امریکی اشرافیہ اور خاندانی رئیسوں کا لباس بن جانے والا ’مدراس چیک‘ ایک سٹائل کیسے بنا

مدارس کے چیک پرنٹ کو 1950 کی دہائی میں امریکہ کی امیر اشرافیہ نے اپنایا تھا ، اور تب سے یہ خاندانی رئیسوں کے ملبوسات کا اہم حصہ رہا ہے۔ لیکن اس تانے بانے کی شروعات جنوبی ہند کے ماہی گیروں کے ایک گاؤں سے ہوتی ہے۔
علامتی تصویر
Getty Images

دنیا بھر میں مقبول ایک ہلکے پھلکے، چیک پرنٹ کے سوتی کپڑے اور جنوبی انڈیا کے ساحل پر واقع ایک شہر کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ صدیوں سے مدرسہ پٹنم (جسے بعد میں مدراس کہا جاتا تھا، اور اب چنئی نامی ایک بڑا شہر کہا جاتا ہے) کے مقامی ماہی گیر اور کسان ہاتھ سے بنے ہوئے ململ کے کپڑے پہنتے تھے، جیسا کہ لُنگی (جیسے سرونگ) جو جنوبی انڈیا کے گرم اور مرطوب موسم کے لیے موزوں تھا۔

ہاتھ سے بنے ہوئے کپڑے کے دونوں اطراف ایک ہی پیٹرن تھا، عام طور پر سبزیوں کے رنگوں کا استعمال کرتے ہوئے بنیادی رنگ بنائے جاتے تھے، جو دھونے پر بہہ جاتے تھے، اور رنگ آہستہ آہستہ ایک دوسرے میں مل جاتے تھے۔ اسے رومال میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

یہ ایک ماحول دوست اور پائیدار کپڑا تھا جو نرم تھا، اور اس کی ایک منفرد، قدرے ابھری ہوئی ساخت تھی۔ ہاتھ سے بُنائی کے طویل عمل نے کپڑے کو اس کی دیہی کشش دی۔

اوریجنل مدراس ٹریڈنگ کمپنی کے مالک پراسن شاہ کہتے ہیں’مدراس چیک کی حقیقی تعریف خالص سوتی دھاگے سے رنگا ہوا سادہ سا کپڑا ہے جس میں کم از کم دو رنگوں کا بے قاعدہ پیٹرن ہو اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مدراس میں خالص انڈین کپاس کے ساتھ بُنا جاتا ہے۔ اصلی اور آج تک بہترین کپڑا مدراس میں ہاتھ سے بنا ہوا ہوتا ہے۔‘

یہ ان کی خاندانی کمپنی ہے۔ شاہ کے دادا نے 1973 میں کمپنی قائم کی، جب وہ مدراس سے مدراس چیکس سے بھرا صندوق لے کر نیو یارک شہر پہنچے۔

چنئی سے تعلق رکھنے والی ٹیکسٹائل بحالی کی ماہر سبیتا رادھا کرشنا نے بی بی سی کلچر کو بتایا کہ انڈیاکی نوآبادیات کا آغاز اور اختتام ٹیکسٹائل سے ہوا۔ ’ایسٹ انڈیا کمپنی نے مدراس کا انتخاب اس کے ہاتھ سے بُنے کپڑوں کی وجہ سے کیا۔ 1612 میں جب ڈچ مدرسہ پٹنم پہنچے تو انھوں نے کیلیکو کپڑے (لٹھے) کی تجارت شروع کی اور اس کی بڑے پیمانے پر پیداوار ہوئی۔‘

سترہویں صدی کے وسط میں مدراس برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک اہم تجارتی مرکز بن گیا۔

فرم کے فرانسس ڈے نے ہاتھ سے بُنے اور سبزیوں کے رنگوں سے رنگے ہوئے کپڑے کی صلاحیت بھانپتے ہوئے اس ہلکے پھلکے کپڑے کی برآمدی پیداوار کے لیے چھوٹ اورمعاوضے دیے۔

انھوں نے انڈین جولاہوں (کپڑا بننے والوں) کو ڈیوٹی سے30 سال کی چھوٹ فراہم کی، لہٰذا تقریباً 400 جولاہے مدراس میں آباد ہو گئے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مدراس کے مقامی لوگوں نے 1800 کی دہائی میں شہر میں امن فوج کے طور پر تعینات سکاٹش رجمنٹوں کے ٹارٹن کی بنائی سے ترغیب حاصل کی اور اسے مقامی جمالیات میں اپنایا۔ سکاٹ لینڈ کے قبیلوں نے اپنی شناخت کی نمائندگی کرنے کے لیے طویل عرصے سے ٹارٹن کی بُنائی پہنی تھی، جس میں ہر قبیلے کا اپنا منفرد نمونہ تھا۔ لیکن درحقیقت پیٹرن والا کپڑا انگریزوں کی آمد سے سینکڑوں سال پہلے سے موجود تھا۔

شاہ کہتے ہیں، ’18 ویں صدی میں مدراس میں ایک بندرگاہ کی تعمیر سے پہلے جنوبی ہندوستان میں سوتی ٹیکسٹائل کی بنائی صدیوں سے مشہور تھی، لیکن یہ بندرگاہ اور برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی تھی جس کی وجہ سے مدراس سے ٹیکسٹائل کی تجارت جدید دنیا میں کی جاتی تھی۔‘

چنئی سے تعلق رکھنے والے ٹیکسٹائل ریسرچر سریماتھی موہن کا کہنا ہے کہ کورومنڈل کا ساحل ہمیشہ اپنے کپڑوں کے لیے مشہور رہا ہے، خاص طور پر ہاتھ سے بنے ہوئے چیک کپڑوں کے لیے۔

’تمل ثقافت میں، گرڈ ہمیشہ سے ایک طاقتور علامت رہا ہے (مثال کے طور پر) کولم (فرش پر کھینچے گئے ڈیزائن)۔ یہاں تک کہ ہمارے مندروں میں دیوتاؤں کو بھی چیک والے کپڑوں میں ملبوس کیا گیا ہے۔ کئی برادریوں میں شادی کی ساڑھیوں میں چیک بنائے گئے اور وہ عام طور پر صرف سرخ، نیلے، سفید اور پیلے رنگوں میں ہاتھ سے بنائی جاتی تھیں۔‘

موہن کہتے ہیں ’ململ کے کپڑے پر ہینڈ لوم (ہاتھ سے کپڑا بننے کا آلہ) سے بنے ان سادہ چیکس کو مختلف ناموں سے جانا جاتا تھا، مدراس چیک، اصلی مدراس رومال، جارج کلاتھ، گنی کپڑا یا بلیڈنگ مدراس۔ ان دنوں سادہ گڑھے کے اندر لومز میں، صرف یہی متبادل رنگ تھے، جو تانے اور ویٹ میں استعمال ہوتے تھے،‘’تیل اور سبزیوں کے رنگوں‘ کی وجہ سے اس کی بو بھی منفرد تھی۔‘

چیک کا ایک ماضی

آرٹ مؤرخ جسلین دھامیجا نے اپنی کتاب ایشین ایمبرائڈری میں ’مدراس‘ کے نام سے چیک پرنٹ والے کپڑے کی پہلی برآمد کا ذکر 1660 میں کیا ہے، جب برطانوی تاجروں نے 8 میٹر لمبے کپڑے کی بیلوں کو بیان کرنے کے لیے ریئل مدراس ہینکرچیف، یا آر ایم ایچ کی اصطلاح استعمال کی تھی جسے ٹیکس سے بچنے کے لیے تین مربع ٹکڑوں میں کاٹا جاسکتا تھا۔

آر ایم ایچ کے کپڑے کی تجارت 16 ویں صدی سے مغربی افریقہ کے ساتھ کی جاتی ہے۔ پرتگالی غلاموں کے تاجروں نے غلاموں کو امریکہ بھیجنے کے بدلے لندن میں کپڑا خرید لیا۔ اسے نائجیریا جیسی افریقی کالونیوں میں بھی لے جایا گیا، جہاں آر ایم ایچ کے کو ’انجیری‘ کے نام سے جانا جانے لگا جس کا مطلب ہے ’حقیقی ہندوستان‘۔

وہاں کی کلاباری برادری کے لیے، یہ نوزائیدہ بچوں کے لیے رسمی تحفہ بن گیا، اور مرنے والوں کو سجانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ گھانا اور آئیوری کوسٹ جیسے ممالک میں 18 ویں اور 19 ویں صدی میں دلہنیں اس سے بنے ہوئے کپڑے پہنتی تھیں۔

مدراس صدیوں سے کیریبین میں بھی مقبول رہا ہے، اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ 19 ویں صدی کے پہلے نصف حصے میں مدراس سے معاہدہ کے تحت لے جائے گئے نوکروں کے ذریعے وہاں تک پہنچا۔ کپڑے کو جلد ہی بہت سے کیریبین جزائر نے اپنا لیا اور آج بھی اس خطے میں مقبول ہے۔

رادھا کرشن کہتے ہیں ’چیک کا میٹیریئل عام طور پر صرف سرخ، سبز اور نیلے رنگوں میں ہوتا تھا‘۔

’اور یہ آندھرا پردیش کے تیلیا رومال سے بھی جڑا ہے (جس کے دھاگے کو تیل سے نرم کیا جاتا ہے )، اِکت ٹیکسٹائل (دھاگے کو رنگنے کے بعد بُنا گیا کپڑا) جو حجاج کرام اور بہت سے عرب تاجروں نے سکارف کے طور پر استعمال کیا ان کے ذریعے یہ چیک مکہ تک پہنچا۔چونکہ انھیں نیل اور ہلدی جیسے قدرتی رنگوں سے رنگا گیا تھا ، لہذا رنگ مستحکم نہیں تھے ، اور ہر بار جب انھیں دھویا جاتا تھا تو رنگ مختلف نظر آتے تھے ، جس نے اسے بلیڈنگ مدراس کا نام دیا۔‘

کپڑا آخر کار امریکہ تک پہنچ گیا۔ ایلیہو ییل، جو اس وقت مدراس کے گورنر تھے، اور جن کے نام پر ییل یونیورسٹی کا نام رکھا گیا تھا، انھوں نے کالج کو رقم، کتابیں اور خوبصورت مدراس چیک ک تھان عطیہ کیں۔

1897 میں میل آرڈر کیٹلاگ کمپنی سیئرز نے اپنے خریداروں کے لیے مدراس شرٹس والی ایک کیٹلاگ شائع کی۔ اس سے یہ کپڑا امریکہ میں بٹن ڈاؤن شرٹس، پتلون اور سپورٹس کوٹ کی شکل میں مقبول ہو گیا۔

بہت سے امریکیوں نے چھٹیوں پر مدراس پہن رکھا تھا اور جلد ہی یہ امریکہ میں ایک فیشن ایبل سٹیٹس سمبل بن گیا۔

آہستہ آہستہ، یہ آئیوی لیگ کے طلبہ کے لیے الماری کا اہم حصہ بن گیا اور 1950 کی دہائی تک یہ امریکہ میں خوشحالی اور تفریح کا مترادف بن گیا تھا اور اسے معزر افراد کی پہچان بن گیا۔

امریکی ڈرامے ’میڈ مین‘ میں ایڈورٹائزنگ ایگزیکٹوز کو مدراس چیک سپورٹس جیکٹس اور شرٹس پہنے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

سنہ 1958 میں ایک معروف ٹیکسٹائل برآمد کنندہ ولیم جیکبسن نے لیلا لیس کے کیپٹن سی پی کرشنن سے یہ کپڑا خریدا اور اسے بروکس بردرز کو فروخت کر دیا، جنھوں نے مردوں اور عورتوں کے لیے مدراس چیک لائن شروع کی، لیکن یہ بتانا بھول گئے کہ کپڑے کو دھونے پر اس کا رنگ اترتا ہے اور اسے ٹھنڈے پانی میں نرمی سے دھونا پڑتا تھا۔

بعد میں ہوشیار سے ایک پی آر میں کپڑے کو جلد ہی معجزاتی کپڑے کے طور پر دوبارہ پیش کیا گیا، جس میں ضمانت دی گئی کہ یہ کپڑا دھونے پر رنگ بدلے گا۔

رجحانات میں تبدیلی آئی تو 1980 کی دہائی میں ہاتھ سے بُنائی کی جگہ پاور لومز نے لے لی اور پکے رنگوں کی ٹیکنالوجی نے بلیڈنگ مدراس کپڑے کے آہستہ آہستہ غائب ہونے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن بڑے پیمانے پر پیداوار کے نتیجے میں ہر جگہ چیک کپڑے کے ورژن نمودار ہوئے، جزوی طور پر کیونکہ مدراس چیک میں اصل یا جغرافیائی اشارے کی کمی تھی جس کی وجہ سے اس خطے سے باہر تیار ہونے والے کپڑے کو مدراس چیک کہنا غیر قانونی ہوجاتا۔ مشین سے بنائے گئے بہت سے نقلی سکارف پوری دنیا میں فروخت کیے گئے۔

آئندہ برسوں میں عالمی فیشن برانڈز اور ڈیزائنرز جن میں رالف لارین، پراڈا اور گوچی شامل ہیں انھوں نے اپنے مجموعوں میں مدراس چیک کا استعمال کیا ہے۔

دریں اثنا، انڈیا میں مدراس ایک نئی فیشن ایبل حیثیت سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ پیرو کی ڈیزائنر اینیتھ اروڑہ، جو انڈین کاریگروں اور مغربی ڈیزائنوں کا استعمال کرتے ہوئے پائیدار کپڑے تیار کرتی ہیں، انھوں نے اپنے کام میں مدراس کو شامل کیا ہے۔

ڈیزائنر چنار فاروقی اپنے لیبل کے ساتھ انڈیا بھر سے ہاتھ سے بنے ہوئے ٹیکسٹائل اور روایتی دستکاریوں کا استعمال کرتی ہیں، اور اپنی تخلیقات میں مدراس چیک کو بڑے پیمانے پر استعمال کرتی ہیں۔ اور اورجنل مدراس ٹریڈنگ کمپنی کی مصنوعات دنیا بھر میں موجود ہیں۔

میڈرڈ سے تعلق رکھنے والی فیشن ڈیزائنر اور ٹیکسٹائل کی بحالی کی ماہر کویتا پرمار اپنے ’آئی او یو پروجیکٹ‘ کے ذریعے ایسے کپڑے بناتی ہیں جنھیں بنانے والے جولاہوں کو بغیر کسی ثالث کے تلاش کیا جا سکتا ہے۔ وہ سپین میں اپنے ماسٹر درزیوں سے سادہ چیک شدہ لنگیوں کو خوبصورت جیکٹس، شرٹس، سکرٹس اور ملبوسات میں تبدیل کرواتی ہیں۔

ہر پروڈکٹ میں ایک کیو آر کوڈ ہوتا ہے جو سکین کرنے پرآئٹم بنانے والے کاریگروں کی تفصیلات دکھاتا ہے۔

کویتا پرمار کہتی ہیں ’مدراس چیک ایک ایسا کپڑا ہے جس کے ساتھ میں پلی بڑھی ہوں، کیوں کہ میرے والد کام سے گھر آتے تھے اور اپنی پسندیدہ لنگی پہن لیتے تھے۔ ‘

’مجھے اس خوبصورت، سادہ، مشہور کپڑے کے بارے میں جو چیز پسند ہے وہ یہ ہے کہ یہ خوبصورتی سے پرانا ہوتا ہے۔ ایک بنیادی سوتی دھاگے سے تیار کردہ یہ معمولی سا کپڑا دنیا بھر کا سفر کر چکا ہے اور بہت سی ثقافتوں افریقہ، امریکہ اور جاپان نے اسے اپنایا ہے اور اب بھی یہ ماڈرن اورمتعلقہ ہے۔ میں مدراس کے بارے میں پاگل ہوں۔ ہم اپنے ورثے کے ذمہ دار ہیں کہ ہم دنیا کو یاد دلائیں کہ مستند مدراس کہاں سے آیا ہے اور اپنے باصلاحیت ہینڈ لوم جولاہوں کوتخلیقی شناخت واپس دیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ، اپنی اصل جگہ پر، آج کا یہ فیشن ایبل مواد اب بھی زیادہ تر یا تو مزدوروںپہنتے ہیں یا پھر یہ گھر میں آرام دہ لباس کے طور پر پہنا جاتا ہے۔

رادھا کرشن کہتے ہیں’مدراس چیک نے بہت سی چیزوں کو متاثر کیا ہے۔ 'کانچی پورم کی ریشم کی ساڑھیوں میں دھنک رنگ چیک کپڑے اور اس کے بارڈر ہر طرح کے ڈیزائن میں آتے ہیں۔ روایتی طور پر انڈینمرد ہمیشہ چیک شرٹ تلاش کرتے ہیں، اور حالیہ دنوں میں یہ ہاتھ سہ بنے کپڑے کے بجائے مِل کے کپڑے پر منتقل ہو گیا ہے۔ انڈیا میں بہت سے لوگوں کے لیے یہ ایک عام سی بات ہے۔ ایک ایسی چیز جو ہمیشہ سے ہے۔ ‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US