تقریباً ایک منٹ طویل ویڈیو میں میتی برادری کے مردوں کا ہجوم دو برہنہ خواتین کو گھیرے ہوئے ہے اور انھیں دھکا دے رہے ہیں۔ زبردستی ان کے جسم کے نسوانی اعضا کو چھوتے ہیں اور انھیں ایک کھیت میں گھسیٹ کر لے جاتے ہیں جہاں وہ کہتی ہیں کہ ان کے ساتھ اجتماعی ریپ کیا گيا۔

انتباہ: اس مضمون میں جنسی تشدد کی تفصیلات شامل ہیں۔
پہلے پہل مجھے صرف اُن کی جُھکی ہوئی نظریں ہی نظر آئیں۔ چہرے پر سیاہ ماسک تھا اور انھوں نے پیشانی اور سر کے گرد دوپٹہ لپیٹا ہوا تھا۔
ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وائرل ویڈیو سے سامنے آنے والی کوکی، زومی برادری کی یہ دو خواتین گلوری اور مرسی ساری دنیا سے چھپ جانا چاہتی ہیں۔
لیکن آج ان کی آواز بلند ہے۔ آج پہلی بار وہ ایک صحافی سے مل رہی ہیں تاکہ اپنے کرب اور انصاف کے لیے اپنی لڑائی کے بارے میں دنیا کو بتا سکیں۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ان کی ویڈیو کو دیکھنا تکلیف دہ ہے۔ تقریباً ایک منٹ طویل ویڈیو میں میتی برادری کے مردوں کا ہجوم دو برہنہ خواتین کو گھیرے ہوئے ہے اور انھیں دھکا دے رہے ہیں۔ زبردستی ان کے جسم کے نسوانی اعضا کو چھوتے ہیں اور انھیں ایک کھیت میں گھسیٹ کر لے جاتے ہیں جہاں وہ کہتی ہیں کہ ان کے ساتھ اجتماعی ریپ کیا گيا۔
اس حملے کو یاد کرتے ہوئے گلوری کی آواز رندھ جاتی ہے۔
گلوری بتاتی ہیں کہ ’میرے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا گیا۔ اس صدمے کے ساتھ جینا پہلے ہی بہت مشکل تھا، پھر دو ماہ بعد جب اس حملے کی ویڈیو وائرل ہوئی تو میں جینے کی چاہ ہی کھونے لگی۔‘
جبکہ دوسری متاثرہ خاتون مرسی کہتی ہیں کہ ’آپ جانتے ہیں کہ انڈین معاشرہ کیسا ہے، وہ اس طرح کے حادثے کے بعد خواتین کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ اب میں اپنی برادری کے لوگوں سے آنکھ بھی نہیں ملا سکتی۔ میں اپنی عزت کھو چکی ہوں۔ اب میں پھر کبھی ویسی نہیں رہوں گی۔‘
ویڈیو نے دونوں خواتین کے درد کو چار گنا بڑھا دیا لیکن یہ ان کے لیے ایک ثبوت بھی بن گیا جس نے سب کی توجہ اس ذات پات کے تشدد کی طرف مبذول کرائی جو منی پور میں کئی مہینوں سے میتی اور کوکی-زومی برادریوں کے درمیان جاری ہے۔
شرم اور خوف

ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد کافی تنقید ہوئی اور انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے کارروائی کی گئی۔ جس کی وجہ سے کئی کوکی خواتین نے پولیس میں جنسی تشدد کی شکایات درج کرانے کی ہمت کی۔
لیکن ویڈیو پر دنیا کی توجہ نے گلوری اور مرسی کو مزید سمٹنے پر مجبور کر دیا۔
حملے سے پہلے گلوری میتی اور کوکی کمیونٹیز کے طلبا کے مخلوط کالج میں زیر تعلیم تھیں۔ جبکہ مرسی کے دن اپنے دو بچوں کی دیکھ بھال، سکول کا ہوم ورک کروانے اور چرچ جانے میں گزرتے تھے۔
لیکن حملے کے بعد دونوں خواتین کو گاؤں سے فرار ہونا پڑا اور اب وہ ایک دوسرے شہر میں چھپ کر رہ رہی ہیں۔
شرم اور خوف کے سائے تلے وہ اب ایک خیر خواہ کے گھر کی چاردیواریوں میں سمٹ کر رہتی ہیں۔
مرسی اب نہ تو چرچ جاتی ہیں اور نہ ہی سکول۔ ان کے بچوں کو ان کی ایک رشتہ دار سکول لے جاتی اور لاتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں: ’میں رات کو مشکل سے سو پاتی ہوں اور بہت ڈراؤنے خواب دیکھتی ہوں۔ میں گھر سے باہر نہیں نکل سکتی۔ میں لوگوں سے ملنے سے خوفزدہ ہوں اور شرمندگی محسوس کرتی ہوں۔‘
حادثے کا صدمہ اس قدر تھا کہ دونوں گھبرا گئے۔ مشاورت نے مدد کی لیکن نفرت اور غصے نے بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
منی پور میں کیا ہوا؟
منی پور کی 33 لاکھ آبادی میں سے نصف سے زیادہ لوگ میتی برادری سے ہیں۔ 43 فیصد کا تعلق کوکی اور ناگا کمیونٹی سے ہے۔
تازہ تشدد مئی میں اس وقت شروع ہوا جب کوکی برادری نے میتی کمیونٹی کے شیڈولڈ ٹرائب کا درجہ دینے کے مطالبے کی مخالفت کی۔ انھیں خدشہ ہے کہ اس سے کوکی علاقوں میں زمین خرید کر میتی کمیونٹی زیادہ بااثر ہو جائے گی۔
ریاستی حکومت اور وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ (جو میتی ہیں) کوکی انتہا پسند گروپوں کو تشدد کو اکسانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
تشدد میں اب تک 200 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق کوکی برادری سے ہے۔ دونوں برادریوں کے ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
میتی خواتین نے بھی کوکی مردوں پر جنسی تشدد کا الزام لگایا ہے اور ایک ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے، لیکن زیادہ تر کا خیال ہے کہ وہ ایسی حرکتوں پر بات کرکے شرمندہ نہیں ہونا چاہتیں۔

غصہ اور نفرت
اب گلوری اپنی میتی دوست یا اس کمیونٹی کے کسی فرد کا چہرہ بھی نہیں دیکھنا چاہتی، کسی کے ساتھ پڑھنا تو دور کی بات ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں کبھی اپنے گاؤں واپس نہیں جاؤں گی۔ میں وہیں پلی بڑھی، وہ میرا گھر تھا، لیکن وہاں رہنے کا مطلب پڑوسی دیہات کے میتی لوگوں کے ساتھ ملنا ہوگا جو اب ممکن نہیں ہے۔‘
مرسی کا بھی یہی خیال ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ’میں ان کی آواز بھی نہیں سننا چاہتی۔‘
مرسی اور گلوری کا گاؤں ان دیہاتوں میں سے ایک تھا جو مئی میں منی پور میں ہونے والے ذات پات کے فسادات کی زد میں پہلے پہل آیا تھا۔ اس دن بھگدڑ میں ہجوم نے گلوری کے والد اور بھائی کو قتل کر دیا۔
گلوری نے دھیمی آواز میں کہا کہ ’میں نے انھیں اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھا۔‘
گلوری نے بتایا کہ انھیں ان دونوں کی لاشیں کھیت میں چھوڑ کر جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔ اب وہ وہاں واپس بھی نہیں جا سکتیں۔ تشدد کے پھوٹ پڑنے کے بعد میتی اور کوکی کمیونٹیز ایک دوسرے کے علاقوں میں قدم نہیں رکھتیں۔
منی پور دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے اور درمیان میں پولیس، فوج اور دونوں برادریوں کے رضاکاروں کی طرف سے چیک پوائنٹس بنائے گئے ہیں۔
گلوری کہتی ہیں کہ ’مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کی لاشیں کس مردہ خانے میں رکھی گئی ہیں، اور نہ ہی میں جا کر چیک کر سکتی ہوں۔ حکومت کو خود ہی انھیں ہمیں واپس کردینا چاہیے۔‘
درد اور تاسف

حملے کے وقت مرسی کے شوہر نے پڑوسی میتی دیہات کے سربراہوں کے ساتھ میٹنگ کی تھی جس میں امن برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ لیکن جیسے ہی تمام سردار باہر آئے، ہجوم نے حملہ کر دیا، گھروں کو آگ لگا دی اور مقامی چرچ کو بھی جلا دیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے مقامی پولیس کو فون کیا لیکن انھوں نے کہا کہ ان کے تھانے پر حملہ ہوا ہے اس لیے وہ یہاں آ کر مدد نہیں کر سکتے۔ میں نے سڑک پر ایک پولیس وین کھڑی دیکھی، لیکن وہاں سے کوئی باہر نہیں نکلا۔‘
مرسی کے شوہر کے مطابق جب مشتعل ہجوم نے خواتین کو نشانہ بنانا شروع کیا تو وہ خود کو تنہا محسوس کرنے لگے۔ انھوں نے کہا کہ ’میں یہ سوچ کر اداس اور احساس جرم میں مبتلا ہوں کہ میں کچھ نہیں کر سکا۔ نہ اپنی بیوی کو بچا سکے اور نہ ہی گاؤں والوں کو۔ دل میں درد ہوتا ہے۔ کبھی کبھی میں اتنا پریشان ہو جاتا ہوں کہ مجھے لگتا ہے کہ کسی کو مار ڈالوں۔‘
پولیس ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھوں نے انچارج افسر سمیت پانچ افراد کو معطل کر دیا ہے اور ان سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
مرسی کے شوہر کے مطابق انھوں نے حملے کے دو ہفتے بعد پولیس کو شکایت کی تھی لیکن ویڈیو منظر عام پر آنے تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ویڈیو کے بعد وزیر اعظم مودی نے منی پور میں ذات پات کے تشدد پر اپنا پہلا بیان دیا۔
منی پور پولیس نے سات افراد کو گرفتار کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے تحقیقات سی بی آئی کو سونپ دی جس نے اب ان سات لوگوں کے خلاف اجتماعی ریپ اور قتل کا مقدمہ درج کیا ہے۔
حوصلہ اور امید

گلوری اور مرسی اور ان کے شوہر کا کہنا ہے کہ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد انھیں دنیا بھر سے تسلی کے پیغامات موصول ہونے لگے جس سے انھیں کافی حوصلہ ملا۔
مرسی کے شوہر کا کہنا ہے کہ ’ویڈیو کے بغیر کوئی سچائی پر یقین نہیں کرتا، ہمارے درد کو نہیں سمجھتا۔‘
مرسی کو اب بھی ڈراؤنے خواب آتے ہیں اور وہ خوف محسوس کرتی ہیں جب وہ مستقبل کے بارے میں سوچتی ہیں۔
اپنے بچوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’میرے دل پر ایک بوجھ ہے کہ میرے بچوں کو ورثہ میں دینے کے لیے کچھ نہیں بچا۔‘
اب وہ خُدا سے دعا میں صبر مانگتی ہیں۔ وہیں سکون محسوس ہوتا ہے۔ مرسی نے کہا کہ ’میں اپنے آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ اگر خدا نے مجھے یہ سب برداشت کرنے کے لیے منتخب کیا، تو صرف وہی مجھے اس پر قابو پانے کی طاقت دے گا۔‘
ان کا پورا گاؤں اس حملے میں تباہ ہو گیا ہے اور اب وہ کمیونٹی کی مدد سے اپنی زندگی دوبارہ شروع کر رہی ہیں۔
گلوری کا کہنا ہے کہ دونوں برادریوں کے لیے علیحدہ انتظامیہ ہی واحد حل ہے۔ محفوظ اور پرامن رہنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔
یہ متنازعہ مطالبہ کوکی برادری کی جانب سے کئی بار اٹھایا جا چکا ہے اور میتی برادری نے اس کی مخالفت کی ہے۔ دونوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ میتی ہیں اور وہ منی پور کی تقسیم کے خلاف ہیں۔
امتیاز اور انصاف
گلوری اور مرسی کو مقامی انتظامیہ پر کوئی بھروسہ نہیں ہے اور وہ کوکی برادری کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام لگاتے ہیں۔
گلوری کہتی ہیں کہ ’منی پور حکومت نے میرے لیے کچھ نہیں کیا۔ مجھے وزیر اعلیٰ پر بھروسہ نہیں ہے۔ یہ سب ہمارے ساتھ ان کے دور حکومت میں ہوا۔‘
دونوں کا الزام ہے کہ وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ نے اب تک ذات پات کے تشدد سے متاثرہ کوکی-زومی خاندانوں سے نہ تو بات کی ہے اور نہ ہی ان سے ملاقات کی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے بارہا وزیر اعلیٰ کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے لیکن ریاستی حکومت نے امتیازی سلوک کے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
جب ہم نے وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ کے سامنے یہ الزامات رکھنے کی کوشش کی تو انھوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن انڈین ایکسپریس اخبار کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’وہ میتی برادری کے اہل خانہ سے بھی ملنے نہیں گئے ہیں اور ان کے دل میں یا ان کے کام میں کسی کی طرفداری نہیں ہے۔‘
ویڈیو کا نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت سے کہا ہے کہ وہ تشدد میں مارے گئے تمام افراد کی شناخت کرے اور ان کی لاشیں ان کے اہل خانہ کو واپس کرنے کے انتظامات کرے۔
گلوری کی اس پر امیدیں بڑھ گئی ہیں۔ وہ انصاف پر یقین رکھتی ہیں۔
مستقبل میں وہ کسی اور کالج میں اپنی تعلیم دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہیں اور پولیس یا فوج میں افسر بننے کا اپنا خواب پورا کرنا چاہتی ہے۔ گلوری کہتی ہیں کہ ’یہ میرا ہمیشہ سے خواب تھا، لیکن حملے کے بعد میرا یقین مزید پختہ ہو گیا ہے کہ مجھے تمام لوگوں کے لیے بلا تفریق کام کرنا ہے۔ میں ہر قیمت پر انصاف چاہتی ہوں۔ اس لیے میں آج بول رہی ہوں تاکہ جو کچھ میں نے برداشت کیا وہ دوبارہ کسی عورت کے ساتھ نہ ہو۔‘
مرسی نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ ’ہم قبائلی خواتین بہت مضبوط ہیں، ہم ہار نہیں مانیں گی۔‘
میرے جانے سے قبل وہ ایک پیغام دینا چاہتی ہیں کہ ’میں تمام کمیونٹیز کی ماؤں سے کہنا چاہتی ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو سکھائیں کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، خواتین کی توہین نہ کریں۔‘
(دونوں خواتین کے نام اُن کی حفاظت کے پیش نظر تبدیل کر دیے گئے ہیں)