اس وقت جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش واحد ملک ہے جس کے انڈیا سے بہت گہرے تعلقات ہیں۔ بنگلہ دیش جنوبی ایشیا میں انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ تو کیا خطے کے دیگر ممالک میں چین کا بڑھتا اثر و رسوخ انڈیا کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے؟

بھوٹان کے بادشاہ شاہ جگمے کھیسر نامگیل وانگ چک انڈیا کے سات روزہ دورے پر ہیں۔ بھوٹان آبادی کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کا ایک چھوٹا ملک ہےاور انڈیا سے اس کے تعلقات انتہائی قریبی رہے ہیں۔
بھوٹان سے انڈیا کی قربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے سالانہ مرکزی بجٹ میں بھوٹان کے لیے الگ سے رقم مختص کی جاتی ہے۔ 2023-24 کے مرکزی بجٹ میں بھوٹان کے لیے تقریباً ساڑھے پانچ ہزار کروڑ روپے امدادی فنڈ کے طور پر منظور کیے گئے ہیں۔
بھوٹان کی سرحدیں انڈیا کی ریاست بنگال اور آسام سے ملتی ہیں لیکن چین سے بھوٹان کی بڑھتی ہوئی قربت کے سببان قریبی رشتوں کے بارے میں کچھ عرصے سے شکوک پیدا ہوتے جا رہے ہیں ۔
گزشتہ مہینے بھوٹان کے وزیر خارجہ ڈاکٹر تانڈی ڈورجی نے چین سے سرحدی تنازعے کے حل کے لیے بات چیت کی غرض سے بیجنگ کا دورہ کیا۔
چین کی طرف سے کہا گیا کہ دونوں ممالک نے سرحدی تنازعے کو جلد سے جلد حل کرنے اور سفارتی تعلقات قائم کرنے سے اتفاق کیا ہے۔
چین اور بھوٹان کے درمیان ابھی تک سفارتی تعلقات نہیں۔ بھوٹان معمول کے دنوں میں چین سے سرحدی تنازعاور سفارتی تعلقات جیسے معاملات میں انڈیا سے مشورے کیا کرتا تھالیکن کچھ عرصے سے وہ چین کے معاملے میں نہ صرف آزادانہ پالیسی پر گامزن ہے بلکہ اس نے ڈوکلام جیسے متنازعے خطے کے بارے میں بھی چین سے براہ راست بات چیت کی، جو عسکری نکتہ نظر سے انڈیا کے لیے انتہائی اہم علاقہ ہے۔
بھوٹان کے بادشاہ شاہ جگمے کھیسر نامگیل وانگ چک، جو انڈیا کے سات روزہ دورے پر ہیںڈوکلام کا علاقہ چین کے تسلط میں آ جانے سے اںڈیا کی مشرقی سرحدوں کو چین سے براہ راست خطرہ لاحق ہو گا۔
چینی امور کی ماہر ڈاکٹر ریتوشا تیواری کہتی ہیں کہ ’انڈیا اور چین کےاثر و رسوخ کے ٹکراؤ میں مزید الجھنے سے بچنے کے لیے بھوٹان چین سے اپنے سرحدی تنازعات جلد سے جلد حل کرنا چاہتا ہے۔ جہاں تک ڈوکلام خطے کا سوال ہے بھوٹان نے یہ واضح کیا کہ یہ تنازع ایک سہ رخی معاملہ ہے اور اس کے بارے میں انڈیا سے بھی بات چیت ہونی چاہیے۔‘
’لیکن گزشتہ مہینے بیجنگ میں سرحدی تنازعے پر ہونے والی بات چیت کے بات بھوٹان اور چین کی جانب سے جو اشارے ملے ہیں ان سے لگتا ہے کہ وہ اپنے سرحدی تنازعے انڈیا کو شامل کیے بغیر حل کرنے کے قریب ہیں۔ چین نے اپنے 12 پڑوسی ملکوں سے اپنے تعلقات حل کر لیے ہیں صرف بھوٹان اور انڈیا سے تنازعات حل ہونا باقی ہیں۔‘
ادھر جنوبی ایشیا کے ایک دوسرے ملک مالدیپ کے حالیہ صدارتی الیکشن میں محمد معیزو نے اپنی فتح کے فوراً بعد اپنے بیان کا اعادہ کیا کہ جو بھی انڈین فوجی مالدیپ کی سرزمین پر موجود ہیں وہ یہاں سے چلے جائیں۔
محمد معیزو جلد ہی صدر کا عہدہ سنبھالنے والے ہیں۔ ان کے پیشرو صدر کو انڈیا سے قریب سمجھا جاتا تھا۔
محمد معیزو نے اس بات کی تردید کی کہ وہ چین سے قریب ہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ وہ سبھی ممالک سے قریب سے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مالدیپ میں انڈین فوجیوں کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں۔ انڈیا کی کوشش رہی ہے کہ وہ مالدیپ کو اپنے زیر اثر رکھے۔ وہاں حکومتیں بدلنے سے اکثر صورتحال بدلتی رہی ہے۔
مالدیپ کے حالیہ صدارتی الیکشن میں محمد معیزو نے اپنی فتح کے فوراً بعد کہا تھا کہ جو بھی انڈین فوجی مالدیپ کی سرزمین پر موجود ہیں وہ یہاں سے چلے جائیںنیپال کی اںڈیا پر انحصار کم کرنے کی کوششیں
دوسری جانب نیپال کے تعلقات بھی چین سے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ چین روڈ اور بیلٹ پراجیکٹ کے تحت نیپال میں سڑکیں ، ہوائی اڈے اور بڑی بڑی منڈیا ں اور ڈھانچے تعمیر کر رہا ہے۔ چین اور نیپال کی باہمی تجارت بڑھتی جا رہی ہے۔
نیپال اںڈیا پر اپنا انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین نیپال کی سرحدوں پر نئے راستے بھی بنا رہا ہے اور ریلوے لائن بچھانے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔
اس وقت جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش واحد ملک ہے جس کے انڈیا سے بہت گہرے تعلقات ہیں۔ بنگلہ دیش جنوبی ایشیا میں انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔
انڈیا بنگلہ دیش کے کئی اہممنصوبوں میں مدد کر رہا ہے۔ یہاں سے تقریباً دو ہزار میگاواٹ بجلی ڈھاکہ کو سپلائی کی جاتی ہے۔
انڈیا نے بنگلہ دیش کے کئی اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ چین، بنگلہ دیش کی ایک ڈیپ سی بندرگاہ میں گہری دلچسپی لے رہا تھا لیکن ماہرین کے مطابق انڈیا کے دباؤ میں سمجھوتے کے طور پر اسے جاپان کی ایک کمپنی کو دیا گیا۔
وزیر اعظم حسینہ واجد کو انڈیا کی موجودہ حکومت سے بہت قریب سمجھا جاتا ہے جسے وہاں کے بعض حلقے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے۔
انڈیا سے بعض معاملات کے سبب وزیر اعظم حسینہ واجد کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ حالیہ برسوں میں بنگلہ دیش میں چین کا اثر خاصہ بڑھا ہے۔ چینی کمپنیاں بنگلہ دیش کے کئی اہم منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ وہ ڈھاکہ کو ہتھیاروں کی سپلائی کرنے والا ایک بڑا ملک ہے۔
پاکستان تو چین کا اتحادی اور عسکری پارٹنر ہے ہی۔ سری لنکا میں بھی حالیہ برسوں میں چین کا اقتصادی اثر و رسوخ بہت بڑھا ہے۔
چند مہینے قبل انڈیا میں اس وقت بے چینی پیدا ہو گئی تھی جب چین کا ایک تحقیقی بحری جہاز سری لنکا کی بندرگاہ کے نزدیک لنگر انداز ہوا۔
انڈیا کا کہنا تھا کہ یہ دراصل جاسوسی کا جہاز ہے اور اس کی موجودگی سے انڈیا کی قومی سلامتی پر اثر انداز ہو سکتی تھی۔ صورتحال کی نزاکت کے پیش نظر کولمبو نے بمشکل اس معاملے کو رفع دفع کیا لیکن اس سے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کا اندازہ ضرور ہوا۔
انڈیا نے سری لنکا کو مالی بحران سے نکالنے میں مدد کے طور پر چار ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم قرض کے طور پر دی تھی۔
جنوبی ایشیا کے لیے انڈیا اور چین دونوں اہم پارٹنر کیوں؟
مئی 2020 میں لداخ کی گلوان وادی میں چین اور انڈیا کی افواج کے درمیان ٹکراؤ کے بعد انڈیا نے جنوبی ایشیائی ملکوں میں چین کے اثر ورسوخ کو زائل کرنے کے لیے ان سے قریبی اقتصادی روابط بڑھانے شروع کیے۔
اس کا ابتدائی طور پر تو خاطر خواہ نتیجہ سامنے آیا لیکن رفتہ رفتہ یہ ممالک اپنے قومی مفادات اور وسیع تر مفاد میں ذیادہ آزادانہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہوتے گئے۔
خارجہ امور کے تجزیہ کار امیت بروا کہتے ہیں کہ کچھ سال سے انڈیا اور چین کے رشتوں میں زبردست تبدیلی آئی ہے۔ دونوں کے ٹکراؤ کے سبب یہ ایک نیا منطرنامہ ہے حالانکہ علاقائی اثرات کے لیے کوششیں پرانی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ چین جنوب مشرقی ملکوں میں پہلے ہی کامیاب ہو چکا ہے کیونکہ اس کے پاس جو وسائل ہیں وہ انڈیا کے پاس نہیں۔
’سری لنکا ہو، نیپال یا بھوٹان ہو یا پھر مالدیپ۔۔۔ انڈیا کو اپنے پڑوسیوں سے تعلقات کے ضمن میں ایک وسیع تناظر لے کر چلنا ہو گا۔‘

’اس کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ کون سا ملک کس کے ساتھ جا رہا ہے۔ سبھی ملکوں کو اپنے رشتے قائم کرنے اور اپنی خارجہ پالیسی بنانے کا حق حاصل ہے۔ انڈیا کو یہ تاثر دینا چاہیے کہ کسی مشکل کی صورت میں وہ سب سے قریبی پڑوسی ملک ہے۔‘
بروا مزید کہتے ہیں کہ ’اگر چین اور بھوٹان اپنے سرحدی تنازعے حل کر لیتے ہیں تو انڈیا کو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے کہ یہ مسلہ حل ہوا۔ پاکستان کے ساتھ بھی انڈیا کو اپنے تعلقات بہتر کرنے چاہیئے۔‘
تائیوان ایشیا ایکسچینجفاؤنڈیشن میںبین الاقوامی امور کی محقق ڈاکٹر ثنا ہاشمی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جنوبی ایشیا کے کئی ممالک کے لیے عسکری اور اقتصادی طور پر انڈیا یا چین پر بہت زیادہ انحصار کرنافائدہ مند نہیں۔ جنوبی ایشیا کے لیے انڈیا اور چین دونوں اہم پارٹنر ہیں۔ یہ معاملہ کسی ایک کے حق میں جانے کا نہیں۔ جنوبی ایشیا کی اگر تاریخ دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ ممالک انڈیا اور چین کے درمیان توازن قائم رکھتے رہے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’جنوبی ایشیا ایک ایسا خطہ ہے جہاں انڈیا اپنا غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور چین ان ممالک میں اپنے اثر رسوخ بڑھا کر انڈیا کے اثرات کو قابو میں کرنا چاہتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان غلبہ حاصل کرنے کی یہ کوشش خطے کے حال اور مستقبل کا تعین کرے گی۔‘