احسان داوڑ نے بتایا کہ وہ نہ تو کسی سیاسی جماعت کے رکن رہے ہیں اور جس وقت خڑ قمر کا واقعہ پیش آیا اس وقت وہ پشاور میں تھے اور پی ڈی ایم اے کے ساتھ کام کر رہے تھے۔
’یہ لمحہ میرے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ مجھے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ میرا نام کسی ایف آئی آر میں موجود ہے۔ پھر اچانک معلوم ہوا کہ انسداد دہشت گردی کے محکمے کی جانب سے جاری کردہ انتہائی مطلوب شدت پسندوں کی فہرست میں میری تصویر شائع کر دی گئی ہے اور سر کی قیمت دس لاکھ روپے مقرر کر دی گئی۔‘
یہ کہنا ہے کہ پشاور میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے سرکاری ادارے ’پی ڈی ایم اے‘ کے ترجمان احسان داوڑ کا جو ماضی میں صحافت کے پیشے سے منسلک رہ چکے ہیں۔
احسان اس ساری صورتحال پر پریشان نظر آتے ہیں۔
سابق سینیئر صحافی کا نام منگل کے روز پاکستان کے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنا شروع ہوا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خیبرپختونخوا کے انسداد دہشت گردی کے ادارے ’سی ٹی ڈی‘ نے گذشتہ روز انتہائی مطلوب شدت پسندوں کی ایک فہرست جاری کی جس میں ’احسان اللہ‘ نامی شخص کا نام موجود ہے جس کے ساتھ تصویر اور دیگر تفصیلات احسان داوڑ کی ہیں۔
سی ٹی ڈی کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ احسان انتہائی مطلوب شدت پسند ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب ہیں۔ عوام سے یہ بھی کہا گیا کہ ان کی گرفتاری میں مدد دینے پر انھیں دس لاکھ کا انعام دیا جائے گا۔
یہ سب اس حقیقت کے باوجود ہو رہا تھا کہ احسان ایک سرکاری ادارے میں ترجمان کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے احسان نے کہا کہ ’اس فہرست میں احسان اللہ کے نام کے ساتھ اپنی تصویر اور تفصیلات کی موجودگی دیکھ کر مجھے ابتدا میں سخت صدمہ ہوا۔ مجھے دوستوں نے فون کر کے بتایا کہ سی ٹی ڈی کی جاری کردہ نئی فہرست میں آپ کا نام اور تصویر موجود ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ان کا سرکاری کاغذات میں مکمل نام احسان الرحمان درج ہے مگر صحافتی حلقوں میں وہ اپنا نام احسان داوڑ لکھتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی کی فہرست میں نام احسان اللہ ہے اور ساتھ میری تصویر موجود ہے۔
احسان اللہ کا نام لسٹ میں کیسے شامل ہوا؟
خیبر پحتونخوا میں انسداد دہشت گردی کے محکمے کی جانب سے منگل کے روز 152 انتہائی مطلوب شدت پسندوں کی فہرست جاری کی گئی، جس میں ان شدت پسندوں کی گرفتاری کے لیے پولیس کو اطلاع دینے والوں کو انعام دینے کا اعلان کیا گیا ہے اور ان کے سر کی قیمت مقرر کی گئی ہے۔
اس فہرست میں چند معروف شدت پسند شامل ہیں جن میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان اور تنظیم کے عہدیدار مکرم عرف عمر خراسانی کے نام نمایاں ہیں۔ مجموعی طور پر تمام ڈیڑھ سو سے زیادہ شدت پسندوں کے سر کی قیمت 23 کروڑ روپے مقرر کی گئی ہے۔
انسداد دہشت گردی کے محکمے کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ احسان اللہ سینیئر صحافی کے نام کے اندراج پر معلومات حاصل کی گئی ہیں جس سے معلوم ہوا ہے کہ احسان اللہ کا نام سی ٹی ڈی بنوں تھانے میں درج ایک ایف آئی آر میں شامل ہے۔
سی ٹی ڈی کے مطابق ان کے حوالے سے ایف آئی آر 2019 میں درج کی گئی تھی جب شمالی وزیرستان کے علاقے خڑ قمر کے مقام پر آرمی چوکی کے قریب فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا۔
خڑ قمر تحصیل دتہ خیل میں یہ واقعہ 26 مئی 2019 کو پیش آیا تھا جس میں کم سے کم 15 افراد ہلاک اور 27 زخمی ہو گئے تھے۔
بنیادی طور پر خڑ قمر میں مقامی لوگ احتجاج کر رہے تھے اور اس احتجاج میں اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر بھی شامل تھے۔ اس واقعے کے بعد ان دونوں رہنماؤں کو گرفتار بھی کیا گیا تھا اور انھیں چار ماہ تک ہری پور جیل میں رکھا گیا تھا اور بعد میں ان کی ضمانت پر رہائی ہوئی تھی۔
سی ٹی ڈی کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ احسان اللہ چونکہ عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے تو انھیں مفرور قرار دے دیا گیا تھا اور پھر ڈی پی اور شمالی وزیرستان کی جانب سے جون 2021 میں احسان اللہ کے سر کی قیمت دس لاکھ روپے مقرر کرنے کا کہا گیا تھا۔
اس پر محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا نے مارچ 2022 میں اس کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا تھا۔ انسداد دہشت گردی کے محکمے نے ان دنوں ایسے اشتہاری ملزمان کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے جن کے سر کی قیمت مقرر کی گئی ہے۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ اس فہرست میں احسان اللہ کا نام اور تصویر کیسے آئی اس بارے میں انکوائری کی جا رہی ہے۔
سی ٹی ڈی کے ایک اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ فہرست محکمہ داخلہ کی جانب سے انھیں موصول ہوئی ہے اور یہ کہ ان تمام افراد کا ریکارڈ اور اس کی منظوری متعلقہ علاقے کے پولیس حکام کرتے ہیں۔
شمالی وزیرستان کے ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ چونکہ احسان اللہ کا نام ایک ایف آئی آر میں درج ہے اور وہ مفرور تھے اس لیے ان لیے ان کا نام اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
خڑ قمر واقعے کے بعد سابق ممبران اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ سمیت درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا (فائل فوٹو)شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی سے تعلق رکھنے والی سینیئر صحافی احسان داوڑ مختلف اخبارات، چینلز اور ریڈیو کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔
انھوں نے صحافت میں ماسٹرز کیا ہے اور وہ سنہ 1995 سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں۔ احسان ماضی میں ریڈیو پاکستان کے قبائلی علاقوں کے ایک ریڈیو پراجیکٹ کا حصہ رہے ہیں۔
احسان داوڑ نے بتایا کہ وہ 2018 میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارہ پی ڈی ایم اے سے منسلک ہیں۔
سی ٹی ڈی کی جانب سے وضاحت کے بعد احسان داوڑ نے بتایا کہ وہ نہ تو کسی سیاسی جماعت کے رکن رہے ہیں اور جس وقت خڑ قمر کا واقعہ پیش آیا اس وقت وہ پشاور میں تھے اور پی ڈی ایم اے کے ساتھ کام کر رہے تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’اتنا بڑا ادارہ کیسے اتنا غلط کام کر سکتا ہے کہ جہاں نام کسی اور کا ہے اور باقی ڈیٹا میرا ڈال دیا گیا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’جب سے یہ فہرست سامنے آئی ہے میرے اہلخانہ اور دوست سخت پریشان ہیں۔‘
سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری اس فہرست کے بعد سوشل میڈیا پر بھی سخت رد عمل آیا ہے۔ ایکس پر سینیئر صحافی احسان اللہ ٹیپو نے اس لسٹ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’یہ کیا مذاق ہے؟‘
انھوں نے ایکس پر ہی اپنے ایک اور پیغام میں لکھا ’کہ اس فہرست میں ٹی ٹی پی کے ایک رہنما کے نام کے سامنے تصویر کسی اور شخص کی لگائی گئی ہے۔‘