خوبصورت کنیز کی خاطر بیٹے کو بھی قتل کر دیا ۔۔ خوبصورت خواتین نے ان شخصیات کی زندگی کو تباہ کر دیا؟

image

ایسے کئی واقعات ہمارے سامنے موجود ہیں جن میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جس نے سب کو حیران بھی کیا اور سب کی توجہ بھی حاصل کی۔

ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ چند ایسے ہی رہنماؤں اور مشہور شخصیات کے بارے میں بتائیں گے۔

ہٹلر:

ایڈولف ہٹلر کا شمار جرمنی کے ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جو کہ دنیا بھر میں دوسری جنگ عظیم کی شروعات کا باعث بنے۔ لیکن انہیں ان کے یہودیوں کے قتل عام سے متعلق زیادہ یاد کیا جاتا ہے۔

ہٹلر کو اپنی بھتیجی سے بے انتہا محبت تھی لیکن وہ اس کا اظہار اس لیے نہیں کر سکتا تھا کیونکہ بھتیجی سے محبت کرنے پر ہٹلر کا خیال تھا کہ سماج اسے غلط سمجھے گا اور خود اس کا امیج بھی خراب ہوگا۔ بھتیجی کا جب انتقال ہوا تو ہٹلر ٹوٹ کر رہ گیا تھا۔ مگر ہٹلر کو ایک ایسی لڑکی ملی جو کہ اس کی بھتیجی سے مماثت رکھتی تھی، دنیا کو خوف میں مبتلا کرنے والے ہٹلر میونخ میں پیدا ہونے والی لڑکی ایوا براؤن کے عاشق تھے، ایوا 1912 میں پیدا ہوئی تھیں جو کہ ہٹلر سے کافی چھوٹی تھیں۔

ایوا ہٹلر کے سرکاری فوٹوگرافر کی اسٹنٹ تھیں جو کہ بعدازاں ان کی ہمنوا بھی بنیں۔ چونکہ ہٹلر اپنی بھتیجی کو یاد کیا کرتا تھا اسی وجہ سے وہ خاموش رہنے لگ گیا تھا، اور عین شادی کے ایک دن بعد جب ایوا اور ہٹلر شادی کی تقریب میں منعقد ایک تقریب میں موجود تھے، تو کچھ ایسا ہوا جو کوئی بھی سوچ نہیں سکتا تھا۔

ہٹلر کے کمرے سے اس وقت بندوق چلنے کی آواز آئی جب سب خوشی کے لمحے کو انجوائے کر رہے تھے۔ سب حیران رہ گئے کہ شاید کسی نے ہٹلر کا قتل کر دیا ہے مگر جب کمرے میں گئے تو ایوا زمین پر پڑی تھیں اور ہٹلر نے بھی خود کو گولی مار کر زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا۔ ہٹلر اور ایوا نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیوں کیا آج تک معلوم نہیں ہوا مگر ایک عین ممکن وجہ یہ بھی ہے کہ ایوا اس بات سے دکھی تھیں کہ ہٹلر انہیں وقت نہیں دے پا رہے تھے اور اب بھی اپنی مرحوم بھتیجی کو یاد کرتے تھے۔

سلطان اعظم القانونی:

عثمانیہ سلطنت کے سلطان سلیمان اعظم القانونی اپنے وقت کے کافی مشہور سلطان گزرے تھے لیکن حیات زندگی میں ہی وہ مشکل وقت کا شکار ہو گئے تھے۔ وہ حریم نامی کنیز کے عشق میں مبتلا ہو کر اپنے خاندان کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے۔مغربی یوکرائن پر روسی حملے کے نتیجے میں وہاں موجود لوگوں کو غلام بنا لیا گیا تھا، حریم بھی غلامی کی بیڑیوں میں بند گئی تھی، یہ تقریبا 1517 کے آس پاس کی بات ہے، اسی دور میں حریم بکتی بکاتی استنبول تک پہنچ گئ تھی۔

1520 میں والد کی وفات کے بعد سلطان سلیمان بادشاہ بن گئے، اور کنیزیں سلطان کی ملکیت میں آگئیں۔ بادشاہ کا محل الگ تھا جبکہ کنیزوں اور دیگر افراد کے لیے الگ محل وجود تھا۔

سلطان کو حریم کا پسند کرنے لگے تھے، ان کا انداز گفتگو، مزاح بھرا انداز اور عقل دانائی سے بھرپور گفگتو سلطان کو ان کا گرویدہ بنا رہی تھی۔ سلطان کی کنیز کی طرف قربت دیکھ کر ماہ درا کو جلن ہونے لگی، جبکہ کنیز کو حریم یا حرم کا لقب بھی اسی وجہ سے دیا تھا کہ حریم خوش مزاج تھیں۔

ماہ درا اور حریم سلطان دونوں سلطان کی اہلیہ تھیں دونوں ہی کی آپس میں بنتی بھی نہیں تھی، ماہ درا سلطان گھرانے سے ہونے کی وجہ سے سلطان کے حق میں بہتری کے لیے کوشاں تھی دوسری جانب حریم سلطان اپنے بیٹے کو اگلا سلطان بنانے کے لیے کوشاں تھیں۔

حریم نے سلطان سلیمان کو شہزادے مصطفیٰ کے خلاف کرنا شروع کر دیا تھا۔ سلطان اس حد حریم کے زلفوں کے آسیر ہو گئے کہ انہوں نے حریم سے شادی کر لی، اور روایت کے خلاف جاتے ہوئے کنیز سے نکاح کر لیا۔

حریم سلطان نے سلطان اور ان کے سگے بیٹے مصطفیٰ کو اس طرح لڑ وایا کہ ایک چھوٹی سے غلط فہمی میں دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف کر دیا، حریم سلطان نے سلطان کو بتایا کہ آپ کا بیٹا آپ کے فیصلوں سے ناخوش ہے اور حملہ کرنے آ رہا ہے، جبکہ حریم سلطان کے ساتھیوں نے مصطفیٰ کو بتایا کہ انہیں والد سے رنجشیں دور کرنی چاہیے۔ جس کے لیے انہیں اپنے قافلے کے ہمراہ سلطان کے پاس جانا چاہیے۔

سلطان نے شہزادے مصطفیٰ کو پاس پا کر موقع دیکھتے ہی چھرا گھونپ پر بیٹے کو مار ڈالا، یوں اس طرح ایک کنیز کی وجہ سے سلطان نے اپنے ہی بیٹے کا قتل کر دیا۔ بعدازاں حریم سلطان بھی بیماری میں مبتلا ہو کر انتقال کر گئی اور آخر میں سلطان بچے تھے، جو کہ کسی بے سہارا انسان کی طرح جہان فانی سے کوچ کر گئے۔

کلیوپترا:

کلیوپترا کو تاریخ مختلف طور پر یاد کرتی ہے، کلیوپترا تاریخ کی وہ ملکہ تھیں جنہیں فلموں اور ڈراموں میں آج بھی یاد کیا جاتا ہے، ٹولمک سوتر بارہ، جو کہ مصر کے بادشاہ تھے اور کلیوپترا کے والد بھی تھے، ان کی وفات کے بعد کلیوپترا ملکہ بنی تھیں، ایک یہ بھی وجہ ہے کہ انہیں "باپ کی موت پر ملکہ بنیں" کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ کلیوپترا مقدونیہ خاندان کی آخری آٹھویں ملکہ تھیں کیونکہ انہوں نے خودکشی کر لی تھی۔ حسن کی دیوی، بے وفائی کی علامت کے طور پریاد کی جانے والی ملکہ نے روم کے حکمرانوں کو بھی اپنے زلفوں کے جال میں پھنسا لیا تھا۔

رومی بادشاہ جولئیس سیزر جب مصر آیا اور کلیوپترا اور اس کے بھائی کے درمیان جاری جنگ کے خاتمے کے حوالے سے کوششیں کرنے لگا، اسے تب ہی کلیوپترا کے حسن کا اندازہ ہو گیا تھا، لیکن کچھ کہہ نہیں سکا تھا۔ جبکہ کلیوپترا بھی رومی بادشاہ سے ملنا چاہتی تھی اور کسی بڑی طاقت کے بل بوتے پر اپنے بھائی کو شکست دینا چاہتی تھی۔ جیسے ہی کلیوپترا کو اندازہ ہوا تو اس نے چال چلی اور کالین میں خود کو رول کر کے اپنے بندے کے ذریعے رومی بادشاہ کے محل تک پہنچ گئی، اسے اپنی اداؤں کے ذریعے مائل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ کلیوپترا کے اس انداز نے اسے سب میں مقبول کر دیا تھا۔ اسی طرح اپنے دوسرے محبوب انتھنی کے پاس جب وہ گئیں تو اپنی اس کشتی میں سوار تھیں جو کہ سونے کی بنی تھی۔ وہ بالکل دیوی کی طرح معلوم ہو رہی تھیں۔ اس منظر نے انتھنی کو کلیوپترا کا دیوانہ بنا دیا تھا۔

دونوں نے شادی کی، دونوں کو شراب نوشی پسند تھی اور راتوں کو چہل قدمی کرنا پسند تھا۔ اگرچہ انتھونی اور کلیوپترا کے اتحاد نے مخالفین کو خوف میں مبتلا کر دیا تھا، مگر یہ بھی حقیقت تھی کہ مخالفین نے حملہ کر کے انہیں پسپا کر دیا تھا۔ جنرل آکٹوین کی فوج ان کا پیچھا کر رہی تھی، اور گرفتار کرنے ہی والی تھی، لیکن دونوں نے گرفتاری کی ذلت سے بچنے کے لیے خود کشی کو گلے لگالیا۔

جبکہ کلیوپترا کی موت سے متعلق کئی کہانیاں موجود ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ ضمیر کے جاگنے پر کلیوپترا نے سانپ سے خود کو ڈسوا کر خودکشی کر لی تھی، جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ کلیوپترا نے نئے جنرل سے بھی تعلقات ہموار کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی اور تھک ہار کر مایوس ہوگئی تھیں۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts