پاکستان میں بجلی کے شعبے کے ریگولیٹری ادارے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے سولر توانائی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے موجودہ نیٹ میٹرنگ نظام کی بجائے گراس میٹرنگ متعارف کرانے کی سفارش کی ہے اوراس سلسلے میں قواعد و ضوابط بھی جاری کیے ہیں جن کے تحت سولر سے بجلی پیدا کر کے حکومت کو فروخت کرنے والے صارفین کے لیے نئے نرخ مقرر کیے گئے ہیں۔
تجویز کے مطابق سولر سے بجلی پیدا کر کے حکومت کو فروخت کرنے والے صارفین کے لیے نئے نرخ مقرر کیے گئے ہیںپاکستان میں بجلی کے شعبے کے ریگولیٹری ادارے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے سولر توانائی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے موجودہ نیٹ میٹرنگ نظام کی بجائے گراس میٹرنگ متعارف کرانے کی سفارش کی ہے۔ اس سلسلے میں ادارے نے قواعد و ضوابط بھی جاری کیے ہیں، جن کے تحت سولر سے بجلی پیدا کر کے حکومت کو فروخت کرنے والے صارفین کے لیے نئے نرخ مقرر کیے گئے ہیں۔
پاکستان میں گذشتہ چند برسوں میں شمسی توانائی کے استعمال میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ گھریلو سطح پر صارفین نہ صرف اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے سولر پینل استعمال کرتے ہیں بلکہ اضافی بجلی کو نیٹ میٹرنگ کے ذریعے قومی گرڈ میں شامل کر کے اس کی قیمت بھی وصول کرتے ہیں۔
انرجی ماہرین کے مطابق ملک میں سولرائزیشن کی بڑی وجہ بجلی کے بلند نرخ ہیں، جس کے باعث صارفین نے متبادل کے طور پر سولر پینل لگانے کو ترجیح دی۔
حکومت نے اس رجحان کو فروغ دینے کے لیے سولر پینل کی درآمد پر مراعات فراہم کیں اور نیٹ میٹرنگ کے تحت بجلی فروخت کرنے کے لیے پُرکشش نرخ مقرر کیے تھے، تاہم اب حکومت نے نیٹ میٹرنگ کے نرخوں میں کمی کر دی ہے، جس کے بعد سولر صارفین کو گرڈ بجلی کے استعمال پر وہی قیمت ادا کرنا ہو گی جو عام صارفین ادا کرتے ہیں۔
پالیسی میں اس تبدیلی کے تحت نیپرا نے نیٹ میٹرنگ صارفین کے لیے نئے قواعد و ضوابط جاری کر دیے ہیں، جو ماہرین کے مطابق مستقبل میں سولر توانائی کے فروغ اور بجلی کے شعبے پر براہِ راست اثر انداز ہوں گے۔
نیٹ میٹرنگ کو گراس میٹرنگ سے تبدیل کرنے کا کیا مطلب ہے؟
پاکستان میں حالیہ برسوں میں سولرائزیشن میں بہت اضافہ ہوا ہے اور اس کی وجہ بجلی کی بڑھتی قیمتیں ہیںنیپرا کی طرف سے متعارف کرائے گئے نئے نظام کے تحت بجلی کی خرید اور فراہمی کے لیے الگ الگ نرخ مقرر کیے جائیں گے۔ بجلی کمپنیاں صارفین سے فی یونٹ بجلی نیشنل ایوریج انرجی پرائس (این اے ای پی) کے مطابق خریدیں گی، جبکہ صارفین کو گرڈ سے بجلی لینے پر علیحدہ ٹیرف ادا کرنا ہو گا۔
نئے سولر منصوبوں کے لیے گراس میٹرنگ کے تحت بجلی فروخت کرنے کا مجوزہ نرخ 11 روپے 30 پیسے فی یونٹ رکھا گیا ہے۔ یہ معاہدے ابتدائی طور پر پانچ سال کے لیے ہوں گے اور باہمی رضامندی سے اِن میں توسیع کی جا سکے گی۔
نیپرا کی دستاویز کے مطابق وہ صارفین جو پہلے ہی نیٹ میٹرنگ کے معاہدوں کے تحت حکومت کو بجلی فروخت کر رہے ہیں، وہ اپنی معاہدہ مدت پوری ہونے تک اضافی بجلی 22 روپے فی یونٹ کے حساب سے فروخت کرتے رہیں گے۔ ان معاہدوں کی مدت سات سال ہے۔
سولر انرجی کے شعبے میں پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
’جب پاور ٹیرف میں نمایاں اضافہ ہوا تو صارفین بڑی تعداد میں سولر انرجی کی طرف منتقل ہوئے، جس کی وجہ سے آن گرڈ بجلی کی طلب کم ہو گئی اور توانائی کا شعبہ دباؤ کا شکار ہوا‘پاکستان میں سولر انرجی کے شعبے میں حالیہ برسوں میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے اور حکومت نے بھی اس کی بھرپور حوصلہ افزائی کی ہے۔ تاہم نیٹ میٹرنگ کے شعبے میں پالیسی کی تبدیلی کے بارے میں ماہرین توانائی کا کہنا ہے کہ انرجی سیکٹر میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے، حکومت کو اسے سنبھالنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور بظاہر یہی وجہ ہے کہ پالیسی میں تبدیلی کی گئی ہے۔
اُن کے مطابق اس تبدیلی کے باوجود سولرائزیشن کی رفتار رُکنے کا امکان بہت کم ہے کیونکہ یہ رجحان اب قائم ہو چکا ہے اور اس کے واپس جانے یا کم ہونے کے امکانات محدود ہیں۔
انرجی ایکسپرٹ زیان بابر کے مطابق جب پاور ٹیرف میں نمایاں اضافہ ہوا تو صارفین بڑی تعداد میں سولر انرجی کی طرف منتقل ہوئے، جس کی وجہ سے آن گرڈ بجلی کی طلب کم ہو گئی اور توانائی کا شعبہ شدید دباؤ کا شکار ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب بجلی استعمال ہو رہی ہوتی ہے تو اس کا بوجھ صارفین پر کم پڑتا ہے، لیکن جب بجلی استعمال نہیں ہو رہی ہوتی تو آن گرڈ بجلی کے شعبے پر زیادہ دباؤ پڑتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کیپسٹی پیمنٹ ہے، یعنی حکومت کو بجلی کمپنیوں کو ان معاہدوں کے تحت ادائیگی کرنا پڑتی ہے جن میں شرط رکھی گئی ہے کہ بجلی استعمال ہو یا نہ ہو، کمپنیوں کو ادائیگی لازمی ہو گی۔
زیان بابر کا کہنا ہے کہ بجلی کے شعبے میں موجودہ صورتحال کا بوجھ بالآخر ان صارفین کو برداشت کرنا پڑتا ہے جو اپنی ضرورت کے لیے گرڈ بجلی پر انحصار کرتے ہیں۔ ان کے مطابق رواں مالی سال میں حکومت نے بجلی کی کمپنیوں کو 1900 ارب روپے کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں ادا کرنے کے لیے بجٹ مختص کیا ہے۔
توانائی اور موسمیاتی تبدیلی کے شعبے میں کام کرنے والے ادارے ’دی نالج فورم‘ کی ڈائریکٹر زینیا شوکت نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت سولرائزیشن کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتی ہے کیونکہ آن گرڈ بجلی کی طلب میں کمی سے گرڈ سے منسلک صارفین پر اضافی بوجھ پڑ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلو بھی اہم ہے کہ وہ افراد جو دس، بیس یا تیس لاکھ روپے تک کے سولر پلانٹس لگا کر بجلی پیدا کرتے اور حکومت کو فروخت کرتے ہیں، زیادہ تر امیر طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس کیپسٹی پیمنٹ کا اصل بوجھ غریب اور متوسط طبقے پر پڑتا ہے۔
زینیا شوکت نے مزید کہا کہ اگرچہ غریب اور متوسط طبقہ بھی سولرائزیشن کی طرف جانا چاہتا ہے لیکن ایک طرف ان کی مالی استطاعت محدود ہے اور دوسری جانب چھوٹے گھروں میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ بڑے سولر پلانٹس نصب کیے جا سکیں۔
ملک میں نیٹ میٹرنگ کی کیا صورتحال رہی ہے؟

پاکستان میں سولرائزیشن اور نیٹ میٹرنگ کے شعبے میں حالیہ برسوں میں نمایاں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
توانائی کے ماہر زیان بابر کے مطابق ملک بھر میں سولر نیٹ میٹرنگ کی صلاحیت اب تقریباً 6,000 میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ’روف ٹاپ سولر‘ کی تیز رفتار توسیع کے نتیجے میں مالی سال 2024 میں گرڈ سے بجلی کی فروخت میں 3.2 ارب یونٹس کی کمی واقع ہوئی، جس سے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو تقریباً 101 ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
اس نقصان کے اثرات عام صارفین پر بھی پڑے اور اوسط ٹیرف میں 90 پیسے فی یونٹ اضافہ ہوا۔ اندازہ ہے کہ مالی سال 2034 تک گرڈ سے بجلی کی فروخت میں کمی بڑھ کر 18.8 ارب یونٹس تک پہنچ سکتی ہے۔
پاکستان کے درآمدی اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ چار برسوں میں ملک میں چار ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سولر پینل درآمد کیے گئے ہیں، جو اس شعبے کی تیز رفتار ترقی کو ظاہر کرتے ہیں۔