تحریکِ طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ کافی عرصے سے ہر قسم کی سرگرمیوں سے دور تھے۔ ان کی اتنے عرصے تک منظرِ عام سے دور رہنے کی وجہ سے لوگوں میں ان کی بیمار اور وفات کی خبریں بھی پھیل گئیں تھیں۔ لیکن گزشتہ ہفتے ملا ہیبت اللہ اپنے طالبان شاگردوں سے ملنے دارلعلوم حکمیہ مدرسے گئے۔
ملا ہیبت اللہ کا پیغام
سخت ترین سیکورٹی کی وجہ سے کسی قسم کی تصویر یا ویڈیو نہیں بنی لیکن طالبان نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ملا ہیبت اللہ کی دس منٹ کی آڈیو ریکارڈنگ شئیر کی ہے۔ جس میں انھوں نے کوئی سیاسی بات نہیں کی بلکہ طالبان کے حق میں دعائیں کی ہیں۔
وہ ہمارے استاد ہیں
ملا ہیبت اللہ تحریک طالبان میں روحانی پیشوا کی حیثیت رکھتے ہیں اور وہ زیادہ تر قندھار میں رہتے ہیں۔ طالبان کے گورنر ملا یوسف وفا نے ایک بیان میں بتایا کہ “ملا ہیبت اللہ ہمارے استاد ہیں اور ہم ان سے کچھ سیکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ ہمیں مشورے دیتے ہیں اور ہم ان کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں“۔
اگر طالبان حکومت کو تسلیم نہ کیا گیا تو۔۔۔
ہفتے کو ہی پریس کانفرنس کے دوران طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ “ہمارا امریکہ کو پیغام ہے کہ اگر ہمیں تسلیم نہ کرنے کا عمل جاری رہے گا تو افغانستان میں مسائل جاری رہیں گے۔ یہ خطے کے لیے مسئلہ ہے اور پوری دنیا کے لیے مسئلہ بن سکتا ہے۔‘
پہلے بھی امریکہ سے اسی لئے جنگ ہوئی تھی
طالبان نے امریکہ اور دنیا بھر پر زور دیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے اور ان کے ملک سے باہر منجمد کیے گئے فنڈز انھیں دیے جائیں تاکہ حکومت افغان شہریوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرسکے۔ ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ افغانستان میں شدید بحران ہے جبکہ افغانستان کے اربوں ڈالرز کے اثاثے باہر بینکوں میں منجمد رکھے ہیں۔ تسلیم کیا جانا افغان حکومت کا حق ہے۔ پہلے بھی اسی وجہ سے جنگ ہوئی تھی کیونکہ دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات نہیں تھے۔