں شروع کردی گئیں تھیں، اب صحرا میں پارٹی کروائی گئی وہ بھی شاہی پارٹی تو اس کے لئے انتظامات بھی شاہی کروائے گئے۔
صحرا میں سانپ بچھو تھے:
ایران کے صحرا کے 500 ایکڑ کے حصے میں سب سے پہلے کیمیکل سپرے کروایا گیا جس سے وہاں موجود ہر قسم کے سانپ اور بچھو کو مروایا گیا اس کے نتیجے میں کئی ایسے قسم کے سانپ بچھو بھی دریافت ہوئے جو پہلے کبھی کسی نے نہ دیکھے تھے اور نہ سنے تھے۔
صحرا میں محل بنوایا:
بادشاہ رضا احمد شاہ پہلوی نے صحرا میں پیرس سے محل بنوا کر نصب کروایا جس کے لئے کئی لاکھ ڈالر کا خرچہ کیا گیا اور محل پیرس میں ہی بنا جس کے ٹکڑوں کو 200 جہازوں کی مدد سے ایران لایا گیا اور وہاں مٹی کے اندر نصب کروایا گیا جو اپنے دور میں ماہر انجینئروں کے کام کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
صحرا میں گارڈن بھی بنوایا:
بادشاہ رضا احمد شاہ پہلوی نے ایران کے 500 ایکڑ کے صحرا میں گارڈن بھی بنوایا جس کی لاگت کئی لاکھ ڈالر تھی مگر چونکہ ایران میں پانی کی کمی تھی تو وہاں پودے اگانا بھی ممکن نہ تھا لہٰذا 12 سو ٹن پودے اور تازہ خوشبوؤں والے پھولوں کو پیرس، جرمنی اور فرانس سے خصوصی طور پر منگوایا گیا تھا، لیکن پودے شاہی پارٹی کے لئے کم تھے لہٰذا بادشاہ پہلوی نے 2500 کے قریب اعلیٰ اور نایاب نسل کے گانا گانے والے پرندے پیرس سے منگوائے اور گارڈن میں چھوڑ دیئے گئے، لیکن تقریب تک پہنچتے پہنچتے 1000 کے قریب پرندے پہلے ہی مرگئے چونکہ صحرا میں گرمی تھی۔
کھانے کا انتظام کیسے ہوا؟
بادشاہ نے کھانے کا انتظام کرنے کے لئے دنیا کے مختلف ممالک کے بہترین اور مہنگے ترین ہوٹلوں سے رابطہ کیا جہاں پیرس کے ہی ایک اعلیٰ اور شاہانہ ریسٹورنٹ سے 2 ہفتے قبل تمام تر شیف منگوائے گئے جنہوں نے ہر طرح کا اعلیٰ کھانا مہمانوں کے لئے بنایا۔
کھانے کی چیزوں کی مقدار کتنی؟
میگسم دی پیرس نامی ریسٹورنٹ کے تمام شیف اور ورکرز کو شاہی ہارٹی کے 10 روز قبل ہی ایران بھیج دیا گیا تھا جہاں انہوں نے بادشاہ کی خدمت بھی کی اور پھر پارٹی کے لئے اپنے بہترین کھانے بنا کر لوگوں کو لطف اندوز کیا۔ کھانے کے لئے ڈھائی لاکھ انڈے، 2700 کلو گوشت اور ہر وہ آئٹم منگوایا گیا جو پیرس کے اس مشہور ہوٹل میں استعمال ہوتی تھی، یہاں تک کہ اعلیٰ مشروبات بھی پیرس سے ہی آئے اور ان مشروبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے برف کے آئش کیوبز تک پیرس سے منگوائے گئے۔
صحرا تک پہنچے کیسے؟
اس صحرا تک گاڑی سے پہنچنا مشکل تھا لہٰذا بادشاہ رضا احمد شاہ پہلوی نے اس صحرا کے قرین ایئرفیلڈز بنوائیں جہاں پر مختلف ممالک کے وزراء اور شاہی مہمانوں کے جہازوں کی لینڈنگ ہوئی اور باقاعدہ سڑکوں کے ٹریک بنوائے گئے جہاں سے گاڑیوں میں بیٹھ کر مہمان صحرا محل گئے۔
سونے کی کرسیاں؟
جی ہاں! اس شاہی پارٹی میں کئی سو کرسیاں استعمال کی گئیں تھیں اور وہ کرسیاں اور تخت و تاج خالص سونے سے بنوایا گیا تھا جس کو مختلف ممالک کے سونے کے ڈیلرز سے بنوایا گیا تھا۔
بچوں کو تحفہ دیا؟
پارٹی چونکہ 3 دن کی تھی اس کے بعد جتنے بھی مہمان آئے تھے ان کے ساتھ موجود چھوٹے بچوں کو تحفے میں سونے کے سکے بھی دیئے گئے تھے ۔
گاڑیاں کتنی منگوائیں؟
اس شاہی دعوت کے لئے 1500 بلٹ پروف لیموزن گاڑیاں بھی بادشاہ نے اپنے مہمانوں کی سیکویرٹی کے لئے منگوائیں تھیں اور 6000 سے زائد سیکیورٹی آرمی کے طور پر امریکہ اور جرمنی سے منگوائی جنہوں نے لوگوں کی دیکھ بھال رکھوالی کی۔
محل کے کمرے:
اس محل میں 2000 کے قریب کمرے بنوائے گئے جس میں ہر کمرے میں ایک لاؤنچ، 2 بیڈز، ایک باتھ روم اور ایک چھوٹا سا گارڈن بھی بنوایا گیا تھا۔ جبکہ ہر ایک سوٹ میں 3 شیف کام کر رہے تھے جوکہ ہر طرح کے کھانے بنانے کے ماہر تھے۔
پارٹی کا مکمل خرچہ:
اس شاہی پارٹی پر آنے والے اخراجات کی لاگت 1 بلین ڈالر تھی جو کہ پاکستانی کرنسی میں 1 کھرب 70 ارب روپے سے زائد بنتے ہیں لیکن دیگر اطلاعات کے مطابق یہ رقم 17 کھرب تھی جوکہ رضا احمد شاہ نے خود اپنی جیب سے ادا کی تھی۔
اے سی:
محض اے سی پر لگنے والی قیمت کی لاگت 8 کروڑ روپے بتائی جاتی ہے کیونکہ باتھ رومز تک میں اے سی لگوائے گئے تھے لوگوں کو کبھی بھی گرمی کا احساس نہ ہو۔
بادشاہ کے الفاظ:
رضا احمد شاہ پہلوی نے اس وقت کہا تھا کہ:
''
میں اس شاہی دعوت سے ایران کا نقشہ بدل دینا چاہتا ہوں، اس سے عالمی گلوب پر ہماری سوفٹ امیج بھی بنے گی اور لوگوں کو یہ احساس بھی ہوگا کہ ایران کے پاس تخت و تاج اور پیسے کی کوئی کمی نہیں۔ میں نے سونے کا چمچ منہ میں لے کر آنکھ کھولی تھی اور اب یہی سونا مجھے شہرت دلوائے گا۔
''
لوگ خوش؟
اس اپرٹی سے پہلے تو ہر کوئی خوش ہوا لیکن اس کے بعد لوگوں نے بہت تنقید کی اور ایران کے وہ لوگ جو اس پارٹی سے بالکل ناخوش تھے انہوں نے رضا احمد شاہ کے خلاف تحریک چلادی اور پھر وہ جلاوطن ہوکر ترکی بھاگ گیا جہاں ایک سال بعد اس کا انتقال ہوگیا اور ایران کے نئے صدر خمینی کی حکومت آگئی۔