سبرت رائے کے عروج و زوال کی کہانی کسی فلمی کہانی کی طرح ہے کہ انڈیا کی مبینہ پسماندہ ترین ریاست بہار کی ایک چھوٹی سے جگہ سے انھوں کتنی اونچی چھلانگ لگائی اور ایک زمانے تک انڈیا کی کاروباری دنیا پر حکمرانی کی۔
سبرت رائےانڈیا کے ایک بڑے کاروباری گروپ سہارا انڈیا کے سربراہ سبرت رائے نے 14 نومبر کی رات ساڑھے دس بجے ممبئی کے ایک نجی ہسپتال میں اپنی آخری سانسیں لیں۔
ان کے عروج و زوال کی کہانی کسی فلمی کہانی کی طرح ہے کہ انڈیا کی مبینہ پسماندہ ترین ریاست بہار کی ایک چھوٹی سے جگہ سے انھوں کتنی اونچی چھلانگ لگائی اور ایک زمانے تک انڈیا کی کاروباری دنیا پر حکمرانی کی۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے سکوٹر سے سفر شروع کیا اور ایئرلائنز کے مالک بنے۔ ان کے دوستوں میں سیاسی رہنماؤں، فلمی اداکاروں، کھلاڑیوں سے لے کر ہر طبقے کے لوگ شامل تھے۔ لیکن جس تیزی سے انھوں ترقیوں کی بلندیوں پر قدم رکھا اسی تیزی کے ساتھ وہ نیچے کی جانب پھسلے۔
سہارا گروپ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس جیسی بیماریوں کا شکار تھے اور ان کی موت حرکت قلب بند ہونے سے ہوئی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ 12 نومبر کو خرابی صحت کی وجہ سے انھیں ممبئی کے کوکیلا بین دھیرو بھائی امبانی ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔
بدھ کو ان کا جسد خاکی سہارا شہر لکھنؤ لایا جائے گا جہاں ان کی آخری رسومات ادا کی جائے گی۔

ترقی کا ناقابل یقین سفر
سبرت رائے 10 جون سنہ 1948 کو شمال مشرقی ریاست بہار کے ضلع اڑیسہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم پڑوسی ریاست مغربی بنگال کے شہر کولکتہ کے ہولی چائلڈ سکول میں ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے مکینیکل انجینئرنگ کی تعلیم گورکھپور، اتر پردیش سے حاصل کی۔
گروپ کی ویب سائٹ کے مطابق ان کے گروپ کے نو کروڑ سرمایہ کار اور صارفین ہیں۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ ان کے کل اثاثے دو لاکھ 59 کروڑ روپے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس پانچ ہزار کیمپس اور 30 ہزار 970 ایکڑ اراضی ہے۔
سبرت رائے نے اپنے ساتھ لاکھوں غریب اور دیہی انڈینز کو جوڑا جن کے پاس بینکنگ کی سہولت نہیں تھی اور ان کی مدد سے انھوں نے سہارا گروپ قائم کیا، لیکن جب مارکیٹ ریگولیٹر سیبی نے ان کے خلاف اقدام کیے تو ترقی پر دہائیوں سے گامزن ان کی کاروباری سلطنت لرزنے لگی۔
دراصل، یہ معاملہ سہارا گروپ کی کمپنیوں سے متعلق تھا جنھوں نے ریئل سٹیٹ بزنس میں سرمایہ کاری کے نام پر تین کروڑ سے زیادہ سرمایہ کاروں سے تقریباً 24 ہزار کروڑ روپے حاصل کیے تھے۔
سہارا گروپ کی دولت
ایک وقت تھا جب سبرت رائے کے پاس میڈیا ہاؤس سمیت ایئر لائن، فارمولا ون ٹیم، آئی پی ایل کرکٹ ٹیم، لندن اور نیویارک میں پرتعیش ہوٹل تھے۔ انھوں نے اپنی ایئر لائن، ایئر سہارا کو جیٹ ایئرویز کے ہاتھوں فروخت کر دیا اور پھر جیٹ ایئرویز بعد میں خود ہی بند ہو گئی۔
ایک زمانے میں یہ کہا جاتا تھا کہ سہارا گروپ کے ملازمین کی تعداد انڈین ریلویز کے بعد سب سے زیادہ تھی۔ ان لوگوں کی تعداد تقریباً 12 لاکھ بتائی گئی تھی۔
سبرت رائے کے امیتابھ بچن سمیت فلمی ستاروں سے لے کر تمام سیاسی جماعتوں میں دوست تھے۔ لیکن انھیں اترپردیش کی سماج وادی پارٹی کے سابق صدر اور اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو کے قریب سمجھا جاتا تھا۔
دسمبر سنہ 1993 میں جب ملائم سنگھ دوبارہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ بنے تو سبرت رائے کے ساتھ ان کے تعلقات گہرے ہوتے چلے گئے۔ امر سنگھ جو ملائم سنگھ کے قریبی دوست بھی تھے انھوں نے ان دونوں کو ساتھ لانے میں اہم کردار ادا کیا۔
سبرت رائے پر روششنائی پھینکی گئی اور انھیں جیل بھی جانا پڑاسہارا گروپ کا زوال
سبرت رائے کو چار مارچ سنہ 2014 میں 10 ہزار کروڑ روپے کی بقایا رقم ادا نہ کرنے کی پاداش میں جیل جانا پڑا۔ عدالت نے اس وقت کہا تھا کہ جب تک وہ 5000 کروڑ روپے نقد اور 5000 کروڑ روپے کی بینک گارنٹی نہیں دیتے انھیں رہا نہیں کیا جائے گا۔
سنہ 2013 میں سہارا گروپ نے سیبی کے دفتر کو 127 ٹرک بھیجے تھے جن میں تین کروڑ سے زیادہ درخواست فارم اور دو کروڑ ریڈمپشن واؤچر تھے۔
انھیں دو سال سے زیادہ عرصے تک جیل میں رہنا پڑا اور سنہ 2016 میں پیرول پر ہی وہ باہر آ سکے۔ لیکن پھر انڈیا کی سپریم کورٹ نے انھیں پراپرٹی کیس میں دوبارہ جیل بھیج دیا تھا۔
سیبی نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ اگر سبرت رائے نومبر 2020 میں 62,600 کروڑ روپے ادا نہیں کرتے تو ان کی پیرول کو منسوخ کر دیا جانا چاہیے۔
سہارا گروپ انڈیا کے مارکیٹ ریگولیٹر سیبی کے ساتھ طویل عرصے تک قانونی لڑائی لڑتے رہے۔ سیبی نے سہارا گروپ کو سرمایہ کاروں کے پیسے واپس کرنے کا حکم دیا اور 2010 میں سہارا گروپ کی دو کمپنیوں اور رائے پر عوام سے پیسہ اکٹھا کرنے پر پابندی لگا دی۔
انڈین کرکٹ ٹیم کی سپانسر
سہارا گروپ انڈین کرکٹ ٹیم کی سپانسر بھی رہی۔ سہارا گروپ 2001 سے 2013 تک ٹیم انڈیا کی سپانسر رہی۔ سہارا کی ٹیم پونے واریئرز نے سنہ 2011 میں آئی پی ایل میں حصہ لیا تھا۔
سہارا گروپ کی مالی حالت خراب ہونے کے بعد یہ معاہدہ 2013 میں ختم کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
بھارت: سبرت رائے کی حراست میں توسیع
سہارا گروپ کا آئی پی ایل سے علیحدگی کا اعلان
بیٹوں کی پرتعیش شادی

سبرت رائے بالی وڈ کے سپر سٹار امیتابھ بچن کو اپنا دوست کہتے تھے اور وہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے ساتھ کندھے ملاتے نظر آتے تھے۔
سنہ 2004 میں سبرت رائے کے دو بیٹوں کی شادی ہوئی جس کی تقریبات تقریباً پندرہ دن تک منعقد ہوتی رہی تھی۔
اس شادی کو رواں صدی کی سب سے زیادہ زیر بحث انڈین شادی قرار دیا گیا اور یہ شادی میڈیا میں چھائی رہی تھی۔
شادی کی تقریب میں تقریباً دس ہزار افراد نے شرکت کی تھی جن میں کاروباری شخصیات، بالی وڈ کے ستارے، کرکٹ کھلاڑی اور فیشن کی دنیا سے مشاہیر نے شرکت کی تھی۔ ان مہمانوں کو خصوصی طیاروں کے ذریعے لکھنؤ لے جایا گیا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی بھی نئے شادی شدہ جوڑوں کو آشیرباد دینے پہنچے تھے۔
اس شادی کے بعد انڈیا کے امیر ترین گھرانوں میں اس قسم کی پرتعیش شادی کا رواج شروع ہو گیا۔
امیتابھ بچن اور سبرت رائےان کی موت پر خراج عقیدت
اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ کے ذریعے انھیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
انھوں نے لکھا کہ ’سہارا شری سبرت رائے جی کی موت اتر پردیش اور ملک کے لیے ایک جذباتی نقصان ہے کیونکہ ایک بہت ہی کامیاب بزنس مین ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بڑے دل والے بہت حساس انسان بھی تھے جنھوں نے بے شمار لوگوں کی مدد کی اور ان کا سہارا بنے۔ انھیں دلی خراج تحسین!‘
سابق انڈین کرکٹر یووراج سنگھ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ سبرت رائے کے موت کی خبر سن کر دکھ ہوا۔
انھوں نے لکھا کہ وہ ایک ایسے شخص تھے جنھوں نے مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے کبھی ہمت نہیں ہاری۔
یوراج نے لکھا کہ ’جب مجھے کینسر ہوا، تو وہ ان چند لوگوں میں سے ایک تھے جو میرے ساتھ کھڑے تھے۔ وہ ہمیشہ میرے اور میرے خاندان کے بہت قریب تھے۔ وہ ایک ایسا شخص تھے جن سے ہم نے بہت کچھ سیکھا۔‘