انڈیا نے یورپین پارلیمنٹ میں منی پور کا مسئلہ اٹھائے جانے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف اور سامراجی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔

انڈیا کی ریاست منی پور میں دو مہینے سے جاری خونریز نسلی فسادات کے خلاف یورپی یونین کی پارلیمان میں جمعرات کے روزقرارداد منظور کر لی گئی ہے۔
اس قرارداد میں منی پور کے فسادات کی صورتحال پر تسویش ظاہر کی گئی اور انڈیا پر زور دیا گیا کہ وہ ریاست کی مذہبی اور نسلی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرے۔
انڈیا نے اس قرارداد کو ناقابل قبول کہہ کر مسترد کر دیا ہے۔ انڈیا نے اعتراض کیا ہے کہ یہ ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔
انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا ہے کہ عدلیہ سمیت انڈین انتظامیہ منی پور کی صورتحال سے واقف ہے اور وہاں امن و امان بحال کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا کے معاملات میں اس طرح کی مداخلتسامراجی ذہنیت کی عکاس ہے۔
واضح رہے کہ یہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی فرانس کے دو روزہ دورے پر اس وقت پیرس میں موجود ہیں۔
فرانس کے سٹراس برگ شہر میں یورپی پارلیمنٹ کے رواں اجلاس میں چھ سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے ارکان نے بدھ کے روز الگ الگ قراردادیں پیش کی تھیں۔
ان میں انڈیا کی ریاست منی پور میں حقوق انسانی کی پامالیوں، جمہوریت، مذہبی تفریق اور قانون کی حکمرانی کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
ان قراردادوں میں انڈین حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ منی پور میں جاری نسلی فسادات پر فوراً قابو پائے اور نسلی و مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرے۔

سوشلسٹ اینڈ ڈیموکریٹس گروپ کی قرارداد میں کہا گیا کہ ’انسانی حقوق کی تنظیموں نے منی پور اور مرکز کی بی جے پی کی حکوت پر الزام عائد کیا کہ وہ ایسی نسل پرستی پرمبنی قوم پرست پالیسیاں نافذ کر رہی ہیں جن کے تحت مذہبی اقلیتوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔‘
اس میں ’انڈیا میں سول سوسائٹی، جائز حقوق کی مانگ کرنے والوں کو ہراساں کیے جانے اورمخالفت کو دبانے کے لیے قانون کے بے جا استعمال‘ پر تشویش ظاہر کی گئی۔
یورپین پیپلز پارٹی نے اپنی قرارداد میں ’منی پور میں مسیحیوں پر حملے‘ کا سوال اٹھایا جبکہ اعتدال پسند رینیو گروپ نے ’حکومت کی ہندو نوازاورشدت پسندی کوفروغ دینے والی سیاسی محرکات پر مبنی پھوٹ ڈالنے والی پالیسیوں پر‘ تشویش ظاہر کی۔
یورپین کنزرویٹیو اور ریفارمز گروپ کی قراداد میں کہا گیا کہ’حالیہ برسوں میں انڈیا میں مذہبی آزادی متاثر ہوئی ہے۔ ملک میں ایسی پالیسیاں اور تفریق پرمبنی قوانین اختیار کیے جا رہے ہیں جن سے ملک کی مسیحی، مسلم، سکھ اقلیتوں اور قبائلی آبا دی پرمنفی اثر پڑ رہا ہے۔‘
انڈیا نے ان قراردادوں کو روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔
انڈیا کے خارجہ سکریٹری ونے کواترا نے ایک نیوز کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کہا ’منی پور کا سوال انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے۔ ہم نے یورپی پارلیمنٹ کے متعلقہ ارکان سے رجوع کیا تھا اور انھیں یہ قراردادیں نہ پیش کرنے کے بارے میں باور کرانے کی کوشش کی تھی۔‘
اس طرح کی بھی خبریں آئی تھیں کہ انڈیا کی وزارت خارجہ نے قراردادیں رکوانے کے لیے ایلبر اینڈ گائجرنام کی ایک سیاسی لابی کی خدمات حاصل کی تھی لیکن اس بارے میں پوچھے جانے پر خارجہ سکریٹری نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
منی پور میں گذشتہ دو مہینے سے ریاست کے دو نسلی گروہوں، میتی اور کوکی کے درمیان خونریز فسادات ہو رہے ہیں۔ میتی قبائل کا تعلق اکثریتی ہندو برادری سے ہے اور بیشتر کوکی مسیحی ہیں۔ فسادات میں اب تک تقریباً 150 افراد مارے جا چکے ہیں جن کی اکثریت کوکی سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان فسادات میں ہزاروں گھر اور دکانیں بھی جلائی گئی ہیں۔ تقریباً 60 ہزار افراد نے محفوظ مقامات پر پناہ لے رکھی ہے۔ کوکی نسل کے لوگ میزورم اور برما میں بھی آباد ہیں۔ میتی ہندو انھیں غیرملکی تصور کرتے ہیں۔
تعلیم کے سبب کوکی نسل کے لوگ ریاست کی انتظامیہ میں دوسری برادریوں سے آگے ہیں۔ یہ فسادات ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں۔ منی پور سے تشدد کی خبریں اب بھی آ رہی ہیں۔ اس ریاست میں بی جے پی کی حکومت ہے۔

کچھ دنوں قبل انڈیا میں امریکہ کے سفیر ایریک گارسیتی نے بھی منی پور کی صورتحال پر تشویش ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ امریکہ وہاں کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے انڈیا کی مدد کرنے کے تیار ہیں۔
تاہم بعد میں انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے ایک نیوز کانفرنس میں جب یہ کہا کہ غیر ممالک کے سفیر عموماً انڈیا کے اندورنی معامالات پر تبصرہ نہیں کرتے تو گارسیتی نے وضاحت کرتے ہوئے بیان دیا تھا کہ منی پور کے بارے میں امریکہ کی تشویش کی نوعیت انسانی ہمدردی کی ہے۔
یورپی پارلیمنٹ میں منی پور پر قرارداد کا فوری نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ ساتھ یورپی حکومتوں پر دباؤ بڑھے گا کہ انڈیا کی حکومت سے بات کریں۔
حالیہ برسوں میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں، اقوام متحدہ اور مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والے امریکی حکومت کے ادارے انڈیا میں جمہوریت، انسانی حقوق اور مذہبی اقلیتوں کے سوال پر مودی حکوت پر تنقید کرتی رہی ہیں۔
مودی حکومت اگرچہ ان نکتہ چینیوں کو یکسر مسترد کرتی رہی ہے لیکن وہ غیر ممالک بالخصوص امریکہ اور یورپ میں اپنی شبیہ کے سوال پر انتہائی حساس ہے۔
مودی حکومت نے دوسرے ممالک سے اپنے تعلقات مضبوط کرنے اور عالمی سطح پر انڈیا کو ایک بڑی اقتصادی طاقت کے طورپر پیش کرنے کے عمل میں غیر معمولی کوششیں کی ہیں لیکن انسانی حقوق کی صورتحال اورمذہبی آزادی اور جمہوریت کے بارے میں وقتاً فوقتاً اٹھنے والے سوالات سے حکومت کی یہ کوششیں یقیناً متاثر ہوتی ہیں۔