تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’وفاقی حکومت نے آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے پاکستان کمیشنز آف انکوائری ایکٹ 2017 کے سیکشن تین کے تحت انکوائری کمیشن تشکیل دیا ہے، تاہم جان بوجھ کر اس کے ٹی او آوز میں ایک نکتہ شامل نہیں کیا گیا کہ ان آڈیو لیکس کے پیچھے کون ہے۔‘
سنیچر کو ایک ٹویٹ میں عمران خان نے لکھا کہ ’انہوں (وفاقی حکومت) نے اس بات کا جائزہ نہیں لیا کہ وزیراعظم آفس اور سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججوں کی غیرقانونی نگرانی کے پیچھے کون ہے۔‘’کمیشن کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ تحقیقات کرے کہ یہ طاقتور اور نامعلوم عناصر کون ہیں جو اہم شخصیات اور شہریوں کی ٹیلیفون پر ہونے والی گفتگو ریکارڈ کرتے ہیں۔‘عمران خان نے کہا کہ ’یہ آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت دی گئی پرائیویسی کی خلاف ورزی ہے۔ ناصرف غیرقانونی طور پر جاسوسی اور فون ریکارڈنگ کرنے والوں بلکہ اسے جعلسازی سے سوشل میڈیا پر پھیلانے والوں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔‘’وہ جمہوریتیں جہاں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے وہاں ریاست کو اس طرح کے کاموں میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ جب ریاست غیرقانونی طور پر کسی کی جاسوسی کرتی ہے تو آرٹیکل 14 کے تحت دیا گیا پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔‘تحریک انصاف کے چیئرمین نے مزید لکھا کہ ’حال ہی میں کچھ کالز وزیراعظم کے دفتر میں موجود فون لائن سے لیک کی گئیں جسے محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن غیرقانونی طور پر فون کالز کو ٹیپ کیا گیا اور اس میں ردوبدل کیا گیا۔ یہ کام کرنے والے عناصر وزیراعظم ماتحت ہیں اور نہ ہی اسے ان کا علم ہوتا ہے۔‘’یہ کون لوگ ہیں جو قانون سے بالاتر ہیں اور ملک کے وزیراعظم کے ماتحت بھی نہیں ہیں، جو آزادی سے غیرقانونی نگرانی کرتے ہیں۔ کمیشن کو اس طرح کے عناصر کی نشاندہی کرنی چاہیے۔‘پاکستان کی وفاقی حکومت نے اعلٰی عدلیہ کے ججوں کی آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے تین رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا ہے۔ جوڈیشل کمیشن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بنایا گیا ہے۔یہ جوڈیشل کمیشن آٹھ مبینہ آڈیوز کی تحقیقات کرے گا۔ کمیشن آڈیو لیکس کی حقیقت اور عدلیہ کی آزادی پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں چھان بین کرے گا۔