سکائی ویل یا چینی زبان میں ’ٹیان جنگ‘ کہلایا جانے والا صحن چین کے جنوبی اور مشرقی علاوں میں موجود روایتی مکانات کا لازمی جزو ہوتا ہے۔
رو لنگ کو ’سکائی ویلز‘ یا آسمانی کنویں میں وقت بتانا بہت پسند ہے۔ ان کے خیال میں گرم اور مرطوب دن گزارنے کے لیے قدیم چینی مکانات کے یہ صحن سب سے بہتر جگہ ہیں۔
40 سالہ رو نے کہا کہ ’یہ ہوادار، ٹھنڈے اور سایہ دار ہیں۔‘
2014 سے 2021 تک، وہ مشرقی چین کے انہوئی صوبے کے گوانلو گاؤں میں تقریباً ایک صدی پرانے لکڑی سے بنے ہوئے گھر میں رہائش پذیر تھیں۔
کئی سال تک ایئر کنڈیشنر کی سہولت سے آراستہ دفاتر اور عمارات میں رہنے کے بعد وہ زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے یہاں منتقل ہوئی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’گرمیوں میں میرے گھر کی قدرتی ٹھنڈک تازگی کا احساس دیتی تھی جو جدید دنیا میں نایاب ہے۔‘
ان کے مطابق گھر میں موجود سکائی ویل اس ٹھنڈک کی وجہ تھا جس کی افادیت کا پرچار کرنے والی وہ واحد فرد نہیں ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جنوبی چین میں موجود ان مکانات کے اندر درجہ حرارت باہر کے مقابلے میں چار ڈگری تک کم ہوتا ہے۔
تیزی سے پھیلتے چین کے شہروں کے وقت میں جب اونچی اور ایئر کنڈیشنر کی سہولت سے آراستہ عمارات کا رواج پنپ رہا ہے، قدیم عمارتوں میں رہنے والوں کی تعداد کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔
لیکن حالیہ برسوں میں چین کے روایتی اور قدیم فن تعمیر میں ازسرنو دلچسپی پیدا ہوئی جس کی وجہ سے ان پرانی عمارات کی بحالی عمل میں لائی جا رہی ہے۔
سکائی ویل یا چینی زبان میں ’ٹیان جنگ‘ کہلایا جانے والا صحن چین کے جنوبی اور مشرقی علاوں میں موجود روایتی مکانات کا لازمی جزو ہوتا ہے۔
یہ شمالی چین کے صحن سے مختلف ہوتا ہے اور حجم میں چھوٹا اور بیرونی ماحول سے کافی حد تک کٹا ہوا ہوتا ہے۔
2010 میں ایک چینی یونیورسٹی کی جانب سے شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق ان میں سے اکثریت منگ اور چنگ زمانے کی بادشاہت کے وقت میں بنے مکانات میں نظر آتے ہیں جو ایک ہی خاندان کی مختلف نسلوں کے قیام کو ذہن نشین رکھتے ہوئے بنائے جاتے تھے۔
ہر خطے میں ان کا حجم مختلف ہے لیکن یہ سب ہی مستطیل شکل کے ہوتے ہیں جو گھر کے ایک کونے میں موجود ہوتے ہیں۔ ان کے چاروں جانب کمرے ہوتے ہیں۔ چند گھر ایسے ہیں جن میں سکائی ویل تین اطراف سے کمروں جبکہ ایک جانب دیوار سے گھرا ہوا ہے۔ بڑے مکانات میں ایک سے زیادہ سکائی ویل بھی ہو سکتا ہے۔
یہ صحن گھروں کو ٹھنڈا رکھتے تھے کیونکہ جب ہوا چلتی تو گھر میں صرف سکائی ویل کے بیرونی خلا سے ہی داخل ہو سکتی تھی۔ چونکہ باہر ہوا کا درجہ حرارت گھر کے اندر سے زیادہ ہوتا ہے اس لیے اندر آنے والی ہوا دیوار کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے نیچے تک پہنچتی جبکہ اندر موجود ہوا اسی خلا کے ذریعے باہر نکل جاتی۔
55 سالہ یو یوہونگ 30 سال سے چین کی وویوان کاؤنٹی میں سکائی ویل مکانات کو بحال کرنے کا کام کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سکائی ویل کا بنیادی مقصد گھر کو روشن اور ہوادار رکھنا ہوتا جبکہ اس کی مدد سے بارش کے پانی کو بھی سٹور کیا جاتا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ہوئیزہو میں موجود پرانے مکانات میں سکائی ویل حجم میں بہت چھوٹا لیکن اونچا ہوتا ہے جس کی وجہ سے گرم موسم میں حدت اندر تک نہیں پہنچ پاتی۔
وہ کہتے ہیں کہ سکائی ویل کا اوپر موجود خلا کسی چمنی کی طرح کام کرتا ہے جو اندر موجود گرم ہوا کو باہر نکالتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان مکانات میں چھتیں اونچی ہوتی ہیں اور کمروں کا دروازہ سکائی ویل کی جانب کھلتا ہے۔ ’امیر خاندان گھروں میں دو سے تین ایسے صحن بنواتے تھے۔‘
اگرچہ ایسے مکانات سینکڑوں برسوں سے چین میں موجود ہیں، جدید طرز زندگی کو ترجیح دینے والے مقامی باشندے انھیں بھلا چکے ہیں تاہم روایتی چینی فن تعمیر میں دلچسپی پیدا ہونے کے بعد سکائی ویل کی واپسی بھی ہو رہی ہے۔
یو نے ایک تین سو سال پرانے مکان کو حال ہی میں اصلی حالت میں بحال کیا ہے جسے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایڈورڈ گاؤ اور ان کی چینی اہلیہ نے 2015 میں خریدا تھا۔ یو کی مدد سے برطانوی جوڑے نے اس 14 کمروں کے مکان کو بوتیک ہوٹل بنایا ہے۔
اس ہوٹل کے کمروں میں اے سی لگے ہوئے ہیں لیکن انھوں نے صحن کو اصلی حالت میں برقرار رکھا ہے جو قدرتی طور پر عمارت کو ہوادار رکھتے ہیں۔
ایڈورڈ کا کہنا ہے کہ ’اے سی کے بغیر بھی یہ جگہ گرمی میں کافی آرام دہ ہوتی ہے۔ جب بھی کوئی یہاں قدم رکھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ یہ مکان قدرتی طور پر ٹھنڈا ہے۔‘
یو کا کہنا ہے کہ یہ طرز تعمیر نئی نسل میں کافی مقبول ہو گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر قدرتی طور پر ہوا نہ چل رہی ہو تو بھی چمنی کے اثر کی وجہ سے ان مکانات کو ہوادار پایا گیا۔
دراصل یہ صحن گھر کے اندرون اور بیرونی ماحول کے درمیان ایک ربط رکھتا ہے جو گرمی روکتا ہے اور گھر کے مکینوں کو باہر کے گرم موسم سے بچاتا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ ایسے صحن کا ٹھنڈا پن اس وقت پیدا ہوتا ہے جب پانی کا تالاب بھی موجود ہو۔
پانی کے بخارات ہوا کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔ ماضی میں یہاں رہائش پذیر لوگ صحن میں بارش کا پانی اکھٹا کرتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ایسا کرنے سے ان کی دولت میں اضافہ ہو گا۔
سکائی ویلز کے مکانات میں ایسا نظام موجود ہوتا ہے جس کے ذریعے چھت سے بارش کا پانی اکھٹا ہو کر نکالا جاتا تھا۔
یو کا کہنا ہے کہ چند امیر خاندان ایسا نظام تیار کرواتے تھے جس کے تحت اس بات کو یقینی بنایا جاتا تھا کہ بارش کا پانی صحن کے نیچے سے گزرتا ہوا ہی گھر سے باہر نکلے۔
ان مکانات میں صحن کے بیچ میں ایک پتھر کا برتن نما بڑا پیالہ ہوتا ہے جس میں روزمرہ کے استعمال کے لیے پانی رکھا جاتا جسے آگ بجھانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
چین کی حکومت جدید عمارتوں میں سکائی ویل شامل کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔ 2013 سے چین کی حکومت ایسی تعمیرات پر زور دے رہی ہے جو وسائل کی بچت کریں اور آلودگی میں کمی لائیں۔
2019 میں حکومت نے ہدایت کی تھی کہ 2022 میں مکمل ہونے والی 70 فیصد عمارات مخصوص قوائد و ضوابط پر پوری اترتی ہوں جن میں ماحول دوست مواد استعمال کرنا ضروری ہے۔
ماہرین اب نئی عمارات کی تعمیر کے لیے سکائی ویل کے اصولوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال نیشنل ہیوی ویکل انجینیئرنگ ٹیکنالوجی ریسرچ سینٹر ہے جو مشرقی جینان شہر میں واقع ہے۔
گزشتہ سال مکمل ہونے والی 18 منزلہ عمارت کے وسط میں ایک بڑا سکائی ویل ہے جو پانچویں منزل سے شروع ہوتا ہے اور سب سے اونچی منزل تک موجود ہے۔
اسی خلا میں لفٹ، بیت الخلا اور ملاقات کے لیے مختص کمرے موجود ہیں۔ اسی لیے اس عمارت کا وسطی حصہ روشن اور ہوادار ہے۔ عمارت تعمیر کرنے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ اس عمارت میں توانائی کا استعمال بھی کم ہے۔
دوسری جانب چند بلند عمارتوں میں سکائی ویل کے اصول استعمال کرتے ہوئے ہوا کا گزر بہتر بنایا جاتا ہے لیکن صحن شامل نہیں کیا جاتا۔
68 منزلہ ڈونگوان ٹاور ایک ایسی ہی مثال ہے جس میں ہوا کے لیے بنائے جانے والے ونڈ پائپ سکائی ویل کی طرح ہی کام کرتے ہیں۔ ٹاور کے جنرل مینیجر نے ایک مقامی اخبار کو بتایا کہ اس کا مقصد عمارت کو بہار اور خزاں میں آرام دہ رکھنا ہے۔
نیدر لینڈز کی لیڈن یونیورسٹی میں ماحولیاتی امور پر تحقیق کرنے والی وانگ زینگ فینگ کہتی ہیں کہ قدیم حکمت کی یہ مثال جدید دور میں ماحول دوست جدت کی وجہ بن رہی ہے۔
تاہم وہ کہتی ہیں کہ جدید ڈیزائن میں سکائی ویل کو شامل کرنے میں مشکلات موجود ہیں۔ ان کے مطابق صحن قدرتی روشنی، ہوا اور بارش کا پانی اکھٹا کرنے میں مدد تو دیتے ہیں لیکن ان اصولوں کا اطلاق نئی عمارت کے مقام کو دیکھ کر کیا جانا چاہیے۔
انھوں نے وضاحت کی کہ روایتی سکائی ویل مختلف شکل اور حجم کے ہوتے تھے جن کا انحصار قدرتی ماحول پر ہوتا تھا یعنی اس علاقے میں کتنی سورج کی روشی ہوتی ہے یا کتنی بارش ہوتی ہے اور اسی لیے ان کے مطابق جدید عمارات کو بنانے والوں کو بھی ان عوامل کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مصنوعی روشنی، ایئر کنڈیشنر اور پانی کی دستیابی اتنے عام ہو چکے ہیں کہ ہم ان پر انحصار کرنے لگے ہیں۔ ہمارے موجودہ رویوں پر نظر ثانی کیے بغیر ماضی کی مدد سے پائیدار حل تلاش کرنا آسان نہیں ہو گا۔‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ جدید چین میں سکائی ویل مقبول کیوں ہو رہا ہے تو انھوں نے کہا کہ ایسے صحن خاندان کے اکھٹا ہونے کی جگہ ہوتے تھے۔
’شاید کنکریٹ اور شیشے کے جنگل میں رہنے والے لوگوں کی زندگی بدلنے سے ان کی ماضی سے جڑی یادداشت کا تعلق بھی ہو۔‘