راجستھان کے شاہی خاندان جو کانگریس کے بجائے بی جے پی کے زیادہ قریب ہیں

جب راجستھان کی رگوں میں جمہوریت کا راگ بجنے لگا تو راجے رجواڑے اپنی بھنویں تانے رہے۔ جاگیرداروں نے حکومتی کام کاج مشکل بنا دیا۔ یہ حالات نہ پنڈت جواہر لال نہرو کے دور میں سمجھے گئے اور نہ ہی لال بہادر شاستری کے دور میں۔

انڈیا کی آزادی کے بعد جب جمہوریت کے کھیت لہلہانے لگے تو راجستھان کی سنہری مٹی پر آسمان کی جانب فخر سے سر اٹھائے کھڑی صدیوں پرانی بادشاہت کے چہرے نہ صرف پیلے پڑ گئے بلکہ ان کے وجود کی بنیادیں بھی ہلنے لگیں۔

لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور ریاست میں ابھرتی ہوئی سیاست کے رتھ میں استعمال ہونے والے گھوڑوں کو مہارت سے قابو کرنے کی پوری کوشش کی۔

راجستھان ریاست کی تشکیل کے بعد پہلے وزیر اعلیٰ کے نام کا فیصلہ ملک کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے سٹی پیلس میں جے پور مہاراجہ کی سفارش کے بعد کیا۔ اور یہ نام ہیرالال شاستری تھا۔

ریاست میں تین سال بعد اسمبلی کے انتخابات ہونے تھے لیکن جمہوریت کی کلیاں یہاں کسی عوامی مقام پر نہیں بلکہ ایک شاہی محل میں کھلیں جو گزشتہ 217 برسوں سے بادشاہت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔

راجستھان نام کی ریاست 30 مارچ سنہ 1949 کو سٹی پیلس کے دربار ہال میں پیدا ہو رہی تھی اور نامزد وزیر اعلیٰ ہیرا لال شاستری ایک حیران کن منظرنامے کے خالق بن رہے تھے۔

یہاں تک کہ مجاہدان آزادی کے لیے بھی بیٹھنے کا انتظام نہیں کیا گیا، جن میں جے نارائن ویاس، مانکی لال ورما اور گوکل بھائی بھٹ جیسے لوگ شامل تھے۔

تقریب کی اگلی صفوں میں بادشاہوں، مہاراجوں، جاگیرداروں، ٹھیکانیداروں اور نوابوں کے ساتھ ساتھ بڑے بیوروکریٹس اور اشرافیہ کے لیے جگہیں مختص تھیں۔

یہ دیکھ کر کانگریس قائدین اور ایسے قائدین جو آزادی کی جنگ میں پیش پیش تھے انھوں نے تقریب کا بائیکاٹ کردیا۔ تحریک آزادی میں شریک ان ہیروز کو کسی نے روکنے، منانے یا واپس لانے کی کوشش تک نہیں کی۔

حیران کن بات یہ ہے کہ اس وقت ملک کے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل وہاں موجود تھے لیکن انھوں نے بھی کوئی کوشش نہیں کی۔

اندرا گاندھی
Getty Images
اندرا گاندھی نے شاہی گھرانوں کو عام شہریوں کے برابر کرنے کا کام کیا

راجستھان کی سیاست میں شاہی خاندان

وزیر اعلیٰ کے عہدے اور بعد میں کابینہ کی تشکیل کے متعلق کانگریس لیڈروں کے درمیان سنہ 1949 میں شروع ہونے والی تلخی اور جھگڑے کا سلسلہ سنہ 2023 تک رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔

اس اختلاف نے ہیرالال شاستری کو اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کیا اور 20 جنوری 1951 کو جے نارائن ویاس کو نیا وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا، جنھوں نے 26 اپریل 1951 کو حلف لیا۔

اسی سال ریاست کی 160 نشستوں والی اسمبلی کے انتخابات کا فیصلہ ہوا جو سنہ 1952 میں مکمل ہوا۔

مسلسل اندرونی جھگڑے اور اختلافات سے دوچار کانگریس اس الیکشن میں شکست سے بچنے میں کامیاب رہی اور اسے 82 سیٹیں ملیں۔

واضح اکثریت کے لیے 81 نشستیں درکار تھیں۔ اس الیکشن میں شاہی ریاستوں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی تھی۔ وہ رام راجیہ پریشد نامی پارٹی سے میدان میں اترے تھے اور انھیں 24 سیٹیں ملی تھیں۔

اس الیکشن کی سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ وزیر اعلیٰ جے نارائن ویاس کی دو شاہی ریاستوں کے نمائندے کے سامنے بری طرح شکست ہوئی۔

وہ جودھپور میں مہاراجہ ہنوونت سنگھ سے اور جالور-اے سیٹ پر مادھو سنگھ سے ہارے۔ ہنوونت سنگھ آزاد امیدوار تھے جبکہ مادھو سنگھ رام راجیہ پریشد پارٹی سے انتخابات میں تھے۔

یہ ریاست کی جمہوری سیاست کے لیے شاہی خاندانوں کا ابتدائی چیلنج اور وارننگ تھی۔

راجستھان کی رگوں میں جمہوریت کا راگ بجنے لگا لیکن راجے رجواڑے اپنی بھنویں تانے رہے۔ جاگیرداروں نے حکومتی کام کاج مشکل بنا دیا۔

یہ حالات نہ پنڈت جواہر لال نہرو کے دور میں سمجھے گئے اور نہ ہی لال بہادر شاستری کے دور میں۔

جب اندرا گاندھی وزیر اعظم بنیں تو وہ چار اہم قوانین کے ذریعے بڑی تبدیلیاں لائیں اور بادشاہت کے اعلیٰ ہونے کو زمیں بوس کر دیا اور رجواڑوں کو عام آدمی کے برابر کر دیا۔

یہ تبدیلیاں پرائیوپرس ایکٹ متعارف کروا کر شاہی خاندانوں کو دی جانے والی رقم اور خصوصی اعزازات کو روکنا، سیلنگ ایکٹ کے ذریعے بے زمینوں کو زمینیں دینا، شاہی خاندانوں کے لوگوں کو ویپنز ایکٹ کے ذریعے ہتھیاروں سے لیس ہونے سے روکنا اور عام لوگوں کے خوف کو ختم کرنا اور گولڈ ایکٹ کے ذریعے ان کی روایتی خوشحالی کو روک لگانا تھی۔

آج کل یہ سوال اہم ہے کہ شاہی خاندان بی جے پی کی طرف کیوں راغب ہو رہے ہیں؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اندرا گاندھی نے نئی تبدیلیوں کے ذریعے راجستھان کی شاہی ریاستوں کو زمین پر لا کھڑا کیا تھا۔

ان کی شان و شوکت ختم ہو گئی اور ان کا رعب و جلال قصہ پارینہ بن گیا۔ اب وہ عام شہریوں کے برابر ہو گئے تھے اور یہ چیزیں آج بھی راج گھرانوں کو پریشان کرتی ہیں۔

بی جے پی رہنما دیا کماری
Getty Images
بی جے پی رہنما دیا کماری

راجستھان کا شاہی خاندان اور بی جے پی

مورخ اور شاہی ریاستوں کی سیاست کے ماہر پروفیسر راجندر سنگھ کھنگروٹ کہتے ہیں: 'اگر کسی کی مراعات چھین لی جائیں تو وہ حکومت مخالف ہو جاتا ہے۔ راجستھان کے شاہی خاندانوں نے بھی ایسا ہی کیا۔

'جب کانگریس کے دور میں ان کو ملنے والی مراعات کو چھین لیا گیا تو انھوں نے اپنے آپ کو ایک ایسی پارٹی کے ساتھ جوڑنے کا راستہ تلاش کرنا شروع کیا جو اگر ان کے حقوق کی حفاظت نہیں کرتی تو کم از کم ان سے چھینے نہیں۔'

وہ پہلے رام راجیہ پریشد اور پھر سواتنتر پارٹی میں شامل ہوئے۔ جب سواتنتر پارٹی تحلیل ہوگئی تو ان کی بھارتیہ جن سنگھ اور بعد میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ وابستگی آسان ہوگئی۔ کچھ شاہی خاندان کے لوگ کانگریس میں بھی شامل ہوئے۔

اگر آپ راجستھان کے شاہی خاندان کے کسی بھی بوڑھے سے ملیں تو وہ صاف کہے گا کہ کانگریس نے پہلے ان کی حکومت چھینی، پھر ان کی جاگیریں چھینیں، پھر مراعات ختم کیے، انھیں بڑی زرعی زمینوں سے محروم کیا، انھیں غیر مسلح کر دیا اور اس پر ہی بس نہیں کیا۔ اس کے بعد اس نے ہمیں ہمارے قیمتی سونے، چاندی اور ہیرے جواہرات سے بھی محروم کر دیا۔

کچھ لوگ اسے سوشلزم کی آندھی کہتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اسے آزادی کے بعد قائم ہونے والا مساوات کہتے ہیں۔

بہر حال ان تبدیلیوں کے بعد راجستھان کی سیاسی سرزمین پر بادشاہت کے کچھ پھول مرجھا گئے، کچھ سوکھ کر جھڑ گئے اور کچھ کھلے رہنے کی کوشش کرتے رہے۔

لیکن بھیرو سنگھ شیخاوت اور وسندھرا راجے کے دور میں ان کے دوبارہ کھڑے ہونے کا وقت آیا۔

شیخاوت جن سنگھ کے ابتدائی رہنماؤں میں سے واحد تھے جنھوں نے جاگیرداری نظام کے خاتمے میں جاگیرداروں کی مخالفت کی اور جمہوری حقوق کی حمایت کی۔

پہلے انتخابات کے بعد ہنوونت سنگھ کی ایک ہوائی حادثے میں موت ہو گئی اور شاہی ریاستوں کا اقتدار حاصل کرنے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔

تاہم کرولی سے شہزادہ برجیندرپال، کمہیر سے راجہ مان سنگھ، نولادھ سے بھیم سنگھ، ٹھیکانہ اونیارا سے راؤ راجہ سردار سنگھ، امیر بی سے مہاراول سنگرام سنگھ، جیسلمیر سے ہدونت سنگھ، سروہی سے جوان سنگھ، بالی سے لکشمن سنگھ، جلور اے سے مادھو سنگھ، جودھ پور سٹی بی سے ہنونت سنگھ، کمہیر سے راجہ مان سنگھ، اترو سے راجہ ہمت سنگھ اور بنیرا سے راجہ دھیرج امر سنگھ جیسے لوگ انتخبات جیت گئے۔

راجستھان میں شاہی خاندانوں کے ابتدائی منظرنامے سے پتہ چلتا ہے کہ آج ریاست کی سیاست میں سب سے مشہور اور بڑے ناموں نے لوک سبھا میں اپنی جگہ قائم رکھی ہے۔ چاہے وہ جے پور کے شاہی خاندان کے لوگ ہوں یا الور بھرت پور کے۔

پہلی بار جے پور کے شاہی خاندان کے کسی فرد نے اسمبلی انتخابات میں ودیادھر نگر سیٹ سے مقابلہ کیا تھا۔

وہ دیا کماری ہیں۔ ان کے لیے بی جے پی کے بانی اور ریاستی سیاست کے پاور ہاؤس کے ایک اہم رہنما بھیرو سنگھ شیخاوت کے داماد کا ٹکٹ مسترد کیا گیا ہے۔

اسی طرح جے پور میں پرکوٹ کے ایک بک شاپ پر میری ملاقات کالج کے ایک دانشمند استاد سے ہوئی۔ جب الیکشن کا موضوع آیا تو وہ جے پور کے سیاسی ماحول کے بارے میں بتانے لگے کہ اس بار دیا کماری کو ٹکٹ دیا گيا ہے۔ ان کا تعلق شاہی خاندان سے ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ 'شہزادی، تمہیں کون بتائے کہ ترے چراغ کدے تک کتنی محرابیں پڑتی ہیں، کتنے در آتے ہیں۔'

کتاب فروش نے ٹوکتے ہوئے کہا: 'جناب، آپ کا شعر بہت خوبصورت ہے۔ لیکن دیا کماری کے پیچھے پہلے ہی سے کافی بھیڑ ہے۔'

دیا جے پور کے سابق مہاراجہ بریگیڈیئر بھوانی سنگھ اور پدمنی دیوی کی اکلوتی بیٹی ہیں اور راجسمند سے لوک سبھا کی رکن ہیں۔ اس سے پہلے وہ سوائی مادھوپور سے بی جے پی ایم ایل اے تھیں۔

شاہی، راجستھان
Getty Images

مہارانی گایتری دیوی اور اندرا گاندھی

دیا کماری کی دادی مہارانی گایتری دیوی 1962، 1967 اور 1971 میں سواتنتر پارٹی سے جے پور سے تین بار ایم پی رہی تھیں۔ گایتری دیوی کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جن کا براہ راست مقابلہ اندرا گاندھی سے تھا۔

گایتری دیوی کے بیٹے پرتھوی راج سنگھ سواتنتر پارٹی کی طرف سے 1962 میں دوسہ سے لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ ماں اور بیٹے دونوں اس سال لوک سبھا میں تھے۔

گایتری دیوی نے 1967 میں ضلع ٹونک کی مالپورہ سیٹ سے سواتنتر پارٹی کی امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا تھا اور وہ کانگریس کے دامودر لال ویاس سے ہار گئیں۔

راجستھان کی سیاست کے پرانے ماہرین کا اندازہ ہے کہ اگر گایتری دیوی وہ انتخاب نہ ہارتیں تو راجستھان کی غیر کانگریسی سیاست کی باگ ڈور مہارانی کے ہاتھ میں ہوتی اور شاید شیخاوت کے بجائے وہ 1977 میں بی جے پی کی قیادت کر رہی ہوتیں۔

اپنے آخری دنوں میں خوبصورتی اور ہمت کی مثال نے عام لوگوں کے مسائل کو لے کر بی جے پی کی وزیر اعلی وسندھرا راجے کے خلاف احتجاج بھی کیا تھا۔

ان کا اندرا گاندھی سے بھی مقابلہ تھا۔ اندرا گاندھی انھیں اس قدر ناپسند کرتی تھیں کہ 1975 میں انھوں نے گایتری دیوی کو ٹیکس سے متعلق کچھ معاملات پر کئی ماہ تک جیل میں ڈال دیا تھا۔

راجستھان کے شاہی خاندان میں کہا جاتا ہے کہ مسز گاندھی گایتری دیوی سے اس وقت سے جلتی تھیں جب امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی اہلیہ جیکلین کینیڈی مارچ 1962 میں کئی دنوں تک ان کے گھر پر ٹھہری تھیں اور جے پور میں ہاتھی کی سواری، پولو میچ دیکھے، بازار کا دورہ کیا اور ان کے ذاتی مہمان کے طور پر وہاں قیام کیا۔

وسندھرا راجے کے ایک پرانے انٹرویو کے مطابق راج ماتا وجے راجے سندھیا کا ماننا تھا کہ گایتری دیوی اپنے وقت کی دنیا کی خوبصورت ترین خواتین میں سے ایک تھیں۔

گایتری دیوی کے بیٹے بریگیڈیئر بھوانی سنگھ نے سنہ 1989 میں کانگریس کے ٹکٹ پر لوک سبھا کا الیکشن لڑا تھا۔ لیکن انھیں بی جے پی کے ایک عام کارکن گردھاری لال بھارگو نے شکست دے دی۔

میواڑ کے انتخابی میدان میں کتنے شاہی خاندان ہیں؟

جے پور کی طرح ناتھ دوارا میں وہیں کے کانگریس کے طاقتور لیڈر اور سیاسی نفسیات کے ماہر پروفیسر سی پی جوشی کا میواڑ کے شاہی خاندان کے نوجوان وشوراج سنگھ میواڑ سے مقابلہ ہے۔

اسمبلی سپیکر جوشی برسوں سے لوگوں کے درمیان ہیں اور وشوراج پہلی بار سیاست میں قدم رکھ رہے ہیں۔ لیکن مقابلہ سخت ہے۔

راجستھان میں ہونے والے اسمبلی الیکشن میں ایسے علاقوں میں کم و بیش ایسے ہی حالات ہیں، جہاں شاہی خاندانوں سے وابستہ چہروں کو میدان میں اتارا گیا ہے۔

اس بار بی جے پی نے ادے پور کے سابق شاہی خاندان سے وابستہ لکشیہ راج سنگھ کو بھی شیشے میں اتارنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن وہ سیاست سے دور رہے۔ جب وہ نہیں آئے تو بی جے پی وشوراج سنگھ کو لے آئی۔

وشوراج سنگھ مہارانا مہندر سنگھ کے بیٹے ہیں، جو کبھی چتور گڑھ سے ایم پی تھے، جب کہ لکشیہ راج سنگھ میواڑ، مہندر سنگھ کے چھوٹے بھائی اروند سنگھ میواڑ کے بیٹے ہیں۔ دونوں خاندانوں میں وراثت اور اثاثوں کے حوالے سے اختلافات ہیں۔ لیکن سٹی پیلس اروند سنگھ کے پاس ہے۔

راجستھان کے دو شاہی خاندان جاٹ ہیں۔ یہ بھرت پور اور دھول پور ہیں۔

دھول پور کے جاٹ شاہی خاندان کی بہو وسندھرا راجے 2003 سے جھالاواڑ کے جھالراپٹن سے مسلسل الیکشن جیت رہی ہیں جبکہ ان کا بیٹا دشینت سنگھ 2004 سے جھالاواڑ - باراں لوک سبھا سیٹ سے ایم پی ہے۔

وسندھرا
Getty Images
وسندھرا راجے سندھیا ریاست میں بی جے پی کا چہرہ رہی ہیں

وسندھرا راجے کا سفر

وسندھرا راجے پہلے نمبر پر ہیں۔ وہ پہلی بار 1985 میں بی جے پی کے ٹکٹ سے دھول پور سے ایم ایل اے منتخب ہوئی تھیں۔ راجے 1991، 1996، 1998، 1999 تک جھالاواڑ سے لوک سبھا کی رکن رہی ہیں۔

ریاست کی سیاست میں سب سے زیادہ موثر اور فعال ہونے کے معاملے میں بھرت پور کے جاٹ شاہی خاندان سے پیچھے ہیں۔

اس خاندان کے وشویندر سنگھ 2013 سے لگاتار دیگ کمہیر سیٹ سے کانگریس کے ایم ایل اے ہیں اور حکومت میں وزیر ہیں۔ وہ 1989 میں جنتا دل سے اور 1999 اور 2004 میں بی جے پی سے ایم پی بنے تھے۔

وشویندر سنگھ 1993 میں ند بائی سے ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔ ان کی بیوی مہارانی دویہ سنگھ ایک بار ایم ایل اے اور ایک بار ایم پی رہ چکی ہیں۔

وشویندر سنگھ کے والد مہاراجہ برجیندر سنگھ 1962 میں لوک سبھا اور 1972 میں قانون ساز اسمبلی کے رکن تھے۔

اسی شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے راجہ مان سنگھ 1952 سے 1980 تک دیگ، کمہیر اور ویر سے مختلف اوقات میں سات بار ایم ایل اے رہے۔ وہ 1985 کے سخت انتخابات کے دوران پولیس کی فائرنگ میں مارے گئے تھے۔

راجہ مان سنگھ کی بیٹی کرشنیندر کور دیپا 1985، 1990، 2003، 2008 اور 2013 میں ایم ایل اے تھیں۔ اس بار بی جے پی نے ان کا ٹکٹ منسوخ کر دیا ہے۔ وہ 1991 میں لوک سبھا کی رکن بھی منتخب ہوئیں۔

اسی شاہی خاندان کے ارون سنگھ 1991 سے 2003 تک مسلسل چار مرتبہ ایم ایل اے رہے۔

بھرت پور شاہی خاندان کے گریراج شرن سنگھ عرف بچو سنگھ نے پہلے لوک سبھا انتخابات میں سوائی مادھوپور سے کامیابی حاصل کی تھی۔

طویل عرصے تک مہاراجہ کرنی سنگھ 1952 سے 1972 تک انتخابات میں بیکانیر سے مسلسل لوک سبھا کے رکن منتخب ہوتے رہے۔ اب ان کی پوتی سدھی کماری بیکانیر ایسٹ سے ایم ایل اے ہیں۔ وہ اس بار بھی انتخابی میدان میں ہیں۔

الور کا شاہی خاندان بھی نمایاں رہا ہے۔ بھنور جتیندر سنگھ اس وقت کانگریس کے سینیئر لیڈر ہیں اور راہل گاندھی کے بہت قریب ہیں۔ وہ دو بار ایم ایل اے اور ایک بار ایم پی رہ چکے ہیں۔ وہ وزیر اعظم منموہن سنگھ کی حکومت میں مرکز میں وزیر بھی رہے۔ ان کی والدہ یورانی مہندر کماری بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ رہ چکی ہیں۔

جودھ پور کا شاہی خاندان

ہنوونت سنگھ نے اسمبلی انتخابات اور لوک سبھا انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی۔ ان کی اہلیہ راج ماتا کرشنا کماری 1972 سے 1977 تک جودھ پور سے لوک سبھا کی رکن رہیں۔ ہنوونت سنگھ اور کرشنا کماری کے بیٹے گج سنگھ بھی 1990 کے ضمنی انتخاب میں بی جے پی کی حمایت سے راجیہ سبھا پہنچے تھے۔

کرشنا کماری اور ہنوونت سنگھ کی بیٹی اور ہماچل پردیش کے کانگریس لیڈر چندریش کماری بھی جودھ پور سے رکن اسمبلی منتخب ہوئیں۔

کوٹا کے سابق مہاراجہ، برجراج سنگھ 1962 میں کانگریس سے اور 1967 اور 1972 میں جھالاوار سے بھارتیہ جن سنگھ کے ٹکٹ پر لوک سبھا کے رکن رہے۔ وہ 1977 اور 1980 میں کانگریس کے ٹکٹ پر لڑے تھے، لیکن ہار گئے۔

برجراج سنگھ کے بیٹے اجے راج سنگھ 2009 میں کانگریس کے ٹکٹ پر کوٹا لوک سبھا سیٹ سے منتخب ہوئے تھے۔ لیکن 2014 میں وہ لوک سبھا کے موجودہ سپیکر اوم برلا سے ہار گئے۔ اس کے بعد اجے راج اور ان کی بیوی کلپنا دیوی بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ کلپنا دیوی 2018 میں لاڈپورہ سے ایم ایل اے بنیں اور اب دوبارہ بی جے پی کی امیدوار ہیں۔

کرولی شاہی خاندان بھی سیاست میں سرگرم رہا ہے۔ برجیندرپال سنگھ 1952 اور 1957 اور 1962، 1967 اور 1972 میں ایم ایل اے رہے۔

وہ شروع اور آخر میں آزاد امیدوار تھے۔ لیکن درمیانی دو انتخابات میں وہ کانگریس کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔ اسی شاہی خاندان کی روہنی کماری 2008 میں بی جے پی سے ایم ایل اے منتخب ہوئی تھیں۔

عوام
BBC
راجستھان کے عوام کس کے ساتھ جائيں گے، بی جے پی یا کانگریس

گایتری دیوی اور لکشمن سنگھی کی جنگ

اس دوران راجادھیراج سردار سنگھ کھیتری، مہاراول لکشمن سنگھ، کنور جسونت سنگھ داؤدسر جیسے لوگ بھی 1958 سے راجیہ سبھا پہنچ رہے ہیں۔

شاہی سیاست میں سب سے دلچسپ موڑ 1977 میں آیا، جب جنتا پارٹی جیت گئی۔ اس وقت تقریباً تمام شاہی خاندان مہاروال لکشمن سنگھ کی قیادت میں متحد ہو گئے تھے۔ لیکن فتح کے بعد مہارانی گایتری دیوی اور لکشمن سنگھ کے درمیان رسہ کشی شروع ہو گئی۔

جیسے جیسے تنازع بڑھتا گیا بھیرو سنگھ شیخاوت موقع دیکھ کر سرگرم ہو گئے۔ انھوں نے اپنی سیاسی ذہانت اور مہارت سے قیادت حاصل کی اور وزیر اعلیٰ بن گئے۔

شاہی خاندانوں کے طاقتور چہروں میں ایک راجپوت کے طور پر شیخاوت نے وزیر اعلیٰ بن کر یہ دکھایا کہ جمہوریت کا آسمان اب شاہی خاندانوں کے بجائے عوام کی امنگوں پر جھک گیا ہے۔

شیخاوت نے ملاقاتوں کے لیے سٹی پیلس جانے سے انکار کر دیا اور شاہی خاندانوں کے نمائندوں کو حاشیے پر کھڑا کر دیا گیا۔

مہاراول لکشمن سنگھ کو اسمبلی کا سپیکر بنایا گیا اور گایتری دیوی کو ان کے قد کے مطابق آر ٹی ڈی سی کی چیئرپرسن بنایا گیا۔ یہ کارپوریشن خاص طور پر ان کے لیے بنائی گئی تھی۔

اس کے بعد ریاست کی سیاست میں تیزی سے تبدیلی آئی اور شاہی خاندانوں کی شان و شوکت کے برعکس عام راجپوت لیڈروں کے ناموں کا ایک شاندار ایکویریم تیار کیا گیا۔

جسونت سنگھ جسول، کلیان سنگھ کلوی، تان سنگھ، دیوی سنگھ بھاٹی، نرپت سنگھ راجوی، سریندر سنگھ راٹھور اور راجندر سنگھ راٹھور جیسے کئی منفرد نام اس میں تیرنے لگے۔

ان کی وجہ سے شاہی خاندانوں کی سیاست میں بے چینی محسوس ہوئی۔

1987 تک جب راجستھان کی سیاست ایک تنگ سرنگ سے گزر رہی تھی تو شاہی خاندان نے دیکھا کہ وی پی سنگھ ملک کے سیاسی منظر نامے پر حاوی ہیں۔

بھیرو سنگھ شیخاوت
Getty Images
بھیرو سنگھ شیخاوت

تبدیلی لانے والے شیخاوت

جب وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو چیلنج کیا تو بڑے شاہی خاندانوں نے ان کے ساتھ اپنا مستقبل دیکھا۔

دراصل وی پی سنگھ راجستھان کے دیوگڑھ علاقے کے داماد تھے۔ اس طرح 1993 کے انتخابات میں راجپوت شاہی خاندانوں اور ٹھیکانیداروں کے لوگوں کو بہت سے ٹکٹ دیے گئے۔ ان میں سے پراکرم سنگھ بنیرا اور وی پی سنگھ بدنور جیسے لیڈر ابھرے۔

جب شیخاوت کی حکومت 1993 سے 1998 کے درمیان بنی تو گڑھوں، قلعوں اور اڈوں کے دن ختم ہوئے اور نئی سیاحت کی پالیسی کے ساتھ ایک نئی بہار آئی۔

اس پالیسی کے بعد حکومت کی مدد اور رہنمائی سے غیر ملکی سیاح ان ویران قلعوں کی بڑی بڑی محرابوں کے دیکھنے آنے لگے جن پر کبوتر بیٹھا کرتے تھے۔

وہ ویران قلعے جو کبھی دھوڑ کی ریت میں نہاتے تھے اب چاندنی میں نہانے لگے اور صحرا میں خوشحالی کی جھیلیں اٹھکھیلیاں کرنے لگیں۔

جب انتخابات آئے تو یہ الزامات لگائے گئے کہ شیخاوت نے تمام خزانے کو محلات اور شاہی گھرانوں پر لٹا دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بی جے پی نے 200 میں سے 33 اور کانگریس نے 153 سیٹیں جیتیں۔

1998 میں کانگریس کی اشوک گہلوت کی حکومت بنی اور جب 2003 کے انتخابات آئے تو مہارانی وسندھرا راجے کا طوفان آگیا اور کانگریس 56 سیٹوں پر سمٹ گئی اور بی جے پی کو 120 سیٹیں مل گئیں۔

بی جے پی کو پہلی بار مکمل اکثریت ملی۔ وسندھرا راجے نے تبدیلی یاترا پر نکل کر ریاست کے ہر کونے کا جائزہ لیا اور جہاں کہیں بھی انھیں کسی بھی شاہی خاندان یا راجپوت خاندان میں سیاست کا امکان نظر آیا، اس کو آگے بڑھایا۔

اب وسندھرا کے بعد کے دور میں، بی جے پی قیادت نے ایک بار پھر اپنے کندھے نکالے ہیں اور شاہی خاندانوں کے لیے اپنا سینہ کھول دیا ہے۔

پروفیسر کھنگروٹ بتاتے ہیں کہ 'راجستھان کے تمام شاہی خاندان جابر نہیں تھے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ اقتدار کا کردار کبھی نہیں بدلتا۔ سرخ قالین جو پہلے بادشاہوں اور نوابوں کے لیے بچھایا جاتا تھا، اب ان پر منتخب حکمران چلتے ہیں اور من مانے ڈھنگ سے فیصلے کرتے ہیں۔'

اور ان فیصلوں کے نتیجے میں پارٹیوں کے عام کارکن چٹائیاں بچھاتے ہیں اور نعرے بلند کرتے رہتے ہیں اور ٹکٹیں محلوں تک پہنچ جاتی ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US