انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ کی سرنگ میں پھنسے 41 مزدوروں کو نکالنے کا ریسکیو آپریشن ڈرلنگ مشین خراب ہونے سے کم از کم چار سے پانچ روز کی تاخیر کا شکار ہوا ہے۔

انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ کی سرنگ میں پھنسے 41 مزدوروں کو نکالنے کا ریسکیو آپریشن ڈرلنگ مشین خراب ہونے سے کم از کم چار سے پانچ روز کی تاخیر کا شکار ہوا ہے۔
اب امدادی کارکنان مشین کے خراب حصے کو ہٹانے کے بعد ہاتھوں سے کھدائی کریں گے۔
لینڈ سلائیڈنگ کے باعث سرنگ کا ایک حصہ منہدم ہونے سے یہ مزدور قریب دو ہفتوں سے وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ انڈین ہمالیہ میں 4.5 کلومیٹر طویل سلکیارا سرنگ کا ایک حصہ 12 نومبر کو منہدمہوگیا تھا۔ واقعے کے فوراً بعد پھنسے ہوئے افراد سے رابطہ قائم ہوا، اور تب سے وہ آکسیجن، خوراک اور پانی حاصل کر رہے ہیں۔
ریسکیو ٹیم میں شامل ارنلڈ ڈکس کہتے ہیں کہ ’مشین ٹوٹ گئی ہے۔ اس کی مرمت نہیں ہوسکتی۔‘
انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ 41 مزدوروں کو جلد نکال لیا جائے گا اور وہ اپنے گھروں کو روانہ ہوجائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اِن تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں۔
یہ غیر واضح ہے کہ آیا وہاں کوئی متبادل ڈرلنگ مشین موجود ہے یا پھر نئی ڈرلنگ مشین لانے میں تاخیر ہوسکتی ہے۔
ریاست کے وزیر اعلیٰ پشکر سندھ دھامی نے کہا ہے کہ خراب ڈرلنگ مشین کو اتوار کو نکالا جائے گا اور پھر ہاتھوں سے کام شروع ہوجائے گا۔ ’مزدوروں کے حوصلے بلند ہیں۔ انھوں نے کہا ہے جتنے مرضی دن لیں، ہماری فکر نہ کریں۔‘
ڈرلنگ مشین 60 میٹر (197 فٹ) دیوار میں سوراخ کر رہی تھی۔
حکام ملبے کے ذریعے مختلف چوڑائی کے متعدد پائپ بھیجنے کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ ایک مائیکرو ٹنل بنایا جا سکے جس کے ذریعے کارکنوں کو باہر لایا جا سکے۔ منصوبہ یہ ہے کہ مزدوروں کو پائپوں کے ذریعے سٹریچر پر باہر نکالا جائے۔ لیکن ملبے کے اندر پتھروں اور دھاتوں کی موجودگی کی وجہ سے آپریشن کافی چیلنجنگ ہے۔
فی الحال ایمبولینسوں کو ٹنل کے باہر سٹینڈ بائی پر رکھا گیا ہے۔

ابتدائی دنوں میں مزدوروں کی نکالنے کی کوششیں ناکام ہوئیں کیونکہ ملبہ ہٹانے کے لیے وہاں استعمال ہونے والی مشینیں ملبہ نہیں ہٹا سکی تھیں۔
حکام کا کہنا تھا کہ اب تک سرنگ میں ملبے کو سامنے سے ڈرلنگ کر کے ہٹایا جا رہا تھا لیکن اب عمودی طور پر بھی ڈرلنگ کی مدد لی جارہی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ پہاڑ کی چوٹی سے درختوں کو ہٹا کر وہاں ڈرلنگ مشین رکھی جا رہی ہے۔
سامنے سے ملبے میں سوراخ کرنے کی تین کوششیں اب تک ناکام ہو چکی ہیں۔ ان کے مطابق اگر یہ کوشش کامیاب ہوئی تو مزدوروں تک پہنچنے میں چار سے پانچ دن لگ سکتے ہیں۔
12نومبر یعنی دیوالی کی صبح اچانک زیر تعمیر سرنگ میں اوپر سے ملبہ گرنا شروع ہو گیا اور کچھ ہی دیر میں ملبہ اتنا بڑھ گیا کہ سرنگ میں پھنسے مزدور باہر نہ آ سکے۔

’حوصلے آہستہ آہستہ ٹوٹ رہے ہیں۔۔۔‘
اس سے پہلے اس مقصد کے لیے دہلی سے ایک مشین لائی گئی تھی۔ اندور سے ایک نئی مشین بھی لائی گئی تھی، جسے سرنگ کے اندر 200 میٹر تک لے جایا جا رہا ہے تا کہ رکے ہوئے کام کو آگے بڑھایا جا سکے۔ حکام اب دوسرے آپشنز تلاش کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔
مرتیونجے کمار پروجیکٹ میں لوڈر اور آپریٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم اندر پھنسے کارکنوں کو سمجھانے کی بھی کوشش کرتے ہیں لیکن اب ان کے حوصلے ٹوٹ رہے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ خشک کھانا کھا کر کتنے دن زندہ رہیں گے۔‘
وہ ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ ’ہم کوشش کر رہے ہیں۔ انھیں باہر نکالنے یا انھیں جھوٹی تسلی دینے کے لیے۔ وہ صحت مند ہیں لیکن اب ان کی ہمت آہستہ آہستہ ٹوٹ رہی ہے۔‘
ٹنل کے اندر پائپ کے ذریعے مزدوروں کو آکسیجن دی جا رہی ہے۔ پانی کی بوتلیں بھیجی جارہی ہیں اور اسی پائپ کے ذریعے خشک پیک شدہ کھانا بھیجا جارہا ہے۔ اور وقتاً فوقتاً جن مزدوروں کو ادویات کی ضرورت ہوتی ہے ان کے پاس بھی بھیجی جاتی ہے۔ اور اس پائپ کے ذریعے دونوں طرف سے رابطہ ہوتا ہے۔
وکرم سنگھ اتراکھنڈ کے چمپور ضلع سے آئے ہیں۔ اس کا 24 برس کے چھوٹے بھائی سرنگ کے اندر پھنسے ہوئے ہیں۔
انھوں نے جمعے کو پائپ کے ذریعے اپنے بھائی سے بات کی۔ انھوں نے کہا کہ ’آواز دھیمی آ رہی تھی، اس نے کہا کہ وہ ٹھیک ہے لیکن وہ خوفزدہ ہے۔‘
ٹنل کے اندر پھنسے مزدوروں کے اہل خانہ بار بار ہم سے شکایت کر رہے تھے کہ انتظامیہ یا ٹنل بنانے والی کمپنی نے ان کے رہنے اور کھانے کا کوئی انتظام نہیں کیا۔
گاؤں میں ہوٹل نہ ہونے کی وجہ سے خاندان کے افراد کو رہائش اور کھانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
چنچل سنگھ بشت نے بتایا کہ وہ 600 کلومیٹر کا سفر کر کے آئے ہیں لیکن اب تک ان کے پاس ٹھہرنے کی جگہ نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ لواحقین کو پوچھنے والا کوئی نہیں تھا، انھوں نے مزید کہا کہ حکام نے ہمیں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے۔
یہ ریسکیو مشن اتنا مشکل کیوں ہے؟
ریسکیو ٹیم کے ایک اہلکار نے سنیچر کی شام ایک پریس کانفرنس میں اعتراف کیا تھا کہ سرنگ میں سوراخ کرنے کی وجہ سے اوپر سے مٹی اور ملبہ گر رہا ہے۔
حکومت کی ہائی وے اینڈ انفراسٹرکچر کمپنی این ایچ آئی ڈی سی ایل کا کہنا ہے کہ اندر سے دھماکے جیسی آواز سنی گئی، جس کی وجہ سے ڈرلنگ کرنے والے باہر نکل آئے۔
این ایچ آئی ڈی سی ایل نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’سرنگ کے مزید گرنے کے امکان کے پیش نظر ریسکیو آپریشن کو فی الحال روک دیا گیا ہے۔‘

سرنگ کے اندر پھنسے ہوئے کارکن اور باہر بیٹھے کارکن، جن سے ہم نے بات کی، یہ سب نیویگ انجینئرنگ کمپنی لمیٹڈ کے لیے کام کرتے ہیں، جو سرنگ اور ہائی وے بنانے والی کمپنی ہے۔
ٹنل بنانے والی اس کمپنی کے دو ذمہ داران نے ہمیں بتایا کہ اس سرنگ پر کام سنہ 2018 میں شروع ہوا تھا۔
ان میں سے ایک نے بتایا کہ سرنگ پر کام شروع ہونے سے تھوڑا پہلے اسی جگہ پر مٹی کے تودے گرنے سے نقصان ہوا تھا، جہاں اتوار کو لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ٹنل کا ایک حصہ منہدم ہو گیا تھا۔ تب اسے بنانے میں چھ مہینے لگے تھے۔ لیکن شاید ’یہ مضبوطی سے نہیں بنایا گیا تھا۔‘
زیر تعمیر سرنگ چاردھام کے پرجوش منصوبے کا حصہ ہے، جو بدری ناتھ، کیدارناتھ، یامونوتری اور گنگوتری کے ہندو یاتری مقامات سے رابطے کو بڑھانے کے لیے ایک اقدام تھا۔
یہ ایک متنازع منصوبہ ہے اور ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے جو کہ یہاں پہلے ہی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

بی بی سی کے ایسوسی ایٹ صحافی آصف علی نے بتایا کہ جمعے کی دوپہر دو بجے سے سنیچر کی صبح دس تک صورتحال جوں کی توں تھی۔ جبکہ سرنگ میں پھنسے مزدوروں کے لواحقین انتہائی پریشان اور بے چین نظر آرہے ہیں۔
اجازت کے بعد وہ سرنگ میں پائپ کے ذریعے اپنے رشتہ داروں سے بات کرتے رہتے ہیں۔
بہار کے ایک شخص نے سرنگ میں پھنسے اپنے بھائی سے بات کی ہے ان کا کہنا ہے کہ ’اندر پھنسے تمام لوگوں کی حالت اب ٹھیک نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ان کے بھائی نے انھیں بتایا: ’لگتا ہے آخری وقت آ گیا ہے۔‘
بہار سے آئے ایک اور شخص دیواشیش نے بتایا کہ ان کے بہنوئی بھی سرنگ میں پھنسے ہوئے ہیں۔
انھوں نے پائپ کے ذریعے جب اپنے بہنوئی سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ان کی حالت خراب ہے۔ اب وہ وہاں گھٹن محسوس کر رہے ہیں۔
ٹنل بنانے والی کمپنی ’نو یک انجینیئرنگ کمپنی لمیٹڈ‘ کے دو نگرانوں نے بتایا کہ اس سرنگ پر سنہ 2018 میں کام شروع ہوا تھا۔
ان میں سے ایک نے کہا: ’سرنگ پر کام مکمل ہونے سے تھوڑا پہلے، اسی جگہ پر مٹی کے تودے گرنے سے نقصان ہوا تھا جہاں اتوار کو لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ٹنل کا ایک حصہ گر گیا ہے۔ اس وقت اسے پھر سے بنانے میں چھ مہینے لگے تھے۔ لیکن شاید 'یہ مضبوطی سے نہیں بنایا گیا تھا۔‘
ریسکیو مشن میں شامل افسران کا کہنا ہے کہ ’مزدور محفوظ ہیں اور انھیں پائپ کے ذریعے کھانا پانی اور آکسیجن فراہم کیا جا رہا ہے۔‘
حکام کی جانب سے محض چند دنوں میں ان مزدوروں کو باہر لانے دعوے کے باوجود ریسکیو مشن جاری ہے جو کہ اس میں سامنے آنے والی مشکلات کو اجاگر کرتے ہیں۔
اندر پھنسے مزدوروں کے لواحقین باہر پریشان ہیںاس پروجیکٹ پر کنسلٹنٹ کے طور کام کرنے والی برنارڈ گروپ نامی آسٹریئن جرمن کمپنی کے مطابق یہ شروعات سے ہی ایک مشکل پروجیکٹ تھا۔ کمپنی نے اپنی ویب سائٹ پر کہا کہ یہ سرنگ کے پروجیکٹ کے آغاز سے ہی ٹینڈر دستاویزات میں پیش گوئی سے زیادہ چیلنجنگ ثابت ہوا ہے۔
ارضیاتی لحاظ سے ہمالیہ ایک نیا پہاڑی سلسلہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ نسبتاً کم مستحکم ہے۔ اس کے وجہ سے یہاں مناسب اقدامات اور بے حد احتیاط کے بغیر کوئی بھی تعمیر مزید تباہی اور خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
اس سرنگ کو کئی حصوں میں تعمیر کیا جا رہا ہے تاہم اس کے گرنے کی اصل وجہ تحقیقات کے بعد ہی واضح ہو سکے گی۔
ہمالیہ میں سرنگوں کے احتیاطی تدابیر کے ماہر معظم ظہیر ملک کا کہنا ہے کہ ’سرنگ گرنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ارضیاتی عدم استحکام، سرنگ پر متوقع بوجھ، اس کے اندر بنائی گئی سپورٹ سسٹم کا ناقص ہونا، اس کے اندر پانی کا جانا یا انسانی غلطیاں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اب تک سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق اس حادثے کے بنیادی وجہ ارضیاتی عدم استحکام ہی نظر آ رہی ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ارضیاتی عدم استحکام کا مطلب یہ ہے کہ اگر پہاڑ کی چٹانیں غیر مستحکم ہیں تو یہ سرنگ اوپر کے وزن سے یا بیرونی عوامل جیسے زلزلے یا شدید بارش کی وجہ سے گر سکتی ہیں۔‘
ارضیاتی عدم استحکام کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہ قدرتی وجوہات ہیں اور انسانی کنٹرول سے باہر ہیں۔ یہ عمل ملبے کے مسلسل طور پر گرنے سے نمایاں ہوتا ہے، جس کہ وجہ سے امدادی کارروائیوں میں تاخیر کا سامنا ہے۔

ریسکیو مشن میں شامل انجینئر اور ڈرلنگ ماہر آدیش جین کا کہنا ہے کہ ’12 نومبر سے ملبہ کئی دفع گر چکا ہے اور اس کا حجم بڑھ کر 70 میٹر ہو گیا ہے۔۔۔ میری مشین صرف 45 میٹر تک کام کر سکتی ہے اسی لیے حکومت نے تقریباً 70 میٹر تک پہنچنے کی صلاحیت رکھنے والی ایک بڑی مشین کا بندوبست کیا ہے۔‘
انھوں نے خبر رساں ادارے اے این آئی کو بتایا کہ ’ہم نے نئی مشین کو بہتر انداز سے کام کرنے میں مد دینے کے لیے ایک بنیادی ڈھانچے کو تیار کر دیا ہے۔ تاکہ تمام مزدوروں کی جان کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔‘
واضح رہے کہ مقامی لوگ اور ماہرین ماحولیات ’ہمالیہ‘ میں اس طرح کے بڑے تعمیراتی منصوبوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے تعمیراتی کامپہاڑوں کی نازک ماحولیاتی نظام کو غیر مستحکم کر رہے ہیں، جس کہ وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب جیسی آفات کی شرح اور شدت میں اضافہ ہوا ہے۔
واضح رہے کہ 2018 میں 12 فٹ بالرز شمالی تھائی لینڈ کی ایک غار میں پانی بھر جانے کی وجہ سے 18 دن تک پھنسے رہے تھے۔