ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ کر اس خفیہ مقام تک لے جایا گیا جہاں یوکرین اپنا سب سے جدید ہتھیار تیار کر رہا ہے۔ ہمیں اپنے فون بھی بند کرنے کی تاکید کی گئی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یوکرین کے ’فلیمنگو‘ نامی میزائل کی تیاری کتنے خفیہ طریقے سے ہو رہی ہے۔
ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ کر اس خفیہ مقام تک لے جایا گیا جہاں یوکرین اپنا سب سے جدید ہتھیار تیار کر رہا ہے۔ ہمیں اپنے فون بھی بند کرنے کی تاکید کی گئی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یوکرین کے ’فلیمنگو‘ نامی میزائل کی تیاری کتنے خفیہ طریقے سے ہو رہی ہے۔
لیکن یوکرین کے لیے ایسے ہتھیاروں کو خفیہ طریقے سے تیار کرنا اور ان کارخانوں کو چھپا کر رکھنا زندگی اور موت کا سوال ہے۔ فائر پوائنٹ نامی کمپنی، جو یہ میزائل بناتی ہے، کے دو کارخانے پہلے ہی نشانہ بن چکے ہیں۔
جب ہم کارخانے میں داخل ہوئے تو ہمیں ہدایت کی گئی کہ کسی کھڑکی، ستون یا چھت کی ویڈیو نہ بنائیں جس سے اس مقام کی نشان دہی ہو سکے۔ ہمیں کارخانے میں کام کرنے والے ملازمین کے چہروں کو بھی نہ دکھانے پر زور دیا گیا۔
یاد رہے کہ روسی بمباری کے باوجود یوکرین اسلحہ سازی کی صنعت کو بڑھا رہا ہے۔ صدر زیلینسکی کے مطابق اب یوکرین محاذ پر استعمال ہونے والا نصف اسلحہ خود ہی تیار کر رہا ہے۔ اور دور تک مار کرنے والے تقریبا تمام ہتھیار مقامی طور پر ہی بن رہے ہیں۔
روس کے خلاف جنگ کے آغاز پر یوکرین سوویت دور کے اسلحہ پر انحصار کر رہا تھا اور پھر مغربی ممالک نے یوکرین کی افواج کو جدید اسلحہ فراہم کیا۔
تاہم اب یوکرین روبوٹ اور ڈرون بنانے والا اہم ملک بن چکا ہے۔ دوسری جانب مقامی سطح پر تیار کردہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے کروز میزائل بھی یوکرین کی عسکری صلاحیت میں اضافہ کر رہے ہیں۔
ارینا تریخ فائر پوائنٹ کمپنی کی چیف ٹیکنیکل افسر ہیں جو یوکرین میں ڈرون اور میزائل تیار کرنے والا ایک بڑا ادارہ بن چکا ہے۔
اس کمپنی کا لوگو ہے ’ہم نہیں تو کون۔‘
33 سالہ ارینا نے آرکیٹیکچر کی تعلیم حاصل کی تھی لیکن اب وہ روسی جنگی مشین کو شکست دینے کی کوششوں کا حصہ بن چکی ہیں۔
بڑے فلیمنگو میزائل کے سامنے چھوٹی نظر آنے والی ارینا نے بتایا کہ اس میزائل پر کالا رنگ اس لیے کیا جاتا ہے کیوں کہ ’یہ روسی تیل کھاتا ہے۔‘ اس میزائل کے اولین پروٹوٹائپ پر گلابی رنگ کیا جاتا تھا۔
اب اس کی شکل دوسری جنگ عظیم کے جرمن وی ون راکٹ جیسی ہے اور لندن کی بس جتنی لمبی ٹیوب کے اوپر ایک بڑا جیٹ انجن نصب ہے۔ اگرچہ انھیں جنگ میں استعمال کیا جا رہا ہے تاہم کمپنی نے اہداف کے بارے میں نہیں بتایا۔
یہ روس کی زمین پر گہرائی میں اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والا ایسا ہتھیار ہے جو مغربی ممالک فراہم کرنے سے ہچکچا رہے تھے۔ اس کروز میزائل کی رینج تین ہزار کلومیٹر ہے اور یہ امریکی ٹوماہاک میزائل جتنی ہے جو زیادہ جدید اور مہنگا ہے لیکن امریکی صدر ٹرمپ نے یوکرین کو دینے سے انکار کر دیا تھا۔
یوکرین روس کے اندر دور تک اہداف کو نشانہ بنانے کو جنگ کا اہم حصہ سمجھتا ہے جس کے لیے زیادہ تر ڈرون استعمال کیے جاتے ہیں۔ یوکرین کچھ علاقہ روسی افواج کے ہاتھوں کھو رہا ہے کیوں کہ محاذ اب ایک ہزار کلومیٹر چوڑا ہو چکا ہے اور اسی لیے یوکرین کوشش کر رہا ہے کہ روس کی جنگی معیشت کو نشانہ بنایا جائے تاکہ روسی فوج کو سست رفتاری کا شکار کیا جا سکے۔
یوکرین کی دفاعی افواج کے سربراہ جنرل اولیگزینڈر سرسکائی کا دعوی ہے کہ طویل فاصلے تک ہونے والے حملوں کی وجہ سے رواں سال میں روس کی معیشت کو 21 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچ چکا ہے۔
یوکرین کی سپیشل فورسز کے ایک افسر، رسلان، کہتے ہیں کہ ’حکمت عملی سادہ ہے: دشمن کی عسکری صلاحیتوں اور معاشی طاقت کو کم کرنا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ یوکرین کی سپیشل فورسز نے تیل صاف کرنے والے کارخانوں، اسلحہ فیکٹریوں اور ایمونیشن ڈپو پر سینکڑوں حملے کیے ہیں۔ لیکن روس بھی جواب دے رہا ہے اور بڑے پیمانے پر۔ اوسطا روزانہ کی بنیاد پر 200 شاہد ڈرون لانچ ہوتے ہیں جبکہ یوکرین اس کا نصف لانچ کر پاتا ہے۔
روس صرف عسکری اہداف کو ہی نشانہ نہیں بنا رہا۔ اس کے دور تک مار کرنے والے میزائل اور ڈرون عام لوگوں کی زندگیاں مشکل بنا رہے ہیں اور حال ہی میں بجلی کا بحران بھی پیدا ہو گیا تھا۔ رسلان کا کہنا ہے کہ ’میں زیادہ سے زیادہ ڈرون لانچ کرنا چاہتا ہوں لیکن ہم بھی پوری کوشش کر رہے ہیں۔‘
فائر پوائنٹ کی ارینا کا کہنا ہے کہ یوکرین کے پاس روس جتنے وسائل نہیں لیکن ہم دماغ اور حکمت عملی سے لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کمپنی کے شریک بانی اور چیف ڈیزائنر ڈینس شٹلرمین اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے پاس ’کوئی جادوئی ہتھیار نہیں ہے۔ کھیل بدلنے والی چیز ہمارا جیت کا عزم ہے۔‘
روسی حملے سے پہلے فائر پوائنٹ وجود بھی نہیں رکھتی تھی۔ لیکن اب یہ روزانہ دو سو ڈرون بنا رہی ہے۔
چھوٹے طیارے جیسے ایف پی ون اور ایف پی ٹو ڈرون کا استعمال کرتے ہوئے یوکرین 60 فیصد طویل فاصلے تک اہداف کو نشانہ بناتا ہے۔ ہر ڈرون کی قیمت 50 ہزار ڈالر ہے جو روسی شاہد ڈرون سے تین گنا کم ہے۔ لیکن روس ماہانہ تین ہزار ڈرون تیار کرتا ہے۔
یوکرین کو اب بھی بیرونی مدد درکار ہے جس میں خفیہ معلومات، اہم اہداف کی نشان دہی اور پیسہ بھی شامل ہے۔لیکن وہ خود انحصار ہونے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔
ارینا کا کہنا ہے کہ وہ جان بوجھ کر میزائل میں استعمال ہونے والے پرزے بھی یوکرین سے ہی حاصل کر رہے ہیں۔ ’ہم اس اصول کی پیروی کر رہے ہیں کہ کوئی بھی ہمارے فیصلوں پر اثرانداز نہ ہو سکے۔‘ وہ امریکہ اور چین سے خاص طور پر پرزے منگوانے سے گریز کرتے ہیں۔
جب ان سے سوال ہوا کہ امریکہ سے کیوں پرزے حاصل نہیں کیے جا رہے تو انھوں نے جواب دیا کہ ’ہمارا اور امریکہ کا تعلق اونچ نیچ کا شکار ہے اور اگر کل کسی نے اسے بند کرنے کی کوشش کی تو ہم اپنے ہتھیار استعمال نہیں کر سکیں گے۔‘
گزشتہ سال کے اختتام تک امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ مجموعی طور پر یوکرین کو 70 ارب ڈالر کا عسکری سازوسامان فراہم کر چکی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے صدر بن جانے کے بعد ایک نئی سکیم کے تحت یورپی نیٹو کو امریکی ہتھیار خریدنے کی اجازت دی گئی۔
امریکہ اب یوکرین کا سب سے بڑا عسکری مددگار نہیں رہا اور یورپ امریکہ کی جانب سے چھوڑا جانے والا خلا پر نہیں کر پا رہا۔
ایسے میں ارینا کہتی ہیں کہ یوکرین سکیورٹی کی ضمانت کے طور پر اپنے ہتھیار خود بنا رہا ہے۔ وہ امید کرتی ہیں کہ یورپ بھی یوکرین کو دیکھ کر سبق حاصل کرے گا۔ ارینا کہتی ہیں کہ ’جس طرح روس نے یوکرین پر حملہ کیا اگر کوئی اور ملک ہوتا تو اب تک فتح ہو چکا ہوتا۔‘
ولودمیر لوزکو اور کیلا ہرمانسن کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ