بونڈائی ساحل پر حملہ: ’اچھی خبر کہ حملہ آور پاکستان سے نہیں لیکن انڈین مسلمانوں کے لیے بُری خبر‘

منگل کو منیلا میں حکام نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 50 سالہ ساجد اکرم نے حال ہی میں انڈین جبکہ ان کے بیٹے نے آسٹریلوی پاسپورٹ پر فلپائن کا سفر کیا تھا۔
24 سالہ حملہ آور نوید اکرم
BBC
منیلا میں حکام نے کی تصدیق کی ہے کہ 50 سالہ ساجد اکرم نے حال ہی میں انڈین جبکہ ان کے بیٹے 24 سالہ نوید اکرم نے آسٹریلوی پاسپورٹ پر فلپائن کا سفر کیا تھا

دنیا بھر میں کہیں بھی شدت پسندوں کے کسی حملے کے فوراً بعد عام طور پر یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں کتنا نقصان ہوا اور حملہ آوروں کا تعلق کس گروہ سے تھا۔ تاہم آسٹریلیا میں واقع بونڈائی ساحل پر اتوار کے روز ہونے والے حملے کے بعد سوشل میڈیا پر جو سوال سب سے زیادہ گردش کرتا نظر آیا وہ یہ تھا کہ ’حملہ آوروں کا تعلق کس ملک سے تھا؟‘

شاید دنیا بھر کے سوشل میڈیا صارفین، بالخصوص جنوبی ایشیا کے ممالک انڈیا اور پاکستان میں رہنے والوں، کے اِس تجسس کی وجہ بظاہر حملہ آوروں کے نام ساجد اور نوید اکرم ہیں۔

آسٹریلوی حکام کے مطابق پولیس کی جوابی کارروائی کے دوران 50 سالہ ساجد اکرم جائے وقوعہ پر ہی مارے گئےتھے جبکہ ان کے 24 سالہ بیٹے نوید اکرم کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان کی حالت تشویشناک ہے۔ آسٹریلوی میڈیا کے مطابق ہسپتال میں انھیں ہوش آ چکا ہے اور پولیس ان سے تفتیش کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ سڈنی کے مشہور مقام بونڈائی ساحل پر منعقد ہونے والی یہودیوں کی تقریب پر شدت پسندوں کے حملے کو دو دن گزر چکے ہیں تاہم آسٹریلوی حکام بشمول وزیراعظم کی جانب سے تاحال جواب نہیں دیا گیا کہ حملہ آور باپ اور بیٹے کا تعلق کس ملک سے تھا۔

بونڈائی ساحل پر حملے میں 15 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی اور ساجد اور نوید اکرم کا نام سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر ان کی شناخت اور قومیت سے متعلق طرح طرح کی قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

اس دوران فیک نیوز کا بازار بھی گرم رہا۔ بہت سے اکاؤنٹس نے آسٹریلوی میڈیا پر نشر کی جانے والی حملہ آور کی تصویر کے ساتھ ساتھ ایسی تصاویر بھی شیئر کیں جن میں ایک نوجوان کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کی جرسی پہنے دیکھا جا سکتا تھا۔

یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ نوید اکرم نامی اس نوجوان کو فیس بک پر ایک ویڈیو بیان جاری کرنا پڑا جس میں انھوں نے بتایا کہ اگرچہ وہ بھی آسٹریلیا میں ہی مقیم ہیں لیکن ان کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں اور ان کی تصویر کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔

آسٹریلوی حکام نے بونڈائی ساحل پر حملے میں 15 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے
Getty Images
آسٹریلوی حکام نے بونڈائی ساحل پر حملے میں 15 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے

ساجد اکرم کے پاس ’انڈین پاسپورٹ تھا‘

سوشل میڈیا پر گمراہ کن معلومات اور غیر تصدیق شدہ الزامات کے بعد کچھ اکاؤنٹس کی جانب سے جوابی مہم میں انھیں فیک نیوز اور پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا گیا۔

تاہم منگل کے روز اس بحث میں اس وقت نیا موڑ آیا۔ منیلا میں حکام نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 50 سالہ حملہ آور ساجد اکرم نے حال ہی میں انڈین پاسپورٹ جبکہ ان کے بیٹے نے آسٹریلوی پاسپورٹ پر فلپائن کا سفر کیا تھا۔

منیلا سے ورما سمونٹے کے مطابق فلپائنی حکام نے بتایا کہ دونوں حملہ آور یکم نومبر 2025 کو فلپائن پہنچے تھے اور 28 نومبر کو ملک سے روانہ ہوئے۔

منگل کو ہی ایک پریس کانفرنس میں نیو ساؤتھ ویلز کے پولیس کمشنر میل لیون نے ان دونوں افراد کے فلپائن کے سفر کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’اس بات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ اس دورے کا مقصد کیا تھا اور فلپائن میں انھوں نے کن مقامات کا دورہ کیا۔‘

https://twitter.com/fake_burster/status/2000806575964086506

آسٹریلوی وزیر اعظم سے سوال: ’انڈیا یا پاکستان، حملہ آور کا تعلق کہاں سے ہے؟

سڈنی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز سے ایک صحافی کی طرف سے سوال کیا گیا تھا کہ بونڈائی ساحل پر حملہ آور ہونے والے شخص کا تعلق کس ملک سے تھا۔

صحافی نے پوچھا کہ وزیر داخلہ کے بقول حملہ آور ساجد اکرم سٹوڈنٹ ویزا پر آسٹریلیا آئے تھے تو ’کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ان کا تعلق کس ملک سے ہے، انڈیا یا پاکستان؟‘

صحافی کا مزید کہنا تھا کہ اس معاملے پر بہت سی گمراہ کن معلومات شیئر کی جا رہی ہے۔

اس پر انتھونی البانیز نے جواب دیا کہ ’یہ تمام باتیں تحقیقات کا حصہ ہیں۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جا سکتا اور یہ مناسب نہیں ہوگا کہ اس کی تفصیل میں جا کر تحقیقات کو خراب کیا جائے۔‘

آسٹریلوی حکام نے تصدیق کی ہے کہ ساجد اور نوید اکرم نے فلپائن کا سفر کیا تھا مگر تاحال انھیں یہ معلوم نہیں کہ اس دورے کا مقصد کیا تھا۔

اس پریس کانفرنس کے دوران آسٹریلوی وفاقی پولیس کمشنر کریسی بیرٹ نے کہا کہ ’یہ بات قابل فہم اور درست ہے کہ کمیونٹی جواب چاہتی ہے اور یہ مناسب ہے کہ اے ایف پی (آسٹریلوی وفاقی پولیس) اور نیو ساؤتھ ویلز پولیس یہ معلومات ان لوگوں کو فراہم کریں جو صدمے اور غم میں مبتلا ہیں۔ یہ ضروری ہے تاکہ ہم ثقافتی طور پر متنوع آسٹریلیا میں تحفظ کو یقینی بنائیں اور گمراہ کن معلومات کو مسترد کر کے انتقامی نوعیت کے واقعات کو ہوا نہ دیں۔

’ان عوامل کی وجہ سے ہم ایسی معلومات فراہم کریں گے جس کا ہماری تحقیقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘

’یہ رپورٹنگ نہیں بلکہ بیانیہ آگے بڑھانا ہے‘

حملہ آوروں کی شناخت کے حوالے سے تفصیلات سامنے آنے کے بعد جہاں پاکستانیوں نے سکھ کا سانس لیا تو وہیں انڈین میڈیا اور خاص کر کے سوشل میڈیا پر خاصی خاموشی نظر آتی ہے۔

پاکستانی صحافی کامران یوسف نے لکھا کہ ’انڈیا کی یقیناً خواہش ہو گی کہ 2025 کل ہی ختم ہو جائے۔ یہ سال انڈیا کے لیے تباہ کن رہا۔ سڈنی حملے کے بعد انڈین میڈیا نے پاکستان پر الزام عائد کرنے کی کوشش کی لیکن دیکھیں حکام کو کیا پتا چلا۔‘

صحافی عمر چیمہ نے لکھا کہ ’ہمارے لیے اچھی خبر کہ پاکستان سے نہیں نکلا اور انڈین مسلمانوں کے لیے بُری خبر۔‘

صحافی عمار سولنگی نے لکھا کہ ساجد اکرم کی قومیت کے بارے میں جاننے کے بعد انڈین میڈیا کافی خاموش ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ’یہ جاننا ضروری ہے کہ قومیت اہم نہیں، مذہب اہم نہیں: ایک مسیحی، ایک یہودی، ہندو اور مسلم سب دہشتگرد ہو سکتے ہیں۔‘

’ہماری توجہ بیانیہ سازی کے لیے تفصیلات تلاش کرنے کی بجائے ایسے واقعات کے حالات اور محرکات کو تلاش کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے پر ہونی چاہیے۔‘

منصور احمد قریشی نے لکھا کہ ’انڈین شہری۔ آسٹریلوی شہری۔ فلپائن کے دورے کی تصدیق لیکن پھر بھی پاکستان کو اس میں گھسیٹا گیا۔ یہ رپورٹنگ نہیں بلکہ بیانیہ کو آگے بڑھانا ہے۔‘

سماجی کارکن جلیلہ حیدر نے لکھا کہ ’میرے خیال میں ہمارے انڈین ساتھیوں کو دوسروں پر الزام تراشی کر کے حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ اس کے بجائے اس بات کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آیا انڈین ریاست خود انتہا پسند گروہوں کی بھرتی کے خطرے سے دوچار ہے جو تشویش کی بات ہے۔

’غلط معلومات کے ذریعے پاکستان یا کسی دوسرے ملک پر الزام لگانے سے یہ حقیقت نہیں بدلے گی کہ انتہا پسند گروپ بھی انڈین سرزمین میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ مسئلہ انکار کا مستحق نہیں بلکہ ایمانداری سے اعتراف اور تشویش کا باعث ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US