"مجھے مرنا ہی تھا۔ میری ماں دن رات روتی تھیں کہ کیوں کہ انھیں بھی لگتا تھا کہ اس برس وہ آخری بار میرے ساتھ کرسمس منا رہی ہیں۔"
یہ کہنا ہے ایلیسا کا جن کی عمر 13 برس اور ان کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ بی بی سی میں شائع ہونے والے آرٹیکل کے مطابق ایلیسا ایک ایسے موذی کینسر کا شکار ہوگئیں تھیں جن میں ٹی سیلز نامی خبیات جن کو انسانی جسم کا محافظ سمجھا جاتا ہے وہی ایلیسا کے لئے خطرہ بن گئے تھے۔ ٹی سیلز جسم کے اندر موجود بیماریوں کے خلیات تلاش کر کے انھیں ختم کرنے کا کام کرتے ہیں۔ ایلیسا کے جسم میں ٹی سیلز اس قدر بڑھ گئے تھے کہ ان کی جان کو خطرہ تھا۔ یہاں تک کہ کیمو تھیراپی اور بون میرو ٹرانسپلانٹ بھی ان کی کوئی مدد نہیں کرسکا اب ان کے پاس صرف 2 راستے تھے یا تو وہ ڈاکٹروں کی جانب سے کئے گئے تجربے کا حصہ بن کر اپنی جان بچانے کی کوشش کرتیں جو بہرحال رسکی تھا اور دوسرا طریقہ اپنی بچی ہوئی زندگی کو موت کے انتظار میں گزارنے کا تھا۔
باہمت لڑکی جس نے جان بچانے کے لئے رسک لیا
لیکن باہمت ایلیسا نے اپنی زندگی کو ایک موقع دیتے ہوئے تجربے کا حصہ بننے کا رسک لے لیا اور بیس ایڈیٹنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے ان کا علاج شروع ہوا۔ واضح رہے کہ یہ ٹیکنالوجی صر 6 سال پہلے ایجاد ہوئی تھی اور ایلیسا وہ پہلی مریضہ تھیں جو اس طریقہ کار سے علاج کروانے جارہی تھیں۔
یہ طریقہ علاج کیا ہے؟
ماہرین کے مطابق انسان کے جسم میں 4 بنیادی بیس ہوتے ہیں جن کے نام ایڈنائن (اے)، سائٹوسین (سی)، گوانائن (جی) اور تھائمین (ٹی) ہیں۔ یہ ہمارے ڈی این اے میں موجود ہوتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ان بیسز کو زوم کر کے ان کی ساخت، سالمیت اور ان کا کردار تبدیل کیا جاتا ہے۔ یہی کچھ ایلیسا کے ٹی سیلز کے ساتھ کیا گیا اور ان کے ٹی سیلز کو دوبارہ بنایا گیا۔
اس دوران ایلیسا کو انفیکشن کا خطرہ بھی تھا جس کی وجہ سے انھیں مسلسل نگہداشت میں رکھا گیا۔ تاحال ایلیسا کو مانیٹر کیا جارہا ہے اور فی الحال ان کی اچھی صحت کو ڈاکٹر معجزہ قرار دے رہے ہیں۔
ہماری بیٹی کا اب تک زندہ رہنا ایک معجزہ ہے
ایلیسا کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی بہت مشکلات سے گزری ہے اور اس کا اب تک ہمارے ساتھ ہونا ہی سب سے بڑا تحفہ ہے جسے وہ لفظوں میں بیان نہیں کرسکتے۔
اس طریقے سے کئی بیماریوں کا علاج ممکن ہے
ڈاکٹر کے مطابق اس طریقہ علاج سے لوکیمیا، انیمیا اور کینسر کے مریض فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور کئی قیمتی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔