گائے کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی دھیمی دھیمی کھنک یا آواز سے ہر کسی کے ذہن میں سوئزلینڈ کا تصور ابھر آتا ہے۔ جو اپنی پرسکون سرسبز چراگاہوں اور بلند و بالا برفیلی چوٹیوں کے لیے دلفریب مناظر کے لیے مشہور ہے۔

گائے کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی دھیمی دھیمی کھنک یا آواز سے ہر کسی کے ذہن میں سوئٹزرلینڈ کا تصور ابھر آتا ہے جو اپنی پرسکون سرسبز چراگاہوں اور بلند و بالا برفیلی چوٹیوں کے دلفریب مناظر کے لیے مشہور ہے۔
لیکن اگر گائے کے گلے میں بندھی ان گھنٹیوں کی آوازیں دن رات آپ کے بیڈروم کی کھڑکی کے باہر سے سنائی دیں اور وہ بھی ہلکی آواز میں نہیں بلکہ 20 سے 30 گائیوں کے گلے میں بندھی گھنٹیاں کسی گھڑیال کی طرح ٹن ٹن کا شور مچاتے ہوئے سنائی دیں تو آپ کو کیسا محسوس ہو گا؟
یقیناً سوئٹزرلینڈ کی پُرفضا وادیوں اور سرسبز چراگاہوں کا عکس فوری طور پر کسی مچھلی منڈی سے بدل جائے گا۔
جی ہاں آج کل بہت سی سوئس آبادیوں کو اسی مصیبت کا سامنا ہے۔
آروانجن 4700 کی آبادی والا ایک دلکش گاؤں ہے جو خوبصورت دریا آرے، برنیس آلپس کے کنارے پر واقع ہے۔ اس میں قرون وسطی کے دور کا قلعہ، چرچ اور روایتی فارم ہاؤسز ہیں۔
لیکن اس گاؤں کا شمار حکمت عملی کے اعتبار سے سوئٹزرلینڈ کی انتہائی کامیاب معیشت میں ہوتا ہے۔
یہ برن، زیورخ، اور باسل سے صرف ایک گھنٹے کی دوری پر ہے اور شہریوں کے لیے رہنے کے لیے ایک خوبصورت جگہ ہے جو دن بھر کی نوکری کے بعد کچھ سکون چاہتے ہیں۔ اب، نئے مکانات اور اپارٹمنٹس کی بڑھتی ہوئی تعداد گاؤں کے مرکز سے پھیلی ہوئی ہے۔
لیکن اگر آپ مکمل پرسکون، آروانجن، یا کہیں بھی دیہی سوئٹزرلینڈ چاہتے ہیں، تو اب یہ جگہ آپ کے لیے نہیں ہے۔

وہ روایتی فارم ہاؤس اب بھی موجود ہیں، گاؤں کے آس پاس کے ہریالی والی چراگاہیں یا کھیت نہ صرف نئے گھر بلکہ دودھ دینے والی گائیوں کا بھی مسکن ہیں، جن کے گلے میں گھنٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔
آروانجن کے کچھ نئے رہائشیوں کے لیے یہ چیز بہت زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوئی۔ کم از کم دو خاندانوں نے گاؤں کی کونسل سے باضابطہ شکایت کی کہ رات کو گائیوں کے گلے سے گھنٹیاں ہٹائی جائیں۔
وہاں اس بات پر احتجاج ہوا، شور مچا اور اس گاؤں کے عرصہ دراز سے رہنے والے کسانوں جو اب گاؤں کے میئر کے مطابق پانچ یا چھ ہی رہ گئے ہیں نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنے روایتی کلچر پر حملہ تصور کیا۔
میئر نے کہا کہ وہ کسان جس کے ریوڑپر اعتراض کیا گیا تھا وہ اسے ’اپنی اور اپنی گائیوں کی توہین‘ کے طور پر دیکھ رہا تھا۔
بہت پہلے ایک سوئس روایت میں ایک پٹیشن دی گئی تھی جس میں گائیوں کے گلے میں گھنٹیاں رکھنے کے حق میں دستخط کروائے گئے تھے کیونکہ اس میں لکھا تھا، ’ہم سوئس مستقبل میں اپنی اس روایات کو محفوظ رکھنا اور برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔‘
اینڈریاس بومن کا پختہ یقین ہے کہ گھنٹیاں سوئس روح کا لازمی حصہ ہیں۔ اس نے زیورخ ہوائی اڈے کے بین الاقوامی ٹرمینل کی طرف اشارہ کیا، جہاں نئے آنے والوں کو الپائن کے مناظر اور کاؤ بیل کی آواز کے ساتھ واک ویز سے لے جایا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جیسے ہی میں انھیں سنتا ہوں، مجھے لگتا ہے کہ میں گھر واپس آ گیا ہوں۔‘
انھوں نے دلیل دی کہ گھنٹیوں سے پریشان ہونے والا کوئی بھی شخص ’دیہی زندگی کا بہت رومانوی تصور‘ رکھتا ہے، اور اسے واقعی کہیں اور رہنا چاہیے۔
صرف چند دنوں میں پٹیشن کے لیے 1000 سے زیادہ دستخط جمع کیے گئے۔ انھیں ایک رسمی تقریب میں گاؤں کے حکام کے حوالے کیا گیا، ان کے ساتھ کسانوں کی طرف سے عطیہ کردہ روایتی چٹنیاں بھی تھیں۔
کاؤبیلز کبھی سوئس دیہی زندگی میں بہت مفید تھیں۔ اپنے ریوڑ کے ساتھ، خاص طور پر گرمیوں میں، الپس میں اونچی چراگاہوں اور اکثر کھڑی ڈھلوانوں پر گھنٹیاں ان پر نظر رکھنے کے لیے بہت ضروری تھیں۔ بوڑھے کسان اب بھی آپ کو بتائیں گے کہ وہ ہر ایک گائے کو اس کی گھنٹی کی آواز سے پہچان سکتے ہیں۔
لیکن آج کل گائیوں کو الیکٹرانک چپس لگائی گئی ہیں، اور وہ اپنا زیادہ تر وقت باڑ لگی چراگاہوں میں گزارتی ہیں۔ یہ جھگڑا آروانجن میں پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ آیا گھنٹیاں واقعی ضروری ہیں۔
کچھ سوئس کسانوں نے پہلے ہی رات کے وقت کاؤبیلز کو ہٹا دیا ہے، تاکہ ان کے پڑوسیوں کی نیند میں خلل نہ پڑے۔ دوسروں نے ان کو مکمل طور پر ترک کر دیا ہے۔ جانوروں کے حقوق کے کارکنوں نے سوال کیا ہے کہ کیا گائیوں کو بھاری شور والی گھنٹی پہننے سے نقصان ہوتا ہے؟
لیکن امیگریشن والے ملک میں جہاں 25 فیصد آبادی سوئس نہیں ہے، وہاں ہمیشہ وہ لوگ بھی ہوں گے جو روایت میں کسی تبدیلی کو اپنی ثقافت اور اپنی شناخت پر حملے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
لیکن کیا آروانجن میں کاؤبیل جھگڑا واقعی یہی ہے۔ گزشتہ ماہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں دائیں بازو کی سوئس پیپلز پارٹی نے ’تاکہ سوئٹزرلینڈ سوئٹزرلینڈ رہے‘ کے نعرے پر مہم چلائی، اور اسے نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں۔
اگلے مہینے آروانجن کی آبادی اپنی گائیوں کی گھنٹیوں کے مستقبل پر ووٹ دینے کے لیے ایک عوامی جلسے کے لیے جمع ہو گی۔ اس دوران شائد شور پر اعتراض کرنے والوں میں سے ایک نے احساس ہونے پر اپنی شکایت واپس لے لی۔ جبکہ دوسروں نے اسے آگے بڑھا دیا ہے۔