“جان کر خطرہ تو ہر وقت رہتا ہے لیکن کیا کریں ہمیں اپنے بچے بھی پالنے ہیں۔ اگر زندہ رہا تو پھر ملیں گے ورنہ سلام آخر“
یہ کہہ کر غریب کان کن ہزاروں فٹ گہری زمین میں چلا گیا جو پلک جھپکتے میں اس کی قبر بھی بن سکتا ہے۔
آج کل پڑھے لکھوں کو نوکری نہیں ملتی تو ہمیں کہاں سے ملے گی
کان کنی یعنی پہاڑوں کی تہوں سے کوئلہ ڈھونڈ کر نکالنا ہر لحاظ سے ایک خطرناک کام ہے کیونکہ یہ زمین کی کئی ہزار گہرائیوں میں جاکر ہی ممکن ہوپاتا ہے۔ بی ی سی کو اپنے اس پیشے کے بارے میں بتاتے ہوئے ایک کان کن کا کہنا تھا کہ “لوگ کہتے ہیں کہ کوئی اور نوکری کرو لیکن نوکری تو آج کل پڑھے لکھوں کو نہیں ملتی تو ہم جیسے ان پڑھ اور غریبوں کو کہاں سے ملے گی“
کان کنی سے انسانی جان کو ہونے والے نقصانات
پاکستان میں ہر سال کئی سو افراد کان کنی کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کبھی پہاڑ لرز اٹھتا ہے اور زمین میں کام کرتے ہی کان کنوں کی قبر بن جاتی ہے یا پھر میتھین اور دوسری زہریلی گیسوں کے اخراج سے بھی کئی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ان کی جانیں بچ بھی جائیں تو بھی اس پیشے کی وجہ سے کچھ عرصے بعد ان کے ہاتھ پاؤں کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
صوبے کی سب سے بڑی معیشت جس کا انحصار مجبور کان کنوں پر ہے
صوبہ بلوچستان میں زیادہ تر حصہ پہاڑوں پر مشتمل ہے اس لئے زیادہ اموات بھی وہیں ہوتی ہیں۔ عوام میں غربت اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے کان کنی بلوچستان کی سب سے بڑی صنعتوں میں شمار ہوتی ہے
ان کا کھانا بھی کوئلے سے اٹا ہوتا ہے
افسوس کی بات یہ ہے کہ ان غریب جانوں کی کسی کو پروہ نہیں ہوتی۔ کان کنوں کی موت کی خبر ٹی وی پر ایک معمول کی طرح چل کردم توڑ دیتی ہے۔ کوئلے کی کان میں کام کرنے والوں کی زندگی کو آسان بنانے کا عزم رکھنے والی پروفیسر ڈاکٹر رابعی ظفر کا کہنا ہے کہ “ ’ہزاروں فٹ گہری کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے کان کنوں کی زندگی ان کانوں سے کئی گنا زیادہ تاریک ہے۔ میں نے کچھ کول مائنرز کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھا تو ان کا کھانا بھی کوئلے کے گرد و غبار سے اٹا ہوا تھا۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے زندگی یہاں پر ہے ہی نہیں۔‘
جانی نقصان کے اعداد و شمار
جبکہ پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل لالہ سلطان کے مطابق سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2010 سے اگست 2018 تک بلوچستان کی کوئلے کی کانوں میں 423 سے زائد کان کن ہلاک ہوئے ہیں لیکن غیر سرکاری تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے