صرف 2 گھنٹے کے لیے لاکھوں کا ہال ۔۔ آج کے اس مہنگائی کے دور میں شادی صرف 50 ہزار میں کیسے کی جاسکتی ہے؟

image

شادی ایک خوبصورت بندھن ہے لیکن آج کے اس مہنگائی کے دور میں شادی کرنا لڑکا اور لڑکی کے گھر والوں کے لیے مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

پرانے دور میں ایک رواج عام تھا کہ شادی کی تقریبات گھر میں ہی منعقد کی جاتی تھیں۔ لڑکے کا نکاح مسجد میں پڑھا دیا جاتا تھا اور لڑکی کا گھر پر۔ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ آج کے دور میں شادی گھروں میں کرنے کا سلسلہ مکمل طور پر اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔ بلکہ آج بھی پاکستان کے کئی شہروں میں گھروں میں شادی کی سادہ سی تقریب کی جاتی ہیں جس میں صرف گھر کے افراد ہی شامل ہوجاتے ہیں۔

لیکن آج دیکھا جاتا ہے کہ 2 گھنٹے کی شادی کی تقریب میں لاکھوں روپے یوں ہی اڑا دیئے جاتے ہیں جبکہ لڑکی کے گھر والوں کو مہنگا ترین جہیز دینا پڑتا ہے۔

پھر مایوں کی تقریب علیحدہ ہوتی ہے ، پھر بارات کے لیے مہنگا ائیر کنڈیشن والا بینکوئٹ، پھر جا کر آتی دعوتِ ولیمہ کی تقریب۔

یہ سب کچھ دولت مند افراد کے لیے آسان ہوتا ہوگا لیکن تیس پینتیس ہزار کی ملازمت کرنے والا شخص جس کی اتنی استعطات نہیں وہ کیسے آج کے دور میں اپنے بچوں کی شادی کریں؟

اس کا سیدھا سا عمل یہ کیا جا سکتا ہے کہ لڑکا اور لڑکی کی شادی تقریب مہنگے ہالز کے بجائے گھروں میں کی جائے لڑکے کا نکاح مسجد میں پڑھایا جائے جبکہ لڑکی کا گر پر۔ مایوں کی تقریبات کرنے سے گریز کیا جائے کیونکہ یہ صرف پیسوں کا ضیاع ہے۔ لاکھوں روپے کا بینکوئٹ کرنے سے بہتر ہے کہ وہی پیسے لڑکا اور لڑکی کو دے دیئے جائیں جو ان کے آگے چل کر کام آسکیں۔

ہم آپ کو دو بہترین زندہ مثالیں بھی دے سکتے ہیں جنہوں نے کم خرچ میں شادی کی۔

1- پہلی مثال

سال 2014 میں عثمان اور خوشبو کی عام سی ہونے والی شادی کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں جو معاشرے میں رہنے والے لوگوں کے لئے ایک نئی مثال بنی۔

شادی میں صرف اور صرف بارات کی تقریب ہوئی، شادی کے کارڈ پر سادگی سے دونوں کی رخصتی کے بارے میں لکھا ہوا تھا جس کے بارے میں دولہے میاں کہتے ہیں:

ہم نے شادی میں نہ جہیز لیا اور نہ مہنگے تحفے لیئے، شادی کارڈ بھی سادگی سے چھپوایا، جس پر لکھا تھا کہ جہیز کی فرسودہ رسم کو ختم کریں، تحفے بالکل نہ لائیں، ہم واپس کردیں گے، ہمیں کسی سے کچھ بھی نہیں چاہیئے، فضول رسومات شادی میں بالکل نہیں ہوں گی، جہیز اور مہنگی رسومات کا سارا پیسہ بچا کر دلہن دولہا یہ رقم تھیلیسیمیا کے مریضوں کو دے دیں گے، شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ لازمی کروائیں، ہم نے بھی کروایا ہے۔

اس دلہن نے اپنی شادی کا جوڑہ بھی کسی ضرورت مند کو دے دیا اور جتنی بھی سلامی ان کو ملی اور ولیمے کی تقریب تک کے سارے پیسوں کو جمع کرکے انہوں نے تیلیسیمیا کے مریضوں کے علاج کے لئے وقف کردیئے اور اس میں ان کے گھر والوں نے ان کی بہت مدد کی۔

2- دوسری مثال

دوسری سادی اور کم خرچے میں شادی کی ایک جیتی جاگتی مثال ہمارے سامنے ہے۔رواں سال جولائی میں نوبیاہتا پاکستانی جوڑے نے دلچسپ اور انوکھے انداز سے اپنے ولیمے کی تقریب کا انعقاد کر کیا جس سے انٹر نیٹ صارفین سمیت عام عوام کو متاثر کُن پیغام گیا تھا۔

خیبر پختونخواہ کے ڈسٹرکٹ بنو کے اسِسٹینٹ کمشنر عثمان اشرف اور اہلیہ ڈاکٹر نتاشہ رضوان نے کچھ دن قبل شادی کی اور اپنے ولیمے کی تقریب کا متاثر کن اور غیر روایتی انداز سے انعقاد کر کے سب کو حیران کر دیا ہے۔

ایک نیوز ویب چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے عثمان اشرف نے بتایا ہے کہ عالمی وبا کورونا وائرس کے پیشِ نظر بڑےاور روایتی اجتماعات کا انعقاد بے وقوفی ہے لہٰذا ہمیں یہ مناسب لگا کہ ایسی صورتحال میں مستحق بچوں کے ساتھ ایک چھوٹی سی تقریب کا اہتمام زیادہ مناسب ہے۔

کم خرچے میں شادی کی تقریب کیسے کریں؟

کم خرچے میں شادی کی بات ہو رہی ہے تو گھروں میں ہونے والی شادی کی تقریب میں آپ کوئی بھی 2 ڈشیں رکھوا سکتے ہیں اور ایک ڈش میٹھے کی۔

اگر گھر میں شادی کی تقریب کرنا ممکن نہ ہو تو ایسی صورتحال میں آپ کے پاس 2 آپشنز اور درکار ہیں۔ پہیلا آپشن یہ کہ ولیمہ کی تقریب کے لیے آپ کسی اچھے ریسٹورینٹ میں قریبی اہلخانہ کی دعوت کرسکتے ہیں جودس سے پندرہ ہزار میں آپ کو مل جائے گا۔

دلہن بننے کے لیے لڑکیاں مہنگے پارلرز سے تیار ہونے کے بجائے گھروں میں بھی اچھا تیار ہوسکتی ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا پر درجنوں میک اپ ٹیو ٹوریلز موجود ہیں جن کی مدد سے آپ گھر میں تیار ہو سکتی ہیں

بعد ازاں ولیمہ کی تقریب بھی آپ اپنے گھروں یا ممکن ہو تو کہیں باہر اپنا سیٹ اپ لگوا کر سکتے ہیں۔ یہ کچھ ایسی تجاویز بتائی گئی ہیں جس سے ایک عام آدمی کم خرچے میں شادی کی تقریب کر سکتا ہے۔

دیکھا جائے تو باآسانی پچاس سے ساٹھ ہزار میں بھی باآسانی سادگی سے شادی کی تقریب کی جاسکتی ہے اور ہمارا مذہب بھی یہی پیغام دیتا ہے کہ ہمیں فضول خرچی نہیں کرنی چاہیے۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US