اسرائیل نے ان الزامات کی تردید کی ہے لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر کے حملوں اور غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر پائے جانے والے غصے کی وجہ سے جیل میں زیرِِ حراست ایسے افراد کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات میں اضافہ ہوا جنھوں نے حماس اور اس کے حملوں کی حمایت کی۔
سمیع السائی کو جنوری 2024 میں اسرائیلی فوجیوں نے حراست میں لیا تھاانتباہ: اس مضمون میں جسمانی اور جنسی تشدد کی تفصیلات موجود ہیں جو بعض قارئین کے لیے باعث پریشانی ہو سکتی ہیں۔
دو فلسطینی مردوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھیں اسرائیل کی حراست میں جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کی کمیٹی برائے انسدادِ تشدد نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ جسمانی اور جنسی تشدد کی اُن رپورٹس کے سامنے آنے کے بعد سے شدید تشویش میں مبتلا ہے، جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے خلاف ’منظم اور وسیع پیمانے پر تشدد اور بدسلوکی کی ایک عملی ریاستی پالیسی‘ موجود ہے۔ کمیٹی کا کہنا تھا کہ ان الزامات میں 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے بڑی حد تک اضافہ ہوا۔
اسرائیلی اور فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیموں کی دیگر رپورٹس میں بھی اس حوالے سے تفصیل کے ساتھ بات کی گئی کہ یہ بدسلوکی ’منظم‘ نوعیت کی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی ہے لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر کے حملوں اور غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر ملک میں پائے جانے والے غصے کی وجہ سے جیل میں زیرِِ حراست ایسے افراد کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات میں اضافہ ہوا جنھوں نے حماس اور اس کے حملوں کی حمایت کی۔
گزشتہ سال اسرائیلی فوج کے زیرانتظام ایک جیل کے اندر سے لیک ہونے والی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دکھایا گیا تھا کہ غزہ سے تعلق رکھنے والے ایک فلسطینی کو مبینہ طور پر جیل اہلکاروں نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔
اس واقعے کے بعد اسرائیلی فوج اور سیاسی قیادت کے متعدد اعلیٰ حکام کو نہ صرف شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اُن سے استعفوں کا مطالبہ بھی کیا جانے لگا تھا۔
46 سالہ سمیع السائی اب فرنیچر کی ایک دکان میں کام کرتے ہیں لیکن وہ پہلے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمال میں واقع شہر طولکرم میں فری لانس صحافی تھے۔
انھیں جنوری سنہ 2024 میں اسرائیلی فوجیوں نے اس وقت گرفتار کیا جب انھوں نے صحافیوں کے ساتھ مل کر حماس اور دیگر مسلح گروہوں کے ارکان سے انٹرویوز کا انتظام کیا تھا۔
انھیں 16 ماہ تک بغیر کسی الزام کے ایک متنازعہ اسرائیلی نظام جسے ’انتظامی حراست‘ کہا جاتا ہے، میں رکھا گیااور بعد میں رواں سال موسم گرما میں انھیں رہا کر دیا گیا تھا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ شمالی اسرائیل کی میگیدو جیل میں قید تھے تو گارڈز نے 13 مارچ 2024 کے آس پاس انھیں نیم برہنہ کر کے ڈنڈے سے ان کا ریپ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے بی بی سی سے اپنے اُوپر ہونے والے جنسی تشدد سے متعلق بات کرنے کا فیصلہ کیا تاہم خدشہ اس بات کا بھی ہے کہ اُن کے ایسا کرنے کے بعد مغربی کنارے کے قدامت پسند فلسطینی معاشرے میں انھیں الگ بھی کیا جا سکتا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’وہ پانچ یا چھ لوگ تھے۔‘
سمیع السائی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’وہ ہنس رہے تھے اور لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ان میں سے ایک گارڈ نے مجھ سے پوچھا کہ تمھیں یہ سب کیسا لگ رہا ہے؟ ہم آپ کے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں اور آپ کی اہلیہ، بہن، والدہ اور آپ کے دوستوں کو بھی یہاں لانا چاہتے ہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’میں اس سب کے بیچ بس یہی سوچ رہا تھا کہ آخر میں مر کیوں نہیں گیا اور یہ سب ختم کیوں نہیں ہوا، کیونکہ تکلیف صرف ریپ کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جو مار پیٹ جاری تھی وہ بھی انتہائی تکلیف دہ تھی۔‘
انھوں نے کہا کہ اُن کے ساتھ یہ سب تقریبا 15 سے 20 منٹ تک جاری رہا اور اسی دوران گارڈز کی جانب سے ان کے جنسی اعضا کو بھی نشانہ بنایا گیا جو شدید تکلیف دہ تھا۔‘
اُن کاکہنا تھا کہ مار پیٹ تقریباً روزانہ ہی ہوتی رہی لیکن انھیں صرف ایک بار جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
بی بی سی نے اسرائیل پریزن سروس (آئی پی ایس) سےسمیع السائی کے الزامات سے متعلق بات کرنے کی کوشش کی تام اس پر اسرائیلی انتظامیہ کی جانب سے بس ایک ہی جواب ملا کہ ’ہم قانون کے مطابق کام کرتے ہیں اور اسرائیلی کی تحویل میں موجود تمام قیدیوں کی حفاظت، فلاح و بہبود اور حقوق کو یقینی بنایا جاتا ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ہم سمیع السائی کے الزامات سے آگاہ نہیں اور ہماری معلومات کے مطابق ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔‘
بی بی سی کی جانب سے آئی پی ایس سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا مبینہ جنسی تشدد کی تحقیقات شروع کی گئی ہیں اور کیا کوئی طبی ریکارڈ موجود ہے؟ تاہم بی بی سی کے اس سوال کے جواب میں اسرائیل پریزن سروس کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
جیل سے لیک ہونے والی فوٹیج اسرائیلی فوج کی سابق ملٹری ایڈووکیٹ جنرل میجر یفات تومر یروشالمی نے لیک کیاسرائیلی جیلوں میں فلسطینیوں کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات دہائیوں سے لگائے جا رہے ہیں تاہم ایک حالیہ کیس نے ملک کی قیادت کو ہلا کر رکھ دیا اور اسرائیلی معاشرے میں قیدیوں اور قیدیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے حوالے سے بڑھتی تقسیم کو مزید واضح اور گہرا کر دیا۔
اگست سنہ 2024 میں جنوبی اسرائیل کی سدے تیمان فوجی جیل کے اندر سے لیک ہونے والی سی سی ٹی وی میں غزہ کے ایک فلسطینی قیدی کو مبینہ طور پر فوجیوں کی جانب سے کسی تیز دھار آلے سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بننے والے فرد کے مقعد میں سوراخ ہو گیا۔ یہ حملہ مبینہ طور پر جولائی سنہ 2024 میں ہوا تھا۔
پانچ اسرائیلی فوجیوں پر شدید نوعیت کے جنسی تشدد اور قیدی کو جسمانی طور پر نقصان پہنچانے کے الزامات عائد کیے گئے۔
گزشتہ ماہ یہ فوجی اسرائیلی ٹیلی ویژن پر ایک پریس کانفرنس میں سامنے تو آئے مگر ان میں سے چار نے اپنے چہرے سیاہ کپڑے یا نقاب سے چھپا رکھے تھے۔
چینل 14 نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں پانچویں فوجی نے اپنا ماسک اتار کر اپنا چہرہ ظاہر کیا اور کہا کہ اس کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں تاہم ان تمام پانچ فوجیوں نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی تردید کی۔
یہ پریس کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہوئی جب یہ معاملہ سامنے آیا کہ جیل سے لیک ہونے والی سی سی ٹی وی اسرائیلی فوج کی ملٹری ایڈووکیٹ جنرل میجر جنرل یفات تومر یروشالمی نے لیک کی تاہم انھوں نے اکتوبر میں یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا کہ وہ اس کی مکمل ذمہ داری قبول کرتی ہیں۔
انھوں نے وضاحت کی کہ وہ ’فوج کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنا چاہتی تھیں تاہم اُن کا ایسا کہنا اُن دائیں بازو کے سیاستدانوں کے دعووں کی جانب ایک اشارہ تھا کہ جو یہ کہہ رہے تھے کہ یہ الزامات جھوٹے ہیں۔‘
انتہائی دائیں بازو کے حامیوں نے سدے تیمان جیل کے باہر ان پانچ فوجیوں کی حمایت میں احتجاج بھی کیا تھا۔
جولائی میں یفات تومر کے استعفے سے پہلے اسرائیل کی پارلیمنٹ میں ایک کمیٹی میں دورانِ سماعت اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کی دائیں بازو کی لیکوڈ پارٹی کے سیاستدان ہنوخ ملوڈسکی کو اس بات پر چیلنج کیا گیا اور یہ سوال اُن کے سامنے رکھا گیا کہ آیا کسی قیدی کے ساتھ بدسلوکی یا جنسی تشدد قابل قبول ہے یا نہیں۔
ایسے میں ہنوخ ملوڈسکی نے کہا کہ ’چپ ہو جاؤ، خاموش رہو۔‘ انھوں نے بات جذباتی انداز میں جاری رکھی اور کہا کہ ’جی ہاں، سب کچھ جائز ہے اگر وہ نخبہ (حماس کے وہ جنگجو جنھوں نے 7 اکتوبر کے حملے کیے) ہیں تو ہاں یہ سب جائز ہے۔‘
اسرائیل ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ کی جانب سے ہونے والی ایک حالیہ رائے شماری میں بتایا گیا کہ اسرائیلی عوام کی اکثریت ایسی صورت میں فوجیوں کے خلاف ہونے والی تحقیقات کی مخالفت کرتی ہے کہ جب ان پر غزہ کے فلسطینیوں کے ساتھ بدسلوکی کا شبہ ہو۔
احمد نے الزام لگایا کہ اسرائیلی جیل میں ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئیاحمد (فرضی نام) اپنی بیوی اور 11 بچوں کے ساتھ مغربی کنارے میں رہتے ہیں۔
انھیں جنوری سنہ 2024 میں اسرائیلی فوجیوں نے گرفتار کیا اور دہشت گردی کی ترغیب دینے کا مجرم قرار دیا کہ انھوں نے 7 اکتوبر کو حماس کی قیادت میں ہونے والے حملوں کی تعریف کی تھی اور ساتھ ہی اُن کے حق میں سوشل میڈیا پر بات کی تھی۔
حماس کی جانب سے اسرائیل پر یہ وہ حملے تھے کہ جن میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 251 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
احمد کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی اور 3000 شیکل (اسرائیلی کرنسی) جرمانہ کیا گیا۔
وہ اسرائیلی حراست میں شدید جنسی تشدد کا الزام لگاتے ہیں۔
احمد نے اپنے گھر میں ایک انٹرویو میں کہا ’جیل کے تین محافظوں نے مجھے باتھ روم میں لے جا کر مکمل طور پر برہنہ کر کے زمین پر گرا دیا۔‘
’انھوں نے میرا سر ٹوائلٹ پر رکھا اور تقریباً 150 کلو وزن والا آدمی میرے اوپر بیٹھ گیا۔ اس وجہ سے میں جھکا ہوا تھا۔ پھر میں نے کسی کی آواز سنی جو جیل کے ایک کتے سے بات کر رہا تھا۔ اس کتے کا نام میسی تھا، جیسا کہ فٹبالر۔‘
احمد نے اپنے ساتھ پیش آنے والے اس واقعے کی مزید تفصیل بتائی کہ کیسے اس کتے کی مدد سے اُن پر جنسی تشدد کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گارڈز نے میری پتلون اور انڈرویئر اتار دیے اور اس کے بعد کتا اُن کی پیٹھ پر چڑھ گیا۔
احمد کا کہنا تھا کہ ’میں اس کی سانس تک محسوس کر رہا تھا۔۔۔ پھر اس نے مجھ پر چھلانگ لگا دی۔۔۔ میں چیخنے لگا۔ جتنا زیادہ میں چیختا تھا اتنا ہی وہ مجھے مارتے رہے یہاں تک کہ میں تقریبا بے ہوش ہو گیا۔‘
احمد نے یہ بھی کہا کہ حراست کے دوران گارڈز انھیں باقاعدگی سے تشدد کا نشانہ بناتے تھے، وہ اُن کے جنسی اعضا پر بھی مارتے۔
مبینہ جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے 12 دن بعد احمد کو سزا مکمل ہو جانے پر رہا کر دیا گیا۔
ہم نے احمد سے پوچھا کہ کیا اُن کے دعووں کے بارے میں کوئی طبی دستاویزات ہیں؟ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے پاس کوئی دستاویزات نہیں ہیں۔
بی بی سی کی جانب سے آئی پی ایس سے رابطہ کیا گیا تاکہ احمد کے الزامات کا جواب اور مبینہ بدسلوکی کی تحقیقات کے بارے میں پوچھا جا سکے لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔
اسرائیلی جیلوں میں 9000 سے زائد فلسطینی قیدی موجود ہیں جو 7 اکتوبر کے حملوں سے پہلے کی تعداد سے تقریباً دوگنا ہے۔ بہت سے لوگوں پر الزامات تو لگائے گئے ہیں مگر کبھی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔
اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے تشدد کی حالیہ رپورٹ میں 7 اکتوبر کے حملوں کی واضح مذمت کی گئی اور اسرائیل کے ردعمل اور غزہ میں انسانی جانوں کے بڑے نقصان پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔
7 اکتوبر کو اغوا کیے گئے کچھ یرغمالیوں اور حملوں میں زندہ بچ جانے والوں نے حماس اور اس کے اتحادیوں پر بھی جنسی اور جسمانی تشدد کے الزامات لگائے ہیں۔
حماس نے اسرائیل کے ساتھ تعاون کے الزام میں غزہ میں فلسطینیوں کو سرعام پھانسیاں بھی دی ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کے زیرِ انتظام جیلوں میں بھی جنسی تشدد کے الزامات سے متعلق خبریں سامنے آئی ہیں جو مغربی کنارے کے ان حصوں میں ہیں جہاں اسرائیلی کنٹرول نہیں۔
بی بی سی نے ایک سابق قیدی سے بات کی، جس نے کہا کہ پی اے سکیورٹی افسران نے اسے مارا پیٹا اور انھیں بجلی کے جھٹکے دیے۔
بی بی سی نے پی اے سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا تاہم اس سے قبل فلسطینی انتظامیہ کی جانب سے بدسلوکی کے الزامات کی تردید کی گئی۔
میگیدو جیل کی فائل فوٹو، جہاں سمیع السائی کا کہنا ہے کہ انھیں حراست میں رکھا گیااکتوبر میں اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے تشدد کو جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں انسانی حقوق کی پانچ اسرائیلی تنظیموں نے کہا کہ ’تمام حراستی مراکز میں تشدد اور ظالمانہ، غیر انسانی اور توہین آمیز سلوک میں ڈرامائی حد تک اضافہ ہوا اور فلسطینیوں کو نشانہ بنانے والی ریاستی پالیسی کے طور پر یہ واقعات سامنے آئے ہیں۔‘
اسرائیل میں تشدد کے خلاف عوامی کمیٹی عدالہ، بچوں کی حراست کے خلاف کام کرنے والی تنظیم ہموکد اور فزیشنز فار ہیومن رائٹس اسرائیل نے ایسے شواہد پیش کیے ہیں کہ جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ’موجودہ حفاظتی اقدامات کو ختم کر دیا اور اب حراستی عمل یعنی گرفتاری سے لے کر قید تک سب کے دوران فلسطینیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اعلیٰ حکام ان زیادتیوں کی منظوری دیتے ہیں جبکہ عدالتی اور انتظامی نظام مداخلت نہیں کرتے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایسی سرگرمیوں کے نتیجے میں زیر حراست فلسطینیوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا اور غزہ جنگ کے آغاز سے اگست 2025 کے آخر تک کم از کم 94 اموات ہوئی ہیں جن کے شواہد دستاویزات کی صورت میں موجود ہیں۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر نے اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے تشدد کے الزامات کو ’غلط معلومات‘ قرار دے کر مسترد کر دیا۔
ڈینیئل میرون نے گزشتہ ماہ ماہر پینل کو بتایا کہ اسرائیل ’اپنی اخلاقی اقدار اور اصولوں کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہے چاہے دہشتگرد تنظیم کی جانب سے چیلنجز کا سامنا ہی کیوں نہ ہو۔‘
انھوں نے کہا کہ متعلقہ اسرائیلی ادارے تشدد کی ممانعت کی مکمل پابندی کرتے ہیں اور اسرائیل جنسی اور صنفی بنیاد پر تشدد کے منظم استعمال کے الزامات کو مسترد کرتا ہے۔