یہ کہانی منی پور کی ان نڈر خواتین کی ہے جو ایک صدی سے زائد عرصے سے اپنے حقوق اور تشدد کے خاتمے کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ انڈین فوج نے ان خواتین پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ ان کے آپریشنز میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں مگر اس کی حقیقت کیا ہے؟
انڈیا میں پُرتشدد واقعات سے متاثرہ شمال مشرقی ریاست منی پور کے حالات پر انڈین فوج کی طرف سے شیئر کی گئی ایک ویڈیو نے کچھ ڈرامائی مناظر دکھائے۔
دو منٹ 14 سیکنڈ کی اس ویڈیو میں غیر مسلح خواتین کو ایک مصروف شاہراہ پر فوجیوں کا سامنا کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
ویڈیو میں خواتین کو ایک ٹوٹی ہوئی سڑک پر کھدائی کرنے والی مشین کے اردگرد جمع ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
یہاں سے بڑی گاڑیوں اور کاروں کا رش دیکھا جا سکتا ہے۔ اس خوبصورت وادی کے راستے پر تیز رفتاری سے چلنے والی ایک ایمبولینس اور مشتعل خواتین کی جھلکیاں بھی اس ویڈیو کا حصہ ہیں۔
منی پور میں نسلی بنیادوں پر تشدد بدستور جاری ہے، تقریباً دو ماہ میں اکثریتی میتی کمیونٹی اور قبائلی کوکی برادریوں کے درمیان جھڑپوں میں 100 سے زائد افراد ہلاک اور 60,000 کے قریب بے گھر ہو چکے ہیں۔

وادی میں دسیوں ہزار سکیورٹی فورسز کی موجودگی کے باوجود یہ جگہ بنیادی طور پر میتی کمیونٹی کے ساتھ ساتھ پہاڑی علاقے میں آباد کوکی قبائلیوں کا مسکن ہے۔
اس کے باوجود، جیسا کہ ویڈیو میں بھی دکھایا گیا ہے، گہری تقسیم اور عدم اعتماد کے ماحول میں امن کی بحالی ایک صبر آزما اور مشکل سفر ضرور ہے۔
’منی پور کی خواتین کی زیرِ قیادت پُرامن ناکہ بندی کا مفروضہ‘ کے عنوان سے اس ویڈیو میں کچھ دلچسپ الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔
اس میں یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ خواتین مظاہرین ’فسادیوں کو بھاگنے میں مدد‘ کر رہی تھیں اور گاڑیوں اور ایمبولینسوں میں ان کے ساتھ ہوتی ہیں۔
اس میں مزید کہا گیا کہ وہ سکیورٹی آپریشنز اور رسد کی نقل و حرکت کے ’راستے میں رکاوٹ بن رہی تھیں‘ اور ’تاخیر کا سبب‘ بن رہی تھیں۔
ویڈیو کا اختتام رہائشیوں سے سکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون کرنے کی اپیل کے ساتھ ہوا جو ’امن اور استحکام لانے کے لیے دن رات کام کر رہی ہیں۔‘
سنہ 2004 میں ’منی پور کی ماؤں‘ نے ایک فوجی کیمپ کے باہر برہنہ ہو کر احتجاج کیا تھاایک دوسری ویڈیو میں مشتعل خواتین کے ایک گروپ اور ایک فوجی کے درمیان تصادم ہوتے دکھایا گیا ہے۔
ایک خاتون فوجی سے کہتی ہیں کہ ’آپ کے یہاں ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ یہاں سے جا سکتےہیں۔‘ اس دوران دوسری خواتین بھی اس کے اردگرد جمع ہو جاتی ہیں۔
فوج نے گذشتہ ہفتے ایک ٹویٹ میں بتایا تھا کہ انھوں نے ریاستی دارالحکومت امپھال کے مشرقی ضلع میں 1500 خواتین کے مشتعل ہجوم کے نرغے سے ایک فوجی آپریشن کے دوران 12 مقامی باغیوں کو آزاد کرایا تھا۔
ہنگامہ خیز وادی میں سکیورٹی فورسز کو چیلنج کرنے والی بہت سی خواتین کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ’میرا پائیبیس‘ ہیں یعنی ’منی پور کی مائیں‘ ہیں۔
سنہ 2004 میں انھوں نے دارالحکومت امپھال میں ایک فوجی کیمپ کے باہر برہنہ ہو کر ایک بینر لہرا کر دنیا کو دنگ کر دیا تھا، جس پر ایک 32 برس کی لڑکی کے مبینہ گینگ ریپ اور قتل کے خلاف چونکا دینے والے احتجاج میں 'انڈین آرمی ریپ اس' لکھا ہوا تھا۔ واضح رہے کہ اس ریپ کا الزام نیم فوجی اہلکار پر عائد کیا گیا تھا۔
میتی کمیونٹی کی اکثریتی برادری سے تعلق رکھنے والی یہ ’منی پور کی مائیں‘ شادی شدہ خواتین ہوتی ہیں، جن کی عمریں 30 سے 65 سال کے درمیان ہیں۔ مورخ لیشرم جتیندرجیت سنگھ کے مطابق یہ خواتین روایتی وابستگی اور نظم و ضبط رکھنے والی فورس کی طرح ہیں۔ ان میں سرکاری عہدے رکھنے والی خواتین بھی شامل ہیں۔
محققین کے مطابق ان کی ابتدا 1900 کی دہائی کے اوائل میں ہوئی جب ہم خیال خواتین نے جبری مشقت کے خلاف ایک کامیاب احتجاج شروع کیا، جس میں منی پور میں 17 سے 60 سال کی عمر کے مردوں کو ہر ماہ خواتین کے مخصوص ایام میں برطانوی حکمرانوں کو مفت مزدوری فراہم کرنے کا پابند بنایا گیا۔

سنہ 1949 میں منی پور کے انڈیا میں انضمام کے بعد سے میرا پائیبیس نے منشیات اور شراب نوشی کے خلاف اپنی انتھک مہم کے ذریعے اپنی اہمیت اجاگر کی۔
ان کے تنظیمی ڈھانچے اور مؤقف میں نرمی انھیں اپنی کمیونٹی کے ہر مسئلے پر غور کے قابل بنا دیتی ہے۔
سٹونی بروک یونیورسٹی سے وابستہ اور منی پور کی خواتین کی اس تحریک پر تحقیق کرنے والی شروتی مکھرجی کا کہنا ہے کہ یہی چیز میرا پائیبس کا ایک ایسا اتحاد بناتی ہے، جو محض خواتین کے مسائل پر احتجاج تک محدود نہیں۔
جب منی پور سنہ 1980 میں نسلی تنازعات اور شورش کی نظر ہوا تو ان سرگرم خواتین نے ایک وسیع کردار ادا کیا۔
سنہ 1958 میں انڈیا نے متنازع آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ نافذ کیا، جو سکیورٹی فورسز کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور یہ قانون غلطی سے یا ناگزیر حالات میں سکیورٹی اہلکاروں کو کسی شہری کو مارنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔
اسے جزوی طور پر فورسز کو حاصل ہونے والے ’دائمی استثنیٰ‘ کا مؤجب بھی قرار دیا جاتاہے۔
انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ منی پور میں سنہ 1979 اور سنہ 2012 کے درمیان سکیورٹی فورسز نے جعلی مقابلوں میں تقریباً 1,528 افراد کو قتل کیا۔
سنہ 1980 میں ان خواتین نے ایک پولیس سٹیشن کی طرف مارچ کیا اور وہاں سے میتی کمیونٹی کی ایک خاتون کو رہا کرانے میں کامیاب ہو گئیں۔ اس خاتون کو سکیورٹی فورسز نے شورش کے شبے میں اٹھایا تھا۔
جتندر جیت سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ خواتین رات کو جلتی ہوئی مشعلوں کے ساتھ نگرانی کرتی تھیں۔ اس علاوہ یہ خواتین اپنی بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے بجلی کے کھمبوں پر ڈنڈے مارتیں، ڈرم بجاتیں یا زمین پر بانس کے کھمبے مارتی تھیں۔
چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے شورش کی لپیٹ میں آنے والی ریاست میں عوام اور سکیورٹی فورسز کے درمیان گہرے عدم اعتماد کی جڑیں برقرار ہیں۔
مئی کے اوائل میں ہونے والی پُرتشدد جھڑپوں کے بعد مقامی پولیس کی ریپڈ ایکشن فورس کے تین اہلکاروں پر گھر جلانے اور جلاؤ گھیراؤ کا الزام لگایا گیا اور انھیں معطل کر دیا گیا۔
ایسے الزامات بھی تھے کہ جب عسکریت پسندوں نے کچھ دیہاتوں پر حملہ کیا تو کچھ نیم فوجی سپاہیوں نے ایک کمیونٹی سے وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو نظر انداز کیا۔
یہ خواتین عورتوں کے لیے قائم کردہ ایک بڑی منڈی کی بھی رکھوالی کرتی ہیںان خواتین کی ایک رہنما تھونگم جویمالا کا کہنا ہے کہ خواتین ’فوج کے کردار سے خوش نہیں ہیں۔ وہ (پہاڑوں میں) مسلح کوکی شرپسندوں کی کارروائیوں کو نہیں روک پا رہے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اس لیے وادی میں فوج کی نقل و حرکت کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ’ہمارا ماننا ہے کہ تشدد کو روکنا چاہیے، اور پہاڑیوں اور وادی دونوں میں (شرپسندوں کو بھگانے کے لیے) آپریشن کیے جائیں۔ بصورت دیگر ہم (فوج کی) کارروائیوں کی حمایت نہیں کریں گے۔‘
نارتھ ایسٹ انڈیا ویمن انیشیٹو فار پیس کی بنلکشمی نیپرم بھی اسی طرح کے جذبات رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’منی پور کی مائیں یہ محسوس کرتی ہیں کہ سکیورٹی فورسز میں کچھ عناصر جان بوجھ کر مزید تقسیم اور نفرت پیدا کر رہے ہیں۔ اسی لیے وہ منی پور کی حفاظت کے لیے ہزاروں کی تعداد میں باہر نکلی ہیں۔‘
بنلکشمی نیپرم کہتی ہیں کہ ’سوشل میڈیا پر ویڈیو شیئر کرنے کے بجائے فوج کو ان خواتین کی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کرنے کی ہمت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا اور امن کی بحالی میں مدد کے لیے ان میتی کمیونٹی کی خواتین اور کوکی کمیونٹی کی خواتین کے ساتھ کام کرنا چاہیے تھا۔ منی پور کی خواتین کو شامل کیے بغیر ریاست میں پائیدار امن کی واپسی ممکن نہیں۔‘
اگرچہ یہ مادرانہ معاشرہ نہیں ہے لیکن منی پور میں خواتین عوامی معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔
صرف امپھال میں یہ خواتین جنوبی ایشیا میں خواتین کے لیے قائم کردہ سب سے بڑی منڈی سنبھالے ہوئے ہیں۔ مسلح افواج کے مظالم کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے اروم شرمیلا نامی ایک کارکن نے 16 سال تک بھوک ہڑتال کی۔ وہ اس وقت مسلح گارڈز اور نرسز کی حفاظت میں امپھال کے ایک ہسپتال کے کمرے میں زیرِ علاج ہیں۔
یہی نہیں بلکہ تنازعات سے متاثرہ محلوں میں، مقامی خواتین اب ملٹریائزڈ بفر زونز میں گشت کرتی ہیں۔
بنلکشمی نیپرام کا کہنا ہے کہ منی پور میں خواتین نے سنہ 1904 اور سنہ 1939 میں برطانوی حکمرانوں کے خلاف دو بڑی عوامی تحریکوں میں حصہ لیا، جسے 'نوپی لین' یا خواتین کی جنگ کہا جاتا ہے۔ ان کے مطابق یہ منی پور کی خواتین کی عدم تشدد کے فلسفے پر لڑے جانے والی تیسری دلیرانہ جنگ ہے۔
تھونگم جویمالا ان خواتین کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’میرا پائیبس‘ امن کی داعی ہیں۔ ان کے مطابق ’ہمارے کسان اپنے کھیتوں میں جانے کے قابل نہیں ہیں۔ ہماری ’مائیں‘ بازار جا کر روزی کمانے کے قابل نہیں ہیں۔ ہم محاصرے میں رہ رہے ہیں۔‘
امپھل سے دھرن اے سادوکپم نے اضافی رپورٹنگ کی ہے