چین کی ایک عدالت نے کمیونسٹ پارٹی تبت کے سابق سربراہ کو لگ بھگ 50 ملین ڈالر کی کرپشن کے جرم میں سزائے موت سنا دی ہے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بیجنگ کی انٹرمیڈیٹ کورٹ نے بدھ کو وی چیٹ پر اپنے بیان میں بتایا کہ وو ینگ جی سنہ 2016 سے 2021 تک خودمختار علاقے تبت میں کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری کے عہدے پر فائز رہے۔عدالت کے بیان کے مطابق اس دوران انہوں نے غیرقانونی طور پر 343 یوان یعنی چار کروڑ 78 لاکھ ڈالر رشوت وصول کی۔عدالت نے مزید کہا کہ اس عہدے دار کے یہ جرائم ’خاص طور پر سنگین‘ تھے اور ان کے سماجی اثرات بھی کافی زیادہ منفی تھے، یہ جرائم ملک اور عوام کے لیے ’خاص طور پر بھاری نقصان‘ کا باعث بنے۔ایک دہائی سے زائد عرصہ قبل اقتدار میں آنے والے چین کے صدر شی جن پنگ سرکاری بدعنوانی کے خلاف وسیع پیمانے پر مہم چلائی ہے۔تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ سیاسی حریفوں کو میدان سے ہٹانے کا ایک حربہ ہے۔عدالت نے کہا کہ وو ینگ جی نے 2006 تک اس خطے (تبت) میں اپنے سرکاری عہدوں کا استعمال کمپنیوں اور مختلف افراد کو معاہدوں اور کاروباری امور میں مدد فراہم کرنے کے لیے کیا۔عدالت نے کہا کہ انہیں دو برس کی مہلت اس وقت دی گئی جب انہوں نے اعترافِ جرم کیا اور اپنے اقدامات کی وہ تفصیلات بتائیں جو اس سے قبل حکام کے علم میں نہیں تھیں۔
وو ینگ جی کو دسمبر میں ’نظم و ضبط کی سنگین خلاف ورزیوں‘ پر پارٹی سے نکال دیا گیا تھا (فائل فوٹو: روئٹرز)
چین میں ایسے مقدمات میں اگر سزا یافتہ شخص قید کی مدت کے دوران مزید کوئی جرم نہیں کرتا تو ایسی معطل شدہ سزائے موت کو عام طور پر عمر قید میں بدل دیا جاتا ہے۔
وو ینگ جی کو دسمبر میں بدعنوانی سے متعلق چین کی عام روایت کے مطابق ’نظم و ضبط کی سنگین خلاف ورزیوں‘ پر پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔وو ینگ جی کو یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد تبت کے محکمہ تعلیم کی ذمہ داری تفویض کی گئی تھی اور تقریباً دو دہائیوں تک وہ اس عہدے پر فائز رہے۔اُدھر اقوام متحدہ کے ماہرین نے چینی حکومت کی ان پالیسیوں پر خدشات کا اظہار کیا ہے جن کا مقصد تبتی عوام کو ثقافتی، مذہبی اور لسانی طور پر اپنے ساتھ شامل کرنے کے لیے سکول سسٹم کا استعمال کیا جا رہا ہے۔امریکی محکمہ خزانہ نے تبت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سنہ 2022 میں وو ینگ جی پر پابندیاں عائد کی تھیں۔