الیکٹرک گاڑیوں کی دوڑ میں ٹیسلا سمیت یورپی کمپنیوں کو پچھاڑنے والی چینی کمپنی کی کامیابی کا راز کیا ہے؟

2008 میں امریکی ارب پتی وارن بوفے نے بی وائی ڈی کے 10 فیصد حصص خرید لیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایک دن یہ کمپنی عالمی آٹوموبائل منڈی کی سب سے بڑی کھلاڑی بن جائے گی۔‘
الیکٹرانک گاڑیاں
Getty Images

الیکٹرک گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنی ’ٹیسلا‘ کے مقابلے میں ایک چینی کمپنی سامنے آ چکی ہے۔ ’بلڈ یوئر ڈریمز‘ یا ’بی وائی ڈی‘ کے حصص کی مالیت میں رواں ہفتے اس وقت اچانک اضافہ ہوا جب ان کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں ان کا منافع تقریبا دگنا سے بھی زیادہ ہوا ہے۔

’بی وائی ڈی‘ سہ ماہی اعتبار سے پیداوار میں ٹیسلا سے آگے نکل چکی ہے اور عالمی منڈی میں الیکٹرک گاڑیاں تیار کرنے کی دوڑ میں دوسرے نمبر پر پہنچ چکی ہے۔

اس کمپنی کی کامیابی چین میں آٹو انڈسٹری کی تیز رفتار ترقی کی بھی غماز ہے۔ چین نے حال ہی میں دنیا بھر میں گاڑیوں کی برآمد میں جاپان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ گاڑیوں کی برآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔

پراپرٹی بحران اور ریکارڈ بیروزگاری سے متاثر چین کی سست رفتار معیشت میں یہ ایک روشن پہلو ہے۔

تاہم دوسری جانب چین اور بجلی سے چلنے والی گاڑیاں برآمد کرنے والے کئی ممالک، بشمول امریکہ اور یورپی یونین، کے درمیان تناؤ بھی بڑھ رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا نئی اور شفاف تکنیک پر منتقل ہو رہی ہے، مغربی ممالک کی جانب سے چینی مصنوعات پر انحصار کم کرنے کی کوشش کو جن مشکلات کا سامنا ہے اس کی ایک مثال یہ بھی ہے۔

’بی وائی ڈی‘ کے خوابوں کی تعبیر

اس چینی کمپنی کو شروع سے ہی ایک بات کا فائدہ ہوا کہ یہ دیگر کمپنیوں کے مقابلے میں دراصل بیٹری تیار کرنے والی کمپنی تھی جس نے بعد میں گاڑیاں بنانا شروع کیں۔

کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو وانگ شوانفو کی دولت کا تخمینہ 18 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ وہ 1966 میں چین کے ایک غریب صوبے میں پیدا ہوئے اور ان کے والدین کاشتکار تھے۔

کم عمری میں ہی وانگ یتیم ہو گئے اور ان کی پرورش بڑے بھائی اور بہن نے مل کر کی۔

تاہم انجینیئرنگ اور میٹالرجی کی فزیکل کیمسٹری میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اپنے ایک کزن کے ساتھ ’بی وائی ڈی‘ کمپنی قائم کی۔ ان دونوں نے سمارٹ فون، لیپ ٹاپ اور دیگر الیکٹرانکس میں استعمال ہونے والی بیٹریاں بنانے میں نام پیدا کیا اور مہنگی جاپانی مصنوعات کی جگہ سستی مصنوعات متعارف کروائیں۔

سنہ 2002 میں یہ کمپنی پبلک ٹریڈنگ کمپنی بن گئی اور جلد ہی اس نے سرکاری کمپنی ’کوئنچوان آٹو موبائل‘ خرید لی جسے معاشی مشکلات کا سامنا تھا۔

اس وقت الیکٹرک گاڑیاں اتنی عام نہیں ہوئی تھیں تاہم چینی حکام عالمی منڈی میں ایک خلا دیکھ سکتے تھے جس کو انھوں نے چینی مصنوعات سے پُر کرنے کا فیصلہ کیا اور سنہ 2000 کی ابتدا میں ٹیکس چھوٹ اور سبسڈیز متعارف کروائی گئیں۔

’بی وائی ڈی‘ کے لیے یہ ایک بہترین موقع تھا۔ ان کے پاس پہلے ہی بیٹریاں موجود تھیں جو بجلی کی گاڑیوں کا انجن بن سکتی تھیں۔

سنہ 2008 میں امریکی ارب پتی وارن بوفے نے بی وائی ڈی کے 10 فیصد حصص خرید لیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایک دن یہ کمپنی عالمی آٹوموبائل منڈی کی سب سے بڑی کھلاڑی بن جائے گی۔‘

اور وہ درست تھے۔ آج چین بی وائی ڈی کی وجہ سے ہی عالمی الیکٹرانک گاڑیوں کی منڈی پر راج کر رہا ہے۔ اور چین اس سبقت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ گذشتہ جون میں چین نے الیکٹرانک گاڑیوں پر 72 ارب ڈالر سے زیادہ ٹیکس چھوٹ دی جو چار سال کے دورانیے پر محیط تھی۔ کم ہوتی ہوئی فروخت کے رجحان میں یہ کافی بڑی چھوٹ تھی۔

مارہین کی رائے میں ’بی وائی ڈی‘ کی کامیابی کی وجہ اس کا بیٹریوں کا کاروبار ہے جو کسی بھی الیکٹرک گاڑی کا سب سے مہنگا حصہ ہوتی ہیں۔ تاہم بی وائی ڈی خود بیٹریاں بناتا ہے تو اسے کافی بچت ہوتی ہے۔ ٹیسلا سمیت دیگر کمپنیاں بیٹریوں کے لیے دوسری کمپنیوں پر انحصار کرتے ہیں۔

چین
Getty Images
کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو وانگ شوانفو کی دولت کا تخمینہ 18 ارب ڈالر سے زیادہ ہے

یو بی ایس کی ایک رپورٹ کے مطابق بی وائی ڈی کو چین میں ہی بننے والے ٹیسلا کے ماڈل تھری سیڈان پر 15 فیصد سبقت حاصل ہے۔

بی وائی ڈی کی ’سی گل‘ نامی گاڑی 11 ہزار ڈالر کی ہے جبکہ ٹیسلا کی ’ماڈل تھری سیڈان‘ چین میں 36 ہزار ڈالر کی ہے۔

بی وائی ڈی الیکٹرانک گاڑیوں کی منڈی سے ہٹ کر بھی ترقی کر رہی ہے۔ حال ہی میں اس کمپنی نے جرمنی کی والکس ویگن کو پچھاڑا اور چین میں فروخت ہونے والا سب سے بڑا گاڑیوں کا برینڈ بن گئی۔

بی وائی ڈی بمقابلہ ٹیسلا

سنہ 2011 میں جب ایلون مسک سے بی وائی ڈی اور دیگر چینی حریفوں کے بارے میں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران سوال کیا گیا تو وہ ہنس پڑے تھے۔ اس وقت ٹیسلا ایک نئی کمپنی تھی جس نے اپنی پہلی گاڑی کا ماڈل ایس متعارف کروایا تھا۔

آج شاید ایلون مسک اپنے اس ردعمل پر پچھتا رہے ہوں گے۔ ستمبر کے مہینے میں ٹیسلا نے چین میں تیار کردہ 74073 الیکٹرانک گاڑیاں فروخت کیں۔ گذشتہ سال کے مقابلے میں یہ 11 فیصد کم تھیں۔

اس کے مقابلے میں بی وائی ڈی نے اسی دورانیے میں 286903 الیکٹرانک گاڑیاں فروخت کیں۔ اور حیران کن بات یہ ہے کہ چین میں الیکٹرانک گاڑیوں کی مشہوری کا سہرا ٹیسلا کو دیا جاتا ہے۔

ایوان لام کاونٹر پنچ ریسرچ میں کام کرتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’آج بھی ٹیسلا چین میں الیکٹرانک گاڑیوں کا پسندیدہ برینڈ ہے جو نوجوانوں میں خاص طور پر کافی مقبول ہے۔‘

جب چین الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ دینا چاہ رہا تھا تو حکومت نے مقامی قوانین کو نرم کیا تاکہ غیر ملکی کمپنیاں خود مقامی طور پر گاڑیاں تیار کریں اور خود ہی بیچیں۔ اس سے قبل جنرل موٹرز اور ٹویوٹا جیسی کمپنیوں کو فیکٹری بنانے کے لیے بھی کسی مقامی شراکت دار کی ضرورت ہوتی تھی۔

ٹیسلا نے اس نئے قانون سے فائدہ اٹھایا اور آج بھی یہ چینی الیکٹرک گاڑیوں کی سب سے بڑی ایکسورٹر ہے اور چین میں دوسری بڑے کمپنی۔

ایلون مسک کا ارادہ ہے کہ وہ چین میں اپنے کاروبار کو وسعت دیں اور بیٹریوں کے گودام تیار کریں جو الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ سٹیشن بھی ہوں گے۔

تاہم چین اور امریکہ کے درمیان تناؤ نے ان کو انڈیا کی جانب دیکھنے پر مجبور کیا جو خود کو چینی منڈی کے متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ ایلون مسک نے گزشتہ جون میں انڈین وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ ٹیسلا ’جتنی جلدی ممکن ہو گا انڈیا میں کام شروع کرے گی۔‘

ٹیسلا
Getty Images

کیا چینی الیکٹرک گاڑیاں یہ دوڑ جیت جائیں گی؟

عالمی منڈی میں الیکٹرک گاڑیوں کی دوڑ میں وہ پرانی کمپنیاں پیچھے رہ چکی ہیں جو اب تک ایندھن کے انجن پر انحصار کرتی ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق 2030 تک گاڑیوں کی مارکیٹ میں ایک بڑی تبدیلی وقوع پذیر ہو گی اور الیکٹرک گاڑیوں کا رجحان بڑھے گا۔

ایسے میں یورپ اور برطانوی کمپنیاں نئی دوڑ میں مشکلات کا شکار ہیں۔ تاہم ممکن ہے کہ چین کے خوف سے یورپی منڈی میں ایسی قانون سازی متعارف کروا دی جائے جو چینی گاڑیوں کے لیے رسائی مشکل کر دے۔

یورپین کمیشن نے حال ہی میں ایک تفتیش کا آغاز کیا ہے جس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ یورپی مینوفیکچرر کو سستی چینی الیکٹرک گاڑیوں کے سیلاب سے بچانے کے لیے ٹیرف عائد کیا جائے یا نہیں۔ یورپی یونین کے مطابق ’چینی مصنوعات کو حکومتی سبسڈیز کا فائدہ حاصل ہے‘ اور صدر ارسلا وان ڈر لیئین نے کہا ہے کہ ’یورپی یونین ابھی تک نہیں بھول سکا کہ اس کی سولر انڈسٹری کیسے چین کی غیر منصفانہ تجارتی روایات سے متاثر ہوئی تھی۔‘

تاہم بی وائی ڈی کی سستی گاڑیاں یورپ میں بھی مشہور ہو چکی ہیں جہاں مہنگائی اور توانائی کا بجران جاری ہے۔ مرسیڈیز بینز، بی ایم ڈبلیو اور والکس ویگن بنانے والا خطہ الیکٹرک گاڑیوں کی پیداوار میں پیچھے رہ چکا ہے اور اس کا ثبوت حال ہی میں میونخ میں یورپ کے سب سے بڑے شو میں ملا جہاں چینی الیکٹرک گاڑیوں کا چرچہ ہر طرف تھا۔

روسو کا کہنا ہے کہ ’دنیا میں سستی مصنوعات کی ڈیمانڈ ہے۔‘ ان کے مطابق ’اس وقت دنیا میں صرف ایک ہی جگہ سے یہ طلب پوری ہو سکتی ہے اور وہ چین ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US