انسان کا ماضی اسے ہر حال میں یاد رہتا ہے، یہ ماضی اسے آگے بڑھنے میں کچھ کرنے میں مدد کرتا ہے۔ آج جس شخصیت کی بات کرنے جا رہے ہیں وہ بھی اپنے ماضی کو بدل کر اب ایک کامیاب شخص بن چکے ہیں۔
ملک ریاض انہی شخصیات میں سے ہیں جن کے پاس کبھی دو وقت کے کھانے کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے، لیکن آج ملک ریاض ایک مشہور نام ہے جو کہ دنیا بھر میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔
ملک ریاض کا ماضی بہت سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے، ملک ریاض کے والد ایک نجی کانٹریکٹر تھے لیکن وہ بینک رپٹ ہو چکے تھے جس کی وجہ سے ملک ریاض کے گھر کے حالات کچھ اچھے نہیں تھے۔ والد کے بینک کرپٹ ہونے کا اثر یہ ہوا کہ ملک ریاض کو فیس کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے مجبورا اسکول چھوڑنا پڑا۔ ملک ریاض نے اسکلول چھوڑ کر ملٹری اینجینئرنگ سروس میں کلرک کے طور پر بھرتی ہو گئے، اس دوران ملک ریاض پارٹ ٹائم میں گھروں میں رنگ کرنے کا کام بھی کرتے رہے۔ کئی مشکلات پیش آئیں مگر ہمت نہیں ہاری۔
آج بحریہ ٹاؤن جیسی مشہور کنسٹرکشن کمپنی کے مالک ملک ریاض پر ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب ان کی بڑی بیٹی کو فوڈ پوائزن ہوا تھا، ملک ریاض کہتے ہیں کہ میری بیٹی مر رہی تھی مگر میرے پاس پیسے نہیں تھے فیس کے۔ ڈاکٹر کو دینے کے لیے فیس نہیں تھی تو ٹیکسی والے سے پیسے لیکر ڈاکٹر کو دیے، پھر گھر آکر پیتل کا ایک قیمتی برتن بیچ کر ٹیکسی والے کو پیسے دیے۔ بیٹی کی بیماری کی وجہ سے گھر کے برتن تک بیچنے لگ گیا تھا۔
1970 میں ملک ریاض کے ایک دوست نے انہیں کانٹریکٹنگ بزنس میں پیسہ لگانے کا مشورہ کیا، اس سنہری کو موقع کو ملک ریاض نے خوب استعمال کیا اور دن رات کی محنت نے ملک ریاض کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ آج وہ دنیا بھر میں ایک کامیاب بلڈر کے طور پر مشہور ہیں۔
آج ملک ریاض تمام تر مشکلات کو برداشت کر کے اپنی بیوی بینا ریاض، بیٹے علی ریاض اور تینوں بیٹیوں امبر شہزاد ملک، آسیہ عامر ملک اور پشمینہ زین ملک کے ساتھ خوش و خرم زندگی بسر کر رہے ہیں، اہلیہ نے ہر مشکل وقت میں ملک ریاض کا ساتھ دیا ہے۔ جبکہ واضح رہے ملک ریاض کے پوتے پوتیاں بھی ہیں۔
دور حاضر میں اس وقت ملک ریاض کافی مشکلات سے گزر رہے ہیں، بحریہ ٹاؤن کراچی اور رہائشیوں کے واقعے کے بعد سے بحریہ ٹاؤں اور ملک ریاض کو کافی مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ عوامی ردعمل بھی کچھ خاص اچھا نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک ریاض اس پوری صورتحال کو کس طرح سے سامنا کرتے ہیں۔