اس واقعے کی ایف آئی آر کے مطابق 40 سالہ اطہر حسین کو پانچ دسمبر کی رات نوادہ ضلع کے بھٹّا گاؤں میں ایک ہجوم نے بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا۔
’انھوں نے میرے شوہر کا نام پوچھا۔ جیسے ہی انھوں نے اپنا نام یعنی محمد اطہر حسین لیا، ان آٹھ سے دس لوگوں نے اطہر کو مارنا شروع کر دیا۔ انھوں نے میرے شوہر کو مار دیا۔ میں بیوہ اور میرے بچے یتیم ہو گئے۔ اب میرے بچے کسے پاپا کہہ کر پکاریں گے؟‘
محمد اطہر حسین کی اہلیہ شبنم پروین اس رات کے واقعے کو بیان کرتے ہوئے رو پڑیں۔
اس واقعے کی ایف آئی آر کے مطابق 40 سالہ اطہر حسین کو پانچ دسمبر کی رات نوادہ ضلع کے بھٹّا گاؤں میں ایک ہجوم نے بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا۔
زخمی اطہر کی موت 12 دسمبر کی رات بہار شریف صدر ہسپتال میں ہوئی۔
فریقین کی جانب سے اطہر کی ہلاکت پر دو مقدمات درج ہوئے ہیں۔ ایک ایف آئی آر میں مقتول کے خاندان نے الزام لگایا کہ اطہر کو چوری کا جھوٹا الزام لگا کر مار دیا گیا۔
تاہم دوسری جانب اطہر پر تشدد کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ وہ چوری کی نیت سے رات گئے ایک گھر میں داخل ہوئے تھے اور چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے۔
اطہر حسین پر تشدد کے الزام میں پولیس نے 11 افراد کو گرفتار کیا ہے۔
پولیس کا اطہر کے قتل پر کیا کہنا ہے؟
اطہر نالندہ ضلع کے رہنے والے تھے۔ اہلِ خانہ کے مطابق وہ تقریباً 20 سال سے سائیکل پر کپڑے بیچ کر اپنے خاندان کی کفالت کر رہے تھے۔
ڈی ایس پی ہلاس کمار کہتے ہیں کہ ’پانچ دسمبر کی رات پولیس کو اطلاع ملی کہ کُچھ لوگوں نے ایک چور کو پکڑ لیا ہے۔ اس کے بعد چھ دسمبر کو دو ایف آئی آر درج کرائی گئیں۔ ایک میں اطہر حسین کو چوری کے الزام میں مرکزی ملزم بتایا گیا تھا جبکہ دوسری میں اطہر کی بیوی نے اطہر پر تشدد کا الزام لگایا۔‘
ڈی ایس پی کا مزید کہنا ہے کہ ’ان دونوں ایف آئی آر میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ اطہر پر تشدد کی وجہ اُن کا مذہب تھا۔‘
ہلاس کمار کے مطابق اب تک ہونے والی تفتیش میں اطہر حسین کا کوئی بھی مجرمانہ ریکارڈ سامنے نہیں آیا ہے۔
وہیں اطہر حسین کے بھائی محمد چاند کہتے ہیں کہ ’چھ دسمبر کو جب ہم نے ایف آئی آر درج کرائی، تب میرا بھائی بے ہوش تھا۔ ہمیں صرف چوری کے الزام میں مارپیٹ کا علم تھا۔ جب وہ ہوش میں آئے تو انھوں نے بتایا کہ کس طرح ان کے کپڑے اتار کر مذہبی شناخت کا تعین کیا گیا۔‘
اپنے بھائی کے اس بیان کے بعد اب وہ دوبارہ ایف آئی آر درج کروائیں گے۔
اہلِ خانہ کا الزام
محمد چاند کہتے ہیں کہ ’ہم سب ڈرے ہوئے ہیں۔ ہمارے گاؤں کا کوئی بھی مسلمان مرد چاہے وہ مزدور ہو، مویشیوں کا کاروبار یا کوئی بھی اور کام کرنے والا ہو اب اس واقعے کے بعد اپنے گاؤں سے باہر نہیں نکل رہا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ مرنے سے پہلے ان کے بھائی نے بتایا تھا کہ پانچ دسمبر کی رات وہ اپنے کام سے واپس گھر آ رہے تھے کہ اسی دوران ان کی سائیکل پنکچر ہو گئی۔‘
’ایسے میں قریب ہی ایک چوراہے پر بیٹھے نشے کے عادی کچھ لوگوں سے انھوں نے آس پاس پنکچر بنانے والی دکان کا پتہ پوچھا۔ اس پر نشے میں دھت نوجوانوں نے ان کا نام پوچھا۔ جیسے ہی انھوں نے اپنا نام ’محمد اطہر حسین‘ بتایا، انھوں نے ان پر حملہ کر دیا۔‘
اطہر کے بھائی کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے آخری بیان میں کہا کہ ’آٹھ سے دس لوگوں نے انھیں زبردستی سائیکل سے اتار کر ان سے پیسے چھین لیے اور مذہبی شناخت کی تصدیق کے بعد انھیں زبردستی ایک کمرے میں لے گئے، جہاں ان پر تشدد کیا اور نیم مردہ حالت میں چھوڑ دیا۔‘
محمد چاند کے مطابق جب لوگوں کو لگا کہ اطہر کی موت ہو گئی ہے تب فون پر پولیس کو اطلاع دی گئی کہ ایک چور کو چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے۔
اس اطلاع کے بعد پولیس کی ٹیم آئی اور اطہر کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
اطہر کی اہلیہ کو کیسے اطلاع ملی؟
اطہر کی اہلیہ شبنم نے بتایا کہ انھیں اس واقعے کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا، لیکن رات بھر کے انتظار کے بعد صبح کسی نے انھیں اطہر کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تصاویر دکھائیں، جو اس علاقے میں کئی لوگ شیئر کر رہے تھے۔
شبنم بتاتی ہیں کہ ’تصاویر دیکھ کر ہمارے ہوش اڑ گئے۔ ہم رونے لگے۔ گھبراہٹ کی حالت میں اطہر کے بھائی شاکب اور چاند ہسپتال پہنچے جہاں اطہر بے ہوشی کی حالت میں پڑے ہوئے تھے۔‘
’ایک گھنٹے بعد جب میں پہنچی تو دیکھا کہ انھیں بہت بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ میری آواز سن کر انھوں نے آنکھیں کھولیں اور بتایا کہ ’میں بہت تکلیف میں ہوں، ڈاکٹر سے کہو کے وہ میرا علاج کریں۔‘
اطہر کی اہلیہ کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے وہاں موجود پولیس والوں سے بات کی مگر انھوں نے کہیں لے جانے نہیں دیا اور کہا کہ یہیں علاج ہوگا۔‘
ہسپتال میں علاج کے دوران تین دن بعد اطہر کی حالت بگڑنے لگی۔ انھیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا۔
اہلِ خانہ نے اطہر کو نجی ہسپتال لے جانے کی اجازت مانگی۔ جس کے بعد انھیں پاواپوری صدر ہسپتال بھیجا گیا۔
پاواپوری صدر ہسپتال میں بھی ان کی حالت بہتر نہیں ہوئی۔ جس کے بعد صبح ہوتے ہی اُن کے خاندان والوں نے زخمی اطہر کو ایک اور ہسپتال منتقل کرنے کی کوشش کی جس کے دوران ان کی موت ہو گئی۔
چوری کا الزام
اس معاملے میں شبنم پروین نے 10 نامزد اور 15 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کروایا ہے۔
تاہم اب تک پولیس نے اس معاملے میں 11 ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جلد ہی تمام ملزمان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔
دوسری جانب جس گاؤں میں اطہر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا وہاں کے رہنے والے سکندر یادو نے اُن کے خلاف چوری کا مقدمہ درج کرایا تھا۔
اطہر کے ساتھ مار پیٹ کے معاملے میں پولیس نے سکندر یادو کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ 23 سالہ سکندر کے گھر میں ہی اطہر کو تشدد کا نشانہ بنایا جانے کا الزام ہے۔
سکندر کی اہلیہ بندی کا الزام ہے کہ اطہر ان کے گھر میں چوری کر رہے تھے اور شور مچانے پر لوگوں نے پکڑ کر ان پر تشدد کیا۔
15 دن گزر جانے کے باوجود بھی بندی کے گھر میں سامان بکھرا پڑا ہے۔ سکندر کے گھر کے ایک کمرے کا دروازہ سڑک کی طرف کھلتا ہے اور اب تک یہی کہا جا رہا ہے کہ مبینہ طور پر اسی کمرے میں اطہر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
تاہم سکندر کی اہلیہ بندی نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ اُن کے گھر میں اطہر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔بندی کا دعویٰ ہے کہ ’دو سے تین لاکھ کے زیورات چوری ہوئے۔ چور کے پکڑے جانے پر برتن تو مل گئے لیکن زیورات نہیں ملے۔ ایک ہی چور پکڑا گیا تاہم باقی چور بھاگ گئے۔‘
سکندر اور ان کی اہلیہ مزدوری کر کے اپنا گھر چلاتے ہیں۔ غربت کا یہ عالم ہے کہ اُن کے گھر پر ان کے گھر میں بیت الخلا یا ٹوائلٹ تک موجود نہیں ہے۔
گاؤں کے حالات اب کیسے ہیں؟
اسی گاؤں کی پھولمنتی دیوی کے 70 سالہ شوہر شری یادو کو بھی پولیس نے اسی معاملے میں گرفتار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اطہر نے چوری کی تھی۔‘ تاہم ان کا الزام ہے کہ پولیس نے بلا وجہ ان کے شوہر کو گرفتار کر لیا ہے۔
اسی گاؤں کی رہنے والی کنّتی دیوی کہتی ہیں کہ ’چوری کے الزام میں ہر بندے نے ہی مار پیٹ کی۔ اب پولیس کے رویّے کی وجہ سے کوئی بھی آدمی گاؤں میں نہیں۔‘
دراصل محمد اطہر حسین کی اہلیہ نے اپنی شکایت میں 15 نامعلوم افراد پر بھی مارپیٹ کا الزام لگایا ہے۔
گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے پولیس گاؤں کے مردوں کو اٹھا کر لے جاتی ہے۔
بھٹّا گاؤں میں ہندو اور مسلمان، دونوں مذاہب کے لوگ آباد ہیں۔ اس گاؤں میں آباد خاندانوں کی تعداد تقریباً 300 ہے۔۔ گاؤں میں کئی مندر اور مزار بھی ہیں، لیکن اس طرح کا واقعہ یہاں پہلی بار پیش آیا ہے۔
بھٹّا گاؤں کے ہی محمد اصغر بتاتے ہیں کہ ’اطہر تقریباً 15 سے 20 سال سے سائیکل پر مزدوری کرتے تھے۔ وہ عورتوں اور بچوں کے کپڑوں کے ساتھ ساتھ مچھر دانی وغیرہ بھی بیچا کرتے تھے۔ جس گاؤں میں اطہر پر تشدد ہوا وہاں اُن کے سسرال والے بھی رہتے ہیں، جہاں وہ اکثر رات ڈھل جانے پر رُک جایا کرتے تھے۔ گاؤں کی اکثر خواتین انھیں جانتی تھیں۔‘