دنیا میں ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جس ہر ایک کو ہلا کر رکھ دیا ہے، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔
ہماری ویب ڈاٹ کام ایک ایسی ہی خبر لے کر آئی ہے جس میں آپ کو اس واقعہ سے متعلق بتائیں گے جس کی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان شدید غم کا شکار ہوئے تھے۔
20 نومبر 1979 کا دن مسلمان کسی صورت نہیں بھول پائیں گے کیونکہ اس دن خانہ کعبہ کو عام مسلمانوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ ایک مصلحہ گروہ کی جانب سے خانہ کعبہ پر حملہ کیا گیا تھا اور خانہ کعبہ میں موجود مسلمانوں کو یر غمال بنا لیا گیا تھا۔
یہ وقت ایسا تھا جب مسلمان فجر کے لیے اٹھتے ہیں اور نماز سے دن کی شروعات کرتے ہیں۔ عین فجر کے وقت جہیمان بن محمد بن سیف العتیبی کی سربراہی میں 400 سے 500 افراد پر مشتمل گروہ نے مکہ پر قبضہ کرنے کی غرض سے حملہ کیا تھا۔
20 نومبر 1979 کو فجر کی نماز کے موقعے پر اپنے تقریباً 500 ساتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ میں داخل ہو کر دروازے بند کر دیے اور ایک لاکھ نمازیوں کو یرغمال بنا کر مسجد کو اپنے زیر انتظام لے لیا۔
انھوں نے اپنے بہنوئی محمد بن عبداللہ القحطانی کو امام مہدی قرار دیا۔ یہ صدیوں میں پہلا موقع تھا جب خانہ کعبہ عام مسلمانوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
چونکہ اس وقت مواصلاتی نظام آج کے دور کی طرح کا نہیں تھا یہی وجہ تھی کہ سعودی حکومت کی جانب سے اس معاملے سے نمٹنے کے لیے اور عالم اسلام میں بدنامی سے بچنے کے لیے مواصلاتی نظام کو بند کر دیا۔ لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی کیونکہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔
جہیمان اپنے 400 سے 500 ساتھیوں سمیت خانہ کعبہ میں موجود ہزاروں مسلمانوں کو یرغمال بنا چکا تھا۔ سعودی سیکیورٹی فورسز اگرچی اصلحہ سے لیس تھیں مگر اس حد قابل نہیں تھیں کہ ان سے لڑ سکے۔
سعودی حکومت نے اس واقعے سے نمٹنے کے لیے اپنی فوج بھیجی لیکن خانہ کعبہ کے تقدس اور کم تربیت کی وجہ سے سعودی فوجی بغاوت کرنے والوں کے خلاف متاثر کن کارروائی کرنے میں ناکام رہی۔
سعودی حکومت کی جانب سے فرانسیسی کامنڈوز اور پاکستانی فوج سے رابطہ کیا گیا اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی طے کرنے کو کہا۔ چونکہ خانہ کعبہ میں کوئی غیر مسلم داخل نہیں ہو سکتا ہے اسی لیے فرانسیسی کمانڈوز نے سعودی اہلکاروں کو ٹرین کیا جبکہ سعودی فورسز کی مدد پاکستانی فوج کی جانب سے کی گئی تھی۔
یعنی پاکستانی فوج وہ واحد فوج ہے جس نے خانہ کعبہ کی حفاظت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت جب عالم اسلام کے بڑے بڑے نام موجود ہیں۔ پاکستان جیسے مشکلات کا شکار اس ملک نے خانہ کعبہ کو اس فسادی گروہ سے نجات دلائی تھی۔
جہیمان بن محمد کے اس حملے میں 1 ہزار سے زائد مسلمان شہید ہوئے تھے جبکہ لاکھوں مسلمان محصور ہو گئے تھے۔ صحافی یاروسلاف ٹرافی موو نے اس واقعے پر مبنی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ فرانسیسی کمانڈوز نے سعودی فوج کو ہنگامی تربیت دی تاکہ وہ شدت پسندوں کا خاتمہ کر سکیں لیکن کیونکہ مکہ میں غیر مسلم افراد کا داخلہ ممنوع ہے تو سعودی اہلکار پاکستانی فوجیوں کی مدد سے چار دسمبر کو یہ بغاوت بالآخر ختم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
خانہ کعبہ میں جہیمان کی جانب سے پلان بنایا گیا تھا کہ فورسز جب اندر آئیں گے تو اصلحہ کا استعمال کیا جائے گا۔ چونکہ جہیمان کے مصلح گروہ بیسمنٹ میں موجود تھا جہاں سے آنے اور جانے کا ایک ہی راستہ تھا اسی لیے وہ اصلحہ کا استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
جیسے ہی سعودی فورسز اندر آئیں تو وہ انہیں فائرنگ کر کے ختم کریں لیکن سعودی فورسز کے پلان کے مطابق ان پر آگ میں لپٹے ہوئے ٹائر پھیکے جائیں اور ٹئیر گیس بھی لیکن کارآمد نہ ہو سکا۔
اسی طرح آخری پلان کے مطابق پاکستانی فورسز اور سعودی فورسز کی جانب سے اس فسادی گروہ کو ناکام بنانے کے لیے بیسمنٹ میں پانی چھوڑا گیا، اور پھر اس پانی میں کرنٹ کی تاریں ڈال دیں۔ چونکہ پاکستانی فورس اور سعودی حکومت خانہ کعبہ میں کسی قسم کا خون خرابہ نہیں چاہتی تھی اور حرم شریف کی حرمت کا خیال تھا۔ اسی لیے یہ پلان اپنایا گیا۔
یہ پلان کامیاب ہوا اور جہیمان سمیت کئی ساتھی جہنم واصل ہوئے جب کئی گرفتار ہوئے جنہیں بعدازاں پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا گیا تھا۔
اس دن ہوا کیا تھا:
امام حرم شیخ محمد ابن صبیہ جب فجر کی نماز سے فارغ ہوئے تو کعبہ خانہ میں فائرنگ کی آوازیں سنیں۔ اسی دوران ایک شخص سامنے آیا اور امام حرم کا مائک لے لیا جو وہ لگایا کرتے تھے۔ یہ شخص جہیمان ہی تھا جس نے مسلمانوں کو سعودی حکومت کی کرپشن، اسلام مخلاف سرگرمیوں سے باور کرایا۔ اس دوران اس نے کئی احادیث بھی کہیں جو اگرچہ غلط طور پر استعمال کی گئیں۔ جبکہ امام مہدی کے ظہور کا بھی اعلان کیا۔
جہیمان رکن اور مقام کے بیچ میں کھڑا تھا، عین اس جگہ جہاں حجر اسور رکھا ہوا ہے۔
یہ حملہ ایسا تھا کہ اس دوران خانہ کعبہ میں آزان اور نماز نہیں ہو رہی تھی۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا ہوگا۔ ہو سکتا ہے بہت سے لوگوں کو علم نہ ہو مگر جہیمان نے حملہ سے ایک دن پہلے ہی اصلحہ جنازے کی صورت میں خانہ کعبہ تک پہنچا دیا تھا، یعنی جنازے میں میت نہیں تھی بلکہ اصلحہ تھا۔ خانہ کعبہ کے مینار پر اسنائپر تعینات تھے جو کہ سعودی فورسز کو نشانہ بنا رہے تھے۔ جس کا علم سعودی فورسز کو نہیں ہوا تھا۔
جہیمان بن محمد بن سیف العتیبی:
جہیمان بن محمد کا تعلق سعودی عرب کے عطیبہ قبیلے سے تھا جسے ایک معتبر قبیلہ سمجھا جاتا تھا۔ جہیمان بن محمد کنگ عبداللہ کے طرز حکومت کے خلاف تھا۔ جہیمان کا خیال تھا کہ سعودی حکومت مغریبت پسندی کو فوقیت دے رہی ہے جبکہ ٹی وی کے منفی اثرات اور مخلوط ماحول کے قیام پر زور دینا شروع کر دیا۔
جہیمان کی نظر میں سعودی حکومت اور بادشاہت نے اسلامی قوانین اور اسلام سے بغاوت کی تھی۔ جہیمان کی شدت پسندی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی، جس کے بعد 1978 میں سعودی حکومت نے انھیں ان کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ حراست میں لے لیا۔
رہائی ملنے کے باوجود العتیبی کے خیالات میں تبدیلی نہیں آئی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر انھوں نے نئی اسلامی صدی کے آغاز پر خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔