وہ تو نواز شریف کے ساتھ جہاز میں بیٹھی ہیں۔۔۔۔ خواتین صحافیوں پر تنقید کے بجائے الزام تراشی کیوں شروع ہوجاتی ہے؟

image

خواتین کو ہمارے ہاں ہمیشہ مقدس کہا جاتا ہے۔ ماں بہن بیٹی جیسے عظیم رشتوں کے ناموں میں عورت کی عزت اور حرمت پر کئی قصیدے لکھے جاتے ہیں۔ لیکن معاملہ بگڑنا تب شروع ہوتا ہے جب یہی عورت ایک ماں، بیٹی یا بہن کے رشتوں سے نکل کر محض ایک انسان کے طور پر اپنا آپ منوانے کھڑی ہوتی ہے۔ چند مخصوص شعبوں کے علاوہ ایسے شعبے جہاں مردوں کی اجاہ داری رہی ہو وہاں خواتین کو صرف ان کی جنس کی بنیاد پر ہراساں کرنا بہت آسان ہے۔ اس کی کئی مثالیں آج کل ٹوئٹر پر عاصمہ شیرازی کے خلاف بننے والے ٹرینڈز پر دیکھی جاسکتی ہیں۔

عاصمہ شیرازی کا کالم اور سوشل میڈیا پر ٹرولنگ

ویسے تو پاکستان میں خواتین صحافی اور سیاست دانوں کے خلاف غلیظ گالیوں پر مشتمل ٹرینڈز بنتے رہتے ہیں لیکن ان میں اکثر اوقات حکومت کے افراد بھی شامل ہوتے ہیں جو بجائے اس رویے کی مذمت کے الٹا گالی دینے والوں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ عاصمہ شیرازی کے خلاف ٹرولنگ اور تضحیک کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب بی بی سی میں ان کا کالم “ کہانی بڑے گھر کی“ شائع ہوا۔ اس کالم میں بظاہر تو کسی کا نام نہیں لیا گیا لیکن کالم کے کچھ حصے حکومت اور ان کے ساتھیوں کو شدید ناگوار گزرے ہیں۔ جس کے بعد عاصمہ شیرازی کو سوشل میڈیا پر آڑے ہاتھوں لینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

وہ تو نواز شریف کے ساتھ بزنس کلاس میں بیٹھی ہیں

پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شہباز گل، عاصمہ شیرازی کے خلاف بننے والے ٹرینڈز پر آواز اٹھانے کے لئے مہر بخاری کو لکھتے ہیں “آپ خوامخواہ عاصمہ شیرازی کے لئیے کھڑی ہیں۔پہلے چیک تو کر لیں وہ خود کہاں کھڑی ہیں۔آپ ایسے ہی کھڑی ہیں اور وہ تو نواز شریف صاحب کے ساتھ بزنس کلاس 11F پر بیٹھی ہوئی ہیں۔اب بہتر یا تو آپ بھی اگلی سیٹ 11 G پر تشریف رکھ کیں“

اسی طرح عاصمہ شیرازی کے سلسلے میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹر شہباز گل نے کہا کہ “خاتون اول پر بغیر سوچے سمجھے حملہ کیا جاتا ہے عمران خان کی بیگم ہونے سے پہلے وہ قوم کی بیٹی اور ایک ماں ہے۔ وزیراعظم یا ان کی فیملی کو گالیاں دینگے تو سوشل میڈیا پر ردعمل آئیگا۔ سیاست کو سیاست رہنے دیں اس گند تک نہ لیکر جائیں“ جب کہ عاصمہ شیرازی نے اپنے کالم میں براِ راست خاتونِ اول کا نام نہیں لیا۔

اس رویے کی بابت بی بی سی کے پوچھنے پر پی ٹی آئی کے عامر محمود کیانی سوشل میڈیا صارفین کے رویے کا دفاع کرتے نظر آئے انھوں نے کہا ’یہ نہیں ہو سکتا کہ بندہ صحافی ہو اور صرف اس کے پاس یہ اختیار ہو کہ وہ لوگوں کی تذلیل کرے، وہ شریف اور گھر بیھٹی خواتین، جن کا کوئی لینا دینا نہیں۔۔۔۔ یہ کوئی تھانے دار تو نہیں نا۔۔۔ اصول کی بات کرنی چاہیے، جب آپ ایسی بات کریں گے جس سے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی، ان کی ساکھ متاثر ہو گی تو آپ کیا توقع کرتے ہیں کہ لوگ آپ پر پھول ڈالیں گے۔‘

خواتین پر ذاتی حملوں کے زریعے انھیں کمزور کیا جاتا ہے

اس سلسلے میں عاصمہ شیرازی نے اپنے خلاف استعمال ہونے والی غلط زبان پر بی بی سے کو بیانیے میں کہا کہ “خواتین کو نشانہ بنانا آسان ہے۔ یہاں مرد صحافیوں کو بھی ٹرول کیا جاتا ہے، گالیاں دی جاتی ہیں لیکن خاتون صحافیوں کی ذاتیات پر بات کی جاتی ہے، ان پر جنسی نوعیت کے تبصرے کیے جاتے ہیں اور اس طرح سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ خواتین پر ذاتی حملوں کے ذریعے انھیں کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، دھمکیاں دی جاتی ہیں۔“

تنقید کی جائے نا کہ کردار کشی

یاد رہے کہ عاصمہ شیرازی واحد خاتون صحافی نہیں جن کے خلاف سوشل میڈیا پر غلیظ ٹرینڈز اور جنسی نوعیت کے حملے کیے جارہے ہیں۔ بلکہ وقتاً فوقتاً غریدہ فاروقی، مہر بخاری اور ریما عمر کے خلاف بھی اسی طرح کے ٹرینڈز بنتے رہتے ہیں۔ بطور صحافی اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان میں سے کسی خاتون کا جھکاؤ اپنی پسندیدہ پارٹی کی جانب ہو یا بالفرض کوئی واقعی کرپشن میں مبتلا ہو لیکن بہتر یہی ہوگا کہ تمام حقیقت ثبوت کے ساتھ سامنے لائی جائے اور قانونی کارروائی کی جائے ناکہ کسی خاتون پر جنسی نوعیت کے حملے کرکے اس کی کردار کشی کے رویوں کو ہوا دی جائے۔ اس قسم کی صورتحال سے ملک میں رہنے والی خواتین کی حوصلہ شکنی ہی نہیں ہوتی بلکہ ملک کا نام بھی بدنام ہوتا ہے۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US