پاکستان کی سپریم کورٹ نے مبینہ آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مختصر حکمنامہ جاری کریں گے۔
قبل ازیں اٹارنی جنرل عثمان منصور نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اُٹھایا تھا۔جمعے کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس حسن اظہر رضوی پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی تو اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس پر اعتراض کیا۔اٹارنی جنرل کے بینچ کی تشکیل پر اعتراض کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کیسے سپریم کورٹ کے ججز کو اپنے مقاصد کے لیے منتخب کر سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اُن کو معلوم تھا اُن کی ذات پر اعتراض کیا جائے گا اس لیے وہ اس حوالے سے تیاری کر کے آئے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فون ٹیپنگ ایک غیر آئینی عمل ہے اور جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے ٹی او آرز میں نہیں لکھا کہ فون ٹیپنگ کس نے کی؟انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’مہربانی کر کے حکومت کو سمجھائیں آئینی اقدار کا احترام کرے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے ججز کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔‘چیف جسٹس نے کہا کہ ’اٹارنی جنرل صاحب، یہ عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے، بہت ہوگیا ہے اٹارنی جنرل صاحب آپ بیٹھ جائیں۔ ’عدلیہ وفاقی حکومت کے ماتحت نہیں، آئین میں اختیارات کی تقسیم ہے۔‘ چیف جسٹس نے کہا کہ ’حکومت کا مکمل احترام کرتے ہیں، عدلیہ بنیادی حقوق کی محافظ ہے، حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی قانون سازی جلدی میں کی، حکومت کسی جج کو اپنی مرضی کے مطابق بینچ میں نہیں بٹھا سکتی، ہم نے سوال پوچھا کہ 184 بی میں لکھا ہے کم از کم 5 ججز کا بینچ ہو، اگر آپ نے ہم سے مشورہ کیا ہوتا تو ہم آپ کو بتاتے۔‘ چیف جسٹس نے کہا کہ ’اگر آپ ہمارے انتظامی امور میں مداخلت کریں گے وہ بھی پوچھے بغیر۔‘اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان تمام امور کا حل ہو سکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت مسائل حل کرے تو ہم بھی ریلیف دیں گے، سپریم کورٹ کے انتظامی امور میں پوچھے بغیر مداخلت ہوگی تو یہ ہوگا۔ ’ہمیں احساس ہے کہ آپ حکومت پاکستان کے وکیل ہیں، تمام اداروں کو مکمل احترام ملنا چاہیے۔‘چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سب انا کی باتیں نہیں، آئین اختیارات تقسیم کی بات کرتا ہے، عدلیہ وفاقی حکومت کا حصہ نہیں، ہم انا کی نہیں آئین کی بات کر رہے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعے کا فائدہ یہ ہوا کہ جوڈیشری کے خلاف جو بیان بازی ہو رہی تھی وہ ختم ہو گئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ نئی قانون سازی کے ذریعے حکومت نے ضمانت اور فیملی کیسز کے بینچز کی تشکیل کو بھی اس کا حصہ بنا دیا۔ درخواست گزار عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے اپنے دلائل میں کہا کہ فون ٹیپنگ بذات خود غیرآئینی عمل ہے، انکوائری کمیشن کے ضابطہ کار میں کہیں نہیں لکھا کہ فون کس نے ٹیپ کیے۔وکیل کے مطابق حکومت تاثر دے رہی ہے فون ٹیپنگ کا عمل درست ہے، حکومت تسلیم کرے کہ ہماری کسی ایجنسی نے فون ٹیپنگ کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ فون ٹیپنگ پر بے نظیر بھٹو کیس کا فیصلہ موجود ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بھی اصول طے کیے ہیں۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ کس جج نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی اس کا تعین کون کرے گا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ٹیلی فون پر گفتگو کی ٹیپنگ آرٹیکل 14 کے تحت انسانی وقار کے بھی خلاف ہے، اس کیس میں عدلیہ کی آزادی کا بھی سوال ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وفاقی حکومت نے آئین میں اختیارات کی تقسیم کی خلاف ورزی کی ہے۔ ججز اپنی مرضی سے کیسے کیمشن کا حصہ بن سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے انکوائری کمیشن نے ہر کام جلدی کیا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کے خلاف بھی چیف جسٹس کی اجازت سے جوڈیشل کونسل کے علاوہ کسی دوسرے فورم پر جا سکتے ہیں، میٹھے الفاظ استعمال کر کے کور دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔جسٹس منیب اختر کے مطابق بظاہر اختیارات کی تقسیم کے آئینی اصول کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے، یہ انتہائی پریشان کن صورتحال ہے۔آڈیو لیکس کی انکوائری کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن کے خلاف درخواستیں رواں ہفتے دائر کی گئیں تھیں۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری، ریاض حنیف راہی اور مقتدر شبیر نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔وفاقی حکومت کی جانب سے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن نے پہلا اجلاس پیر کو منعقد کیا تھا۔ جوڈیشل کمیشن کا اگلا اجلاس سنیچر کی صبح دس بجے سپریم کورٹ بلڈنگ میں طلب کیا گیا ہے۔