ہمارے بچے گاجر مولی کے علاوہ کوئی اور سبزی دیکھ لیں تو ڈر جاتے ہیں ۔۔ 2 دریاؤں کے درمیان موجود ایسا جزیرہ جہاں کے لوگ پتھر کے دور کی زندگی گزاررہے ہیں؟

image

آپ نے بہت سنا ہوگا کہ کسی گاؤں میں سڑک نہیں جاتی تو انکا باہر کی دنیا سے رابطہ نہیں تو کوئی لوگ اپنے گاؤں سے ہی باہر نہیں جاتے مگر آج ہم آپکو بتائیں گے پاکستان کے مشہور دریا کے پاس ایک ایسا جزیرہ ہے جو آج بھی کیسے پتھر کے دور میں رہ رہا ہے۔ اس خبر سے متعلق معلومات ہم نے ڈیجیٹل پاکستان نامی یوٹیوب چینل سے حآصل کیں ہیں، آئیے جانتے ہیں۔

تو یہ جزیرہ نما گاؤں دریائے چناب اور دریائے راوی کے سنگم پر واقع ہے، گاؤں دریا کے سنگم پر تو واقع ہے مگر بلکل بنجر پڑا ہے کہیں بھی ہریالی نام کی چیز نہیں۔اور اب اس گاؤں کی جو بات آپکو بتانے جا رہے ہیں۔

اسے سن کر آپکے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے اور وہ بات یہ ہے کہ یہاں کے بچوں کو بلکل یہ نہیں پتا کہ اسکول، بازار اور مدرسہ کیا چیز ہوتی ہے؟

اسی علاقے کے بزرگ نے بتایا کہ جب ہمارے یہاں آج سے کچھ سال قبل ایک باہر سے پڑھا لکھا آدمی آیا تو اس نے ہم سے کہا کہ یہ کن چیزوں میں اپنی زندگی گزار رہے ہو۔

باہر نکلو اپنے بچوں کو اسکول، کالج بھیجو تا کہ یہ پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بن سکیں اور اپنی زندگی پر تعیش طریقے سے آسانی کے ساتھ گزار سکیں۔

یہی نہیں اس آدمی نے کئی بچوں کو کتابیں اور اسکول بیگ بھی فراہم کیے تا کہ یہ روز دریا کے اس پار جا کر پڑھ سکیں لیکن یہ بچے دریا کے پاس آ کر صبح 8 بجے بیٹھ جاتے ہیں۔

اور شام 4 یا 5 بجے گھر واپس چلے جاتے ہیں کیونکہ گاؤں سے باہر جانے کا کوئی راستہ نہیں جب دریا کا پانی خشک ہوتا ہے تب ہی کہیں ملک کے دوسرے حصے میں جایا جا سکتا ہے لیکن ایسا 4 سے 5 سال میں جا کر ہوتا ہے۔

مزید یہ کہ جب یہ شخص یہاں سے گیا تو گاؤں کے بچے اپنے والدین سے پوچھنے لگے کہ یہ اسکول کیا ہوتا ہے ڈاکٹر کیا ہوتا اور وہاں جا کے ہم کیا کریں۔

جب ہم نے انہیں سمجھایا کہ آپ لوگ بھی گاؤں میں حکیم ہے ہمارے تو آپ لوگ اس ہی کی طرح لوگوں کا علاج کرو گے بس آپ لوگ اس سے بھی اچھے بن جاؤ گے۔

پھر بھی بچے تو بچے ہیں سمجھے نہیں اور کہنے لگے کہ کیا یہ اسکول اور استاد ہم اپنی بھینس بیچ کر خرید سکتے ہیں کیونکہ انہیں یہی پتا ہے کہ جس چیز کی ضرورت ہو اسے دوکان سے خریدا جا تا ہے۔

اب بچوں میں بھی پڑھنے کا شوق ہے مگر راستہ نہیں گاؤں سے باہر جانے کا۔ یہ جزیرہ نما گاؤں تو اتنا ترقی پذیر ہے کہ یہاں کہ بچوں اور بڑوں کو یہ تک نہیں معلوم کہ لاہور ، کراچی اور اسلام آباد نام کے بھی کوئی شہر ہیں اور یہ بھی پاکستان کا ہی حصہ ہیں۔

لوگ آج کل گھر کی سادہ چیزیں کم اور باہر کے کھابے اور لذیز پکوان بہت شوق سے کھاتے ہیں جیسا کہ برگر، بریانی، نہاری اورپائے وغیرہ مگر انہیں بس یہی معلوم ہے کہ گاجر، مولی، آلو وغیرہ کیونکہ یہی چند ایک سبزیاں اس گاؤں میں پیدا ہو تی ہیں۔

اور اگر کبھی اتفاق سے یہ فروٹ اور کوئی دوسری سبزی دیکھ بھی لیں تو اس کے قریب نہیں جاتے کہ یہ آخر ہے کیا؟ کہیں ہمیں اس سے نقصان نہ پہنچ جائے۔

اب اپ یہاں یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ لوگ پھر کیسے اپنا علاج اور گزر بسر کرتے ہیں بقول اسی بزرگ آدمی کے کہ گاؤں کے لوگوں کو باہر آئے شہری کچھ نہ کچھ سامان اور کھانے پینے کی چیزیں دے جاتے ہیں۔

اور یہ بھی تب ممکن ہوتا ہے جب دریا سوکتے ہیں مزید یہ کہ بڑے سے بڑا مرض ہو اس کا علاج گاؤں میں ہپی پراننے پرانے ٹوٹکوں سے کیا جاتا ہے یا پھر حکیم وغیرہ سے کروا لیتے ہیں مختصراََ یہ کہ یہاں کہ لوگ اللہ پاک کے ہی سہارے زندگی گزار رہے ہیں۔

آخر میں بس یہاں آپکو یہ بتانا چاہیں گے یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے بھی پڑھ لکھ کر دوسروں کی طرح سلیقے مند بن سکیں اور صدیوں پرانی اس روایت کو توڑ سکیں اور جاہلیت کے اندھیروں سے باہر نکل آئیں۔

کم از کم یہاں ایک مدرسہ اور چھوٹا سا ہی اسکول بنا دیں تا کہ بچوں کو مستقبل سنور جائے۔


About the Author:

Faiq is a versatile content writer who specializes in writing about current affairs, showbiz, and sports. He holds a degree in Mass Communication from the Urdu Federal University and has several years of experience writing.

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts