انسان جب کبھی کسی چیز کا ارادہ کر لیتا ہے تو اسے کوئی مشکل یا پریشانی کامیابی سے روک نہیں سکتی ہے۔
ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو ایک ایسے شخص کے بارے میں بتائیں گے جس کی کمزوری اس کی کامیابی کے آڑے نہیں آ سکی۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے اسلام خان صرف 3 فٹ کے ہیں لیکن ان کی محنت، لگن اور حوصلے نے انہیں ایک کامیاب شخص بنا دیا ہے۔ اسلام خان اگرچہ قد میں چھوٹے ہیں لیکن وہ خلل کو اپنے ذہن میں آنے نہیں دیتے ہیں۔
اسلام خان نے لاہور کے ایک ریستوران میں بطور ویٹر کام شروع کیا تھا، ان کے حوصلے، جوش و جذبے اور ایمانداری نے انہیں اسی ریستوران کا مینیجر بنا دیا ہے۔
پہلے اسلام خان کسی اور کی رہنمائی میں کام کر رہے تھے مگر اب وہ دوسروں کو سمجھاتے ہیں اور کام سکھاتے ہیں۔ 35 سالہ اسلام خان نے سوشل پاکستان کو انٹرویو دیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ جب آپ کوئی کام کرتے ہیں، تو آپ کو نیک نیت، دیانت دار اور ایماندار ہونا چاہیے۔
اسلام خان 12 سال پہلے اس ریستوران میں آئے تھے، وہ کہتے ہیں کہ میں جب اس ریستوران میں آیا تھا تو بطور ویٹر کام کرتا تھا۔ مگر جب مالکان کو اندازہ ہوا کہ میں مزید کام کر سکتا ہوں تو انہوں نے مجھے کاؤنٹر پر بٹھادیا جہاں میں نے تین سے چار سال کام کیا۔
اور اب الحمداللہ میں اسی ریستوران کی تین برانچز کو مینج کر رہا ہوں۔ اسلام خان کہتے ہیں کہ آج میں جس مقام پر ہوں، اس کا کریڈٹ میرے والد کو جاتا ہے جنہوں نے مجھے اتنا پڑھایا لکھایا کہ میں آج ریستوران کا مینیجر ہوں۔ جبکہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سب اللہ کا کرم ہے۔
اسلام خان غصے کے حوالے سے بھی مشہور ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ اسلام میں غصہ حرام ہے مگر جب ویٹر کوئی کام صحیح طرح نہیں کرتا یا دیر سے آتا ہے تو میں اسے ڈانٹ دیتا ہوں۔ البتہ گالم گلوچ، اور بد تہذیبی کا استعمال نہیں کرتا۔
اسلام خان کا ایک پرسنل اسسٹنٹ بھی ہے جو کہ انہیں ہر لمحہ اپ ڈیٹ رکھتا ہے۔ جبکہ قد سے متعلق اسلام خان کہتے ہیں کہ دنیا کبھی بھی کسی کو کسی بھی حال میں خوش نہیں دیکھ سکتی ہے، اگر کوئی لمبا ہے تو اسے کہتی ہے لمبا کیوں ہے، کوئی چھوٹا ہے تو چھوٹا کیوں ہے۔
اسلام خان کی زندگی کا ایک واقعہ ایسا تھا جس نے ان کی زندگی بدل دی تھی۔ شارجہ میں جب اسلام خان ایک ریستوران میں کام کرتے تھے تو وہاں ایک شخص انہیں روز کہتا تھا کہ میرے یے فریج سے بوتل لا کر دو۔ جبکہ انہیں معلوم تھا کہ میرا ہاتھ بوتل تک نہیں پہنچتا تھا، پھر بھی وہ بولتے تھے۔
میں دوسرے ویٹر کو بول کر انہییں بوتل دے دیتا تھا۔ ایک دن میں نے دوسرے ویٹر کو بولا تو ان صاحب نے اس ویٹر کو منع کر دیا اور مجھے مخاطب کر کے کہا کہ یہ کرسی یہاں رکھی ہے اس پر چڑھ کر خود بوتل نکالو۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے تمہارا مزاق نہیں اڑایا ہے بلکہ یہ بات بتانے کی کوشش کی ہے کہ تم ہر کام کر سکتے ہو، احساس محرومی کا شکار نہ ہو۔ اس واقعے کے بعد مجھے حوصلہ ملا تھا۔