اقوام متحدہ نے تصدیق کی ہے کہ افغانستان میں سات اکتوبر کے زلزلے سے اموات کا 90 فیصد حصہ خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق کچھ لوگوں نے امدادی سرگرمیوں کے دوران زخمی اور مردہ خواتین کو ہاتھ تک لگانے سے انکار کر دیا تھا۔
زلزلے میں زخمی ہونے والی ایک خاتوناقوام متحدہ نے تصدیق کی ہے کہ افغانستان میں سات اکتوبر کے زلزلے سے اموات کا 90 فیصد حصہ خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔
یہ زلزلہ افغانستان کے مغربی صوبے ہرات میں آیا جہاں اقوام متحدہ کے مطابق مجموعی طور پر قریب 1300 اموات ہوئیں۔
بی بی سی نے ڈاکٹروں، عینی شاہدین اور سماجی رہنماؤں سے بات کی ہے جنھوں نے بتایا کہ طالبان حکومت کی بعض پابندیوں کی وجہ سے ہلاکتوں میں خواتین کی شرح بڑھ گئی۔
سلمیٰ (فرضی نام) ہرات میں ایک ڈاکٹر ہیں جو زلزلے سے شدید متاثرہ علاقوں میں جا کر زخمی خواتین کو فوری طبی امداد دینے میں کامیاب ہوئیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ایک ایسے گاؤں پہنچیں جہاں طالبان بھی رہائش پذیر ہیں۔ ان کے مطابق کچھ مردوں نے زخمی اور مردہ خواتین کو ہاتھ تک لگانے سے انکار کر دیا تھا۔
امتیازی سلوک
ہرات کے مغرب سے قریب 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ضلع زیندا جان اس زلزلے کی تباہی کا مرکز تھا۔
مقامی افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ 20 دوردراز علاقوں میں کسی بھی گاؤں میں ایک عمارت بھی ایسی نہیں بچی جو زمین بوس نہ ہوئی ہو۔
جس وقت زلزلہ آیا ان عمارتوں میں اکثر تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔
دیہی افغانستان میں ویسے بھی دن کے اوقات میں زیادہ تر خواتین گھروں میں ہی ہوتی ہیں۔ مگر جب سنہ 2021 میں طالبان نے افغانستان میں اقتدار سنبھالا تو انھوں نے خواتین پر بڑے پیمانے پر نئی رکاٹیں عائد کر دیں، جن میں ان پر کئی طرح کی ملازمتوں اور پرائمری کے بعد تعلیم حاصل کرنے پر پابندی شامل ہے۔
اس طرز عمل نے خواتین کو گھروں تک محدود کر دیا۔
سلمیٰ نے بی بی سی کو بتایا کہ جب زلزلہ آیا تو مرد حضرات زیادہ تر باہر کام کاج کے لیے نکلے ہوئے تھے یا اس وقت وہ مزدوری کے لیے ایران گئے ہوئے تھے۔ ان کے مطابق زلزلے کے وقت اکثر خواتین گھریلو ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مصروف تھیں کہ وہ عمارتیں گرنے سے ملبے کے نیچے دب گئی تھیں۔
پورا گاؤں زلزلے سے ملبے کا ڈھیر بن گیا 23 برس کی سماجی کارکن مریم (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ انھوں نے بھی زلزلے کے بعد طالبان کو یہ ہدایات دیتے ہوئے دیکھا ہے کہ خواتین کو کوئی ہاتھ نہ لگائے۔
مریم کے مطابق مقامی افراد کے لیے خواتین کو بچانا مشکل نہ تھا مگر کچھ مسلح طالبان وہاں موجود تھے جو انھیں خواتین کے قریب بھی جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔
ان کے مطابق طالبان نے زلزے کے پہلے دو یا تین دن تک خواتین کو بھی ان علاقوں کا رُخ نہیں کرنے دیا تاکہ وہاں مرد اور خواتین کا اکٹھ نہ ہو سکے۔
ایک کارکن عبدل (فرضی نام) نے بی بی سی کو بتایا کہ مسلح افراد نے لوگوں کو مردہ خواتین کے قریب بھی نہ جانے دیا۔
عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا کہ زیادہ تر خواتین کی لاشوں کو پہلے دن غسل کا شرعی تقاضہ پورا کیے بغیر جلدی میں دفنایا گیا کیونکہ یہ فریضہ انجام دینے کے لیے وہاں خواتین ہی موجود نہیں تھیں۔
امداد پہنچانے میں مشکلات
سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ طالبان کی طرف سے عائد پابندیوں کی وجہ سے زخمیوں کے علاج معالجے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
طالبان کی طرف سے عائد شرط کے تحت کوئی خاتون اپنے مرد رشتہ دار کے بغیر کہیں سفر نہیں کر سکتی۔
21 برس کی رضا کار فریبہ (فرضی نام) ہرات کے پانچ سو بستروںپر مشتمل ایک ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ میں کام کرتی ہیں۔ جیسے ہی انھوں نے زلزلے کا سنا تو وہ فوراً واپس اپنے کام پر پہنچنا چاہتی تھیں۔
انھوں نے اپنا لانگ کوٹ اور ہیڈ سکارف پہنا اور گھر سے ہسپتال کے لیے روانہ ہو گئیں۔
مگر ٹیکسی ڈرائیور نے انھیں لے جانے سے انکار کر دیا کیونکہ انھوں نے مکمل پردہ کیا تھا نہ ان کے ساتھ کوئی مرد تھا۔
فریبہ کو ٹیکسی ڈرائیورز نے بتایا کہ اگر وہ انھیں اس حالت میں ہسپتال تک لے جائیں گے تو طالبان کا متعلقہ محکمہ ان کی گاڑیاں ضبط کر لے گا اور ان پر دس ہزار افغانی جرمانہ بھی عائد کرے گا۔
فریبہ کا کہنا ہے کہ ’اس کے بعد مجھے ہسپتال تک پہنچنے کے لیے ایک گھنٹے تک چلنا پڑا۔‘
فریبہ کا کہنا ہے کہ زلزے سے چند ہفتے پہلے ہی طالبان نے ان ڈرائیوروں پر جرمانے عائد کرنا شروع کر دیے تھے جو اکیلی یا مکمل پردہ نہ کرنے والی خاتون مسافر کو لے جا رہے تھے۔
بی بی سی کو یہ معلوم ہوا ہے کہ کچھ طالبان اہلکار ہسپتالوں میں گئے اور خواتین ڈاکٹروں سے یہ اپیل کی کہ وہ کام پر آ جائیں کیونکہ زخمی خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے جنھیں دیکھنا چند ڈاکٹروں کے بس کی بات نہیں۔ تاہم ابھی یہ نہیں معلوم کہ انھوں نے کس طرح یہ اپیل کی۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ زلزلے کے بعد بہت زیادہ زخمی خواتین ہسپتال لائی گئیں مگر ان کے علاج کے لیے بہت ہی کم عملہ دستیاب تھا۔ فریبہ نے بھی اس صورتحال کا ذمہ دار طالبان کو ہی قرار دیا۔
ان کے مطابق طالبان نے مرد ڈاکٹروں کو زخمی خواتین کے علاج سے روکا، جس سے سارا دباؤ چند خواتین ڈاکٹروں اور طبی عملے پر آ گیا۔
ڈاکٹر سلمیٰ کو بھی طالبان نے ایک زخمی کے علاج سے روکا۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے ایک خاتون کو دیکھا جن کے سر میں سوجن معمول سے تین گناہ زیادہ تھی یعنی ان کا سر اتنا زیادہ پھیل گیا تھا۔ ان کے ساتھ ان کا دس برس کا بیٹا بھی تھا۔
ڈاکٹروں نے انھیں بتایا کہ وہ اپنے سر کا سکین کرا لیں تاکہ وہ اس بات کا اندازہ لگا سکیں کہ انھیں کیا ہوا ہے۔
مگر وہ خاتون اور ان کا بیٹا کچھ نہیں جانتے تھے کہ وہ کہاں اور کس کے پاس جائیں۔ ان کے مطابق ہر طرف افراتفری تھی۔ ایسے میں پھر میں نے طالبان سے یہ درخواست کی کہ مجھے ہسپتال کے اندر جانے دیں تاکہ میں ان زخمیوں کی کوئی مدد کر سکوں مگر انھوں نے مجھے نہیں جانے دیا۔
طالبان کا مؤقف
بی بی سی نے طالبان کا مؤقف لینے کے لیے جب ان سے رابطہ کیا تو طالبان کے ترجمان نے اس بات کی تردید کی زیادہ اموات ان کی وجہ سے ہوئیں۔
انھوں نے کہا کہ ان الزامات کا تعلق افغانستان کی ثقافتی روایات سے ہے نہ کہ طالبان کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں اور قوانین کی وجہ سے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ زلزلہ صبح 11 بجے آیا جب زیادہ تر مرد کام پر تھے جبکہ خواتین گھروں میں تھیں۔
ان کے مطابق کوئی بھی جسے افغان معاشرے کے بارے میں ادراک حاصل ہے انھیں یہ معلوم ہے کہ خواتین 80 سے 90 فیصد گھریلو کام کاج کرتی ہیں۔
ترجمان کے مطابق امدادی ٹیمیں چند گھنٹوں کے اندر آ گئی تھیں اور کچھ تو ہیلی کاپٹرز کی مدد سے زلزلے سے متاثرہ علاقوں تک پہنچے۔ انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ مدد ہر ضرورت مند تک نہیں پہنچائی جا سکی ہے۔
ان کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ بہت بڑی تباہی تھی اور اس سے آبادی کی بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے۔ ان کے مطابق اس وقت ملک کی معیشت اتنی اچھی نہیں ہے کہ ہر ایک کی فوری مدد کی جا سکے مگر ان کی حکومت مدد پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
جب طالبان کے ترجمان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا انھوں نے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں امداد پہنچانے کے لیے خواتین ورکرز کو بھی بھیجا ہے تو انھوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
ہسپتال میں پیدا ہونے والا بچہڈاکٹر سلمیٰ کا کہنا ہے کہ امدادی اداروں نے خوراک اور کمبل وغیرہ متاثرہ علاقوں تک پہنچائے ہیں مگر وہاں اس سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر امداد کی ضرورت ہے۔
دو ہفتے گزرنے کے باوجود اس زلزلے میں زخمی ہونے والی سینکڑوں خواتین ابھی بھی مناسب طبی امداد حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
ڈاکٹر سلمیٰ کے مطابق بہت سی حاملہ خواتین کے بچے ضائع ہو گئے اور کچھ نے کھلی چھت تلے بچوں کو جنم دیا، جس سے ان کا بہت زیادہ خون بہا۔
نوجوان خواتین صدمے کی حالت میں تھیں اور ان کے پاس پہننے کو صاف انڈرویئر اور سینیٹری پیڈز تک دستیاب نہیں تھے۔ انھیں طبی امداد اور دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔