’بھکاری کو زندہ جلا‘ کر 80 لاکھ کا انشورنس فراڈ کرنے والا شخص 17 سال بعد کیسے پکڑا گیا؟

الزام لگایا جا رہا ہے کہ انیل سنگھ، ان کے والد اور خاندان کے دیگر افراد نے 20 لاکھ روپے کی انشورنس کروائی اور دو سال بعد انیل کی ’حادثاتی موت‘ کا دعویٰ کر کے پالیسی کی شرائط کے مطابق چار گنا زیادہ رقم یعنی 80 لاکھ کا دعویٰ کر کے دھوکہ کیا۔
انڈیا
BBC
پولیس معلومات کے مطابق انیل سنگھ اتر پردیش سے فرار ہو کر احمد آباد چلا گیا

17 سال پہلے آگرہ ہائی وے پر ایگ گاڑی کھمبے سے ٹکرائی اور اس میں آگ لگ گئی اور یہ اطلاع آئی کہ اس حادثے میں ایک نوجوان جل کر ہلاک ہو گیا ہے۔

اطلاع ملنے پر اس نوجوان کے والد جائے حادثہ پر پہنچے اور کچھ لمحوں بعد اپنے بیٹے کی لاش لے کر اس کی آخری رسومات ادا کر دیں مگر اس حادثے کے بعد ایک عجیب بات سامنے آئی اور اس واقعے کے کچھ ماہ بعد حادثے کا شکار ہونے والے نوجوان کا باپ ’لکھ پتی بن گیا۔‘

گجرات پولیس کے دعوے کے مطابق یہ دراصل فلمی کہانی کی طرح کا ’سچا واقعہ‘ ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ یہ سازش مبینہ طور پر اتر پردیش کے گوتم بدھ نگر کے بھٹانگر گاؤں میں ایک مزدور باپ اور بیٹے نے رچی تھی اور اس کہانی نے پولیس کو چکرا کر رکھ دیا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ پولیس کے ریکارڈ کے مطابق جولائی 2006 میں آگرہ ہائی وے پر حادثے میں ہلاک ہونے والا انیل سنگھ مالک 17 سال بعد احمد آباد سے زندہ نکل آیا تھا۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق یہ سارا معاملہ اس وقت کھل کر سامنے آیا جب احمد آباد کی کرائم برانچ کی ٹیم نے احمد آباد کے علاقے نکول سے ایک شخص کو گرفتار کیا۔

اس شخص پر الزام یہ لگایا جا رہا ہے کہ انیل سنگھ ملک،ان کے والد اور خاندان کے دیگر افراد نے ملک کر 20 لاکھ روپے کی انشورنس کروائی اور دو سال بعد انیل کی ’حادثاتی موت‘ کا ڈرامہ رچا کربیمہ پالیسی کی شرائط کے مطابق چار گنا زیادہ رقم یعنی 80 لاکھ کا دعویٰ کر کے دھوکہ و فراڈ کیا۔

اس سارے منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے آگرہ میں ایک بھکاری کو گاڑی میں ڈال کر حادثہ کروایا گیا۔

لیکن آخر کار احمدآباد کے کرائم برانچ نے اس دھوکے اور قت میں ملوث مرکزی کردار کو اس واقعے کے اتنے سال بعد کیسے پکڑا؟

دھوکے باز اور ’قاتل‘ کو کیسے پکڑا

اس معاملے پر پولیس سے ملنے والی تفصیلات کے مطابق اترپردیش کے چھوٹے سے گاؤں بھٹانگر میں رہنے والے وجے پال سنگھ نے سال 2004 میں اپنے 20 برس کے بیٹے انیل سنگھ ملک کے لیے 20 لاکھ روپے کی لائف انشورنس پالیسی لی۔

اس بیمہ میں ایک شرط تھی جس کے مطابق اگر بیمہ پالیسی لینے والے کی حادثاتی طور پر موت ہو جاتی ہے تو مرنے والے کی طرف سے نامزد شخص کو انشورنش کی رقم کا چار گنا دیا جائے گا۔

پولیس کے مطابق اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے چالاک باپ بیٹے نے مسلسل دو سال تک اس پالیسی کا پریمیم بھی ادا کیا۔ ڈیڑھ سال کے انشورنس کے بعد ایک گاڑی بھی خریدی اور اس کی انشورنس بھی کروائی۔

احمد آباد کرائم برانچ کے ڈی سی پی چیتنیا منڈلک نے اس کیس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’وجے پال سنگھ کے دو بیٹے ہیں جن کا نام ابھے سنگھ اور انیل سنگھ ہے۔ مالی مجبوریوں کی وجہ سے وجے پال نے پیسہ کمانے کے لیے یہ شارٹ کٹ آزمایا۔ جلد رقم کمانے کے لیے چھوٹے بیٹے انیل کا بیمہ کروایا گیا۔‘

باپ اور بیٹے نے فراڈ اور قتل کے بارے میں پولیس کو دیے گئے بیان میں اس سازش کی تفصیلات بتائیں جن کے مطابق ’پالیسی کے دو سال بعد، وجے پال اور ان کے بڑے بیٹے ابھے سنگھ بھٹانگر گاؤں سے آگرہ کے لیے نکلے اور اپنے ساتھ دو دیگر جاننے والوں، مہیپال گڈریا اور راکیش کھٹک، کو لے گئے۔ اس سفر سے پہلے مہیپال اور راکیش دھن کور اور غازی آباد کے درمیان ایک بھکاری کو ہوٹل میں اچھا کھانا کھلانے کے لیے لے آئے۔‘

پولیس کے مطابق اپنے منصوبے کو کامیاب کرنے کے لیے انھوں نے ’کھانے میں نیند کی گولیاں ملا دیں تھیں۔‘

چیتنیا منڈلک نے پولس تفتیش میں سامنے آنے والے حقائق کے بارے میں بتایا کہ ’ملزمان نے بھکاری کو کار میں بٹھایا، جو دوائی کی وجہ سے غنودگی میں تھا، بعد میں انھوں نے گاڑی کھمبے سے ٹکرا دی اور ڈرائیونگ سیٹ پر بھکاری کو بٹھانے کے بعد گاڑی کو آگ لگا دی۔‘

پولیس تفتیش میں سامنے آنے والی معلومات کے مطابق گاڑی کے نمبر کی بنیاد پر وجے پال سنگھ سے رابطہ کرنے کے بعد انھوں نے دعویٰ کیا کہ لاش ان کے بیٹے انیل سنگھ کی ہے اور انھوں نے اس کی آخری رسومات ادا کیں۔

پولیس کی معلومات کے مطابق دوسری طرف انیل سنگھ اترپردیش سے فرار ہو کر احمد آباد چلا گیا۔

وجے پال سنگھ نے انشورنس کمپنی سے بیمہ کی رقم کا مطالبہ کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ان کے بیٹے انیل سنگھ کی موت احمد آباد جاتے ہوئے کار حادثے میں ہوئی۔

پولیس کے مطابق انیل سنگھ کے والد نے انشورنس کمپنی سے 80 لاکھ کی انشورنس اور کار انشورنس کی رقم کا دعویٰ کیا کہ ان کے بیٹے کی موت ہو گئی ہے اور انھوں نے اس رقم کے پانچ حصے کیے۔

ملزم پولیس کی گرفت میں کیسے آیا؟

پولیس کا کہنا ہے کہ ’پولیس کو ابتدائی تفتیش میں پتا چلا ہے کہ اس نے اس منصوبے پر عمل کرتے ہوئے اپنے والدین یا خاندان کے دیگر افراد کو کبھی فون تک نہیں کیا۔ 17 سال میں وہ کبھی اپنے آبائی شہر بھی نہیں گیا۔‘

ڈی سی پی چیتنیا منڈلک کا کہنا ہے ’سال 2008 میں انیل نے جعلی پین کارڈ اور آدھار کارڈ بنائے اور لائسنس بھی بنوایا۔ اس ثبوت کی بنیاد پر بینک سے گاڑی اور ہوم لون بھی لیے گئے۔ اس نے شادی کی اور یہیں سکونت اختیار کر لی۔‘

ڈی سی پی منڈلک اس طرح کی منصوبہ بندی کے باوجود ملزم کی غلطی بتاتے ہیں کہ ’ملزم سورت میں تہوار کے دوران اپنے رشتہ دار کو ملنے گیا تھا جہاں بھٹانگر کے ایک شخص نے اسے دیکھا اور پولیس کو اس طرح اطلاع ملی۔‘

یہ اطلاع ملنے کے بعد پولیس کی جانب سے کی جانے والی کارروائی کے بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم نے اس معلومات کی جانچ کروائی اور پتا چلا کہ ملزم نکول کے علاقے میں رہتا ہے۔ بعد ازاں اسے ٹریس کر کے گرفتار کر لیا گیا۔‘

پولیس کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق ملزم کی جھوٹی شناخت بنانے والے ایجنٹ کو بھی جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔

نکول کے سماجی کارکن سنجے بھدوریا نے احمد آباد میں انیل سنگھ کے ٹھکانے کے بارے میں بی بی سی گجراتی کو بتایا کہ ’اس علاقے کے لوگ انھیں راجکمار چودھری ڈرائیور کے نام سے جانتے ہیں، کوئی بھی انھیں انیل سنگھ کے نام سے نہیں جانتا۔ وہ یہاں برسوں سے ہیں۔‘

’نکول میں برسوں سے رہنے کے بعد وہ اسی علاقے میں رکشہ چلاتا تھا۔‘

ملزم انیل کی ذاتی زندگی کے بارے میں معلومات دیتے ہوئے بھدوریا نے کہا ’اسے ریشما نامی لڑکی سے پیار ہو گیا اور اُس نے شادی کر لی۔ اس کی دو بیٹیاں ہیں۔ جب اس کی شادی ہوئی تو کچھ پریشانیاں تھیں لیکن کوئی اور مسئلہ نہیں تھا، یہاں اس نے باپاشری پارک میں دو بیڈ روم کا فلیٹ لیا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US