اجمل قصاب کو شناخت کرنے والی لڑکی: ’جب انڈیا اور پاکستان میں تناؤ ہوتا ہے میڈیا مجھ سے تبصرے کروانے لگتا ہے‘

دیویکا روٹاون 9 سال کی تھیں جب 26 نومبر 2008 کو ممبئی میں حملہ ہوا۔ ان حملوں کے دوران دیویکا کی ٹانگ میں گولی لگی تھی۔ بعد میں انھوں نے عدالت میں زندہ بچ جانے والے واحد مسلح شخص کی شناخت کی۔ اس واقعے کے 15 سال بعد بی بی سی کے سوتک بسواس نے ان سے رابطہ کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ اس قتل عام کے بعد ان کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی۔

دیویکا روٹاون 9 سال کی تھیں جب 26 نومبر 2008 کو ممبئی میں حملہ ہوا۔ ان حملوں کے دوران دیویکا کی ٹانگ میں گولی لگی تھی۔ بعد میں انھوں نے عدالت میں زندہ بچ جانے والے واحد مسلح شخص کی شناخت کی تھی۔

اس واقعے کے 15 سال بعد بی بی سی کے سوتک بسواس نے ان سے رابطہ کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ اس قتل عام کے بعد ان کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی۔

دیویکا روٹاون سے میری پہلی ملاقات2010 میں ممبئی کی ایک کچی آبادی میں ہوئی تھی۔ اس کمزور سی لڑکی کو ان شدت پسند حملوں سے بچے بمشکل دو سال ہی گزرے تھے جنھوں نے انڈیا کے معاشی اور تفریحی دارالحکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

ممبئی کا 60 گھنٹے کا محاصرہ 26 نومبر 2008 کو شروع ہوا تھا۔ ایک مرکزی ریلوے سٹیشن، لگژری ہوٹلوں اور ایک یہودی ثقافتی مرکز پر حملوں میں 166 افراد ہلاک ہوئے۔ اس دوران نو مسلح افراد بھی مارے گئے۔

دیویکا کو ان کی 12ویں سالگرہ سے ایک ماہ قبل چھترپتی شیواجی ٹرمنس ریلوے سٹیشن پر اجمل قصاب نے ٹانگ میں گولی مار دی تھی۔ سٹیشن پر ہونے والی فائرنگ میں تقریبا 50 افراد ہلاک اور 100 زخمی ہوئے۔

اجمل قصاب
Reuters

دیویکا مقدمے کی سب سے کم عمر گواہ تھیں اور انھوں نے کھچا کھچ بھرے کمرہ عدالت میں قصاب کی شناخت کی۔ دیویکا نے حلف اٹھا کر پرسکون انداز میں سوالات کے جواب دیے تھے۔

میڈیا میں انھیں ’قصاب کو شناخت کرنے والی لڑکی‘ کہہ کر پکارا گیا۔ (مئی 2010 میں، قصاب کو موت کی سزا سنائی گئی، اور دو سال بعد، پونے شہر کی سخت سکیورٹی والی جیل میں پھانسی دے دی گئی)

2010میں جب میں ان سے ملا تھا، تو دیویکا ایک شرمیلی لڑکی تھیں، جو لڑکھڑا کر چلتی تھیں، بہت مسکراتی تھیں اور کم بات کرتی تھیں۔

ان کا بھائی جیش ہڈیوں کی بیماری میں مبتلا تھا اور اپنے ایک کمرے کے گھر کے ایک کونے میں لیٹا ہوا تھا۔ ان کے والد نٹور لال، جو خشک میوہ جات فروخت کرتے تھے، کام کے لیے باہر گئے ہوئے تھے۔ ان کے خاندان کے پاس مختصر اثاثہ تھا۔۔۔ پلاسٹک کی کرسیاں، ایک ٹرنک، چند برتن۔

دیویکا
AFP

’میں بڑی ہو کر ایک پولیس افسر بننا چاہتی ہوں۔‘ دیویکا نے اس وقت مجھے بتایا تھا۔ ہماری ابتدائی ملاقات کے 13 سال بعد اس ہفتے میں نے دیویکا سے ایک بار پھر ملاقات کی۔

دیویکا اب 24 سال کی ہونے والی ہیں اور ایک ذہین اور پراعتماد خاتون ہیں۔ وہ ایک نئے گھر، ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہتی ہیں۔ اب وہ بہت باتیں کرتی ہیں اور ان کے والد سنتے ہیں۔

ان تمام برسوں میں انھوں نے رپورٹروں، ٹی وی شوز، پوڈ کاسٹ اور عوامی اجتماعات کے ساتھ اپنی کہانی کو بے ساختہ شیئر کیا ہے۔ ایک بار پھر انھوں نے روانی سے کہانی سنائی۔

ریلوے سٹیشن پر وہ پونے جانے والی ٹرین کے انتظار میں تھیں جب انھوں نے گولیوں کی آواز سنی۔ انھوں نے لوگوں کو اپنے آس پاس مرتے ہوئے دیکھا۔

ایک ’بے خوف نظر آنے والا‘ نوجوان ایک بڑی سے بندوق اٹھائے ہر طرف گولیاں برسا رہا تھا۔ انھوں نے بھی بھاگنا شروع کر دیا جب اچانک ایک گولی ان کی دائیں ٹانگ میں لگی اور وہ بے ہوش ہو گئیں۔ چھ مرتبہ سرجری سے گزرنے کے بعد 65 دن ہسپتال میں گزار کر وہ گھر واپس آئیں۔

انھوں نے 11 سال کی عمر میں پہلی بار باقاعدگی سے سکول جانا شروع کیا اور سکول نے شروع میں ان کے داخلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ساتھی طلبا کے لیے ’خطرے کو دعوت‘ دیں گی۔

انھوں نے جون 2009 میں ایک خصوصی عدالت میں قصاب کی شناخت کی۔ ’میں نے اس کی طرف انگلی اٹھائی۔ اس نے میری طرف دیکھا اور پھر سر نیچے کر لیا۔‘

اب ان کے ماضی اور حال کی مکمل وضاحت 26/11 سے ہوتی ہے۔

ممبئی آگے بڑھ چکا ہے لیکن حملوں کے خوف نے دیویکا کی زندگی پر ایک طویل سایہ ڈال دیا ہے۔ اپنے انسٹاگرام اور ٹوئیٹر پروفائلز پر، وہ دیویکا روٹاون 26/11 ہینڈل سے جانی جاتی ہیں۔

فیس بک پر وہ خود کو ’ممبئی دہشت گرد حملے کا سب سے کم عمر شکار‘ بتاتی ہیں۔

راحت فتح علی خان کے گانوں پر اپنی سالگرہ کی تقریبات اور ساحل کے کنارے رقص کی زندہ دل ریلز کے ساتھ ساتھ ان کی غمگین تصاویر سامنے آتی ہیں۔

دیویکا اجتماعات سے خطاب کرتی ہیں، متاثرین کو خراج عقیدت پیش کرتی ہیں، اور ان کی ہمت کے لیے ناصرف تعریفیں بلکہ اکثر مالی مدد بھی حاصل کرتی ہیں۔

ان کے گھر کی دیواریں 26/11 کی یادوں سے بھری ہوئی ہیں جن میں ان کی ہمت کی تعریف کرتے ہوئے فریم شدہ سرٹیفکیٹ موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے ان کی ملاقات کی تصاویر موجود ہیں جب انھوں نے گذشتہ سال ممبئی کا دورہ کیا تھا۔

بیڈروم الماری کے اوپر ایک فین کلب کی جانب سے تحفے میں دی گئی ٹرافیاں اور ایک بڑا ٹیڈی موجود ہے۔ 26/11 کی زندہ بچ جانے والی خاتون کے طور پر، وہ امیتابھ بچن کے کون بنے گا کروڑ پتی شو میں مہمان بھی بنیں، جو برطانوی شو پاپ آئیڈل کا انڈین ورژن ہے۔

اور پھر میڈیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب بھی انڈیا اور پاکستان کے درمیان تناؤ کی کوئی کہانی سامنے آتی ہے، تو وہ تبصروں کے لیے دیویکا کا رخ کرتے ہیں۔

’کبھی کبھار، وہ میرے تبصرے مانگنے کے لیے آ جاتے ہیں۔ یہ بعض اوقات بہت عجیب ہو جاتا ہے۔‘

دیویکا، جو دسمبر میں 24 سال کی ہو جائیں گی، کہتی ہیں کہ وہ اب بھی ایک خاتون پولیس اہلکار بننا چاہتی ہیں۔

لیکن اس کے باوجود ان کے خاندان کے لیے خوشیاں حاصل کرنا بہت محنت طلب تھا۔ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح وہ ایک ایسے شہر میں رہنے کے چیلنجز سے نمٹ رہے ہیں جو تیزی سے بدل رہا ہے۔

12 سال تک چال میں رہنے کے بعد، جہاں ایک کمرے اور مشترکہ باتھ روم کے ساتھ سستے مکانات ہوتے ہیں، انھیں اس جگہ کو اس وقت چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا جب وہاں تعمیراتی کام ہونے لگا۔

دو کروڑ آبادی والے اس شہر میں، جہاں عمودی زندگی تیزی سے ایک ضرورت بنتی جا رہی ہے، روٹاون خاندان نے چھ ماہ قبل کرائے پر ایک چھوٹا سا اپارٹمنٹ لیا تھا۔ یہ ساتویں منزل پر 270 مربع فٹ کا ایک بیڈروم یونٹ ہے۔

تاہم، دیویکا کہتی ہیں کہ 19000 روپے ماہانہ کرائے کی وجہ سے ان پر معاشی دباؤ بڑھا ہے۔ ان کی مشہور شخصیت کی حیثیت کے باوجود، سب کچھ مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہے۔

جیسا 15 سال پہلے ہوا تھا، دیویکا کی شہرت اب بھی ان کے گھرانے فیملی کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔26/11 کے بعد خشک میوہ جات کا کاروبار بند ہونے کے بعد سے60 سالہ نٹور لال بے روزگار ہیں۔

جیش، جس کی عمر 28 سال ہے، کو حال ہی میں آفس اسسٹنٹ کے طور پر نوکری ملی ہے، جس کی شروعات چند مہینے پہلے ہی ہوئی تھی۔ دیویکا کو آٹھ سال میں دو قسطوں میں 13 لاکھ سے کچھ زیادہ کا سرکاری معاوضہ ملا۔

سکول ختم کرنے کے بعد وہ ٹی بی کا شکار ہو گئیں، جس سے ان کی پڑھائی متاثر ہوئی۔

ایک عدالتی لڑائی میں، وہ حملے کے بعد وعدہ کے مطابق گھر دینے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہیں۔ بچ جانے والوں کی مدد کرنے والا ایک پرائیویٹ ٹرسٹ ان کے کالج کی فیس ادا کرتا ہے۔

جنوری میں انڈیا کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے انھیں پورے انڈیا میں اپنے پانچ ماہ کے 4000 کلومیٹر طویل ’اتحاد مارچ‘ میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی۔

وہ بتاتی ہیں کہ وہ اپنے والد کی آبائی ریاست راجستھان میں ان کے ساتھ شامل ہوئیں۔ ریاست کی کانگریس حکومت نے انھیں ایک چھوٹا سا پلاٹ تحفے میں دیا ہے۔

دیویکا کو امید ہے کہ وہ اگلے سال کے اوائل میں پولیٹیکل سائنس اور ہیومینیٹیز میں بیچلر کی ڈگری کے ساتھ گریجویشن کریں گی اور ایک خاتون پولیس اہلکار بننے کے لیے امتحان میں بیٹھنا چاہتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’میں بھی پچھلے کچھ مہینوں سے نوکری کی تلاش میں ہوں، لیکن مجھے نوکری نہیں ملی ہے۔ یہ پریشان کن ہے کیوں کہ ممبئی میں رہنا بہت مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔‘

اس سانحے کے 15 سال بعد بھی دیویکا اور ان کی فیملی کو دوستوں، خیر خواہوں اور کلبوں کی تھوڑی سی مدد مل رہی ہے۔

نٹور لال کہتے ہیں ’ہم ٹرین اور ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہیں، جہاں وہ دیویکا کو بولنے، سرٹیفکیٹ دینے اور یہاں تک کہ پیسے دینے کی دعوت دیتے ہیں۔‘

’ہم نے ان میں سے سینکڑوں کام کیے ہیں۔ اس طرح ہم زندہ رہتے ہیں۔‘

لیکن یہ سب کب تک جاری رہے گا؟ قصاب کو پہچاننے والی لڑکی کے طور پر اپنی شناخت کے ساتھ وہ کتنی مطمئن ہیں؟

وہ کہتی ہیں ’یہ شناخت مجھ پر مسلط کی گئی تھی۔ میں اس سے بھاگتی نہیں۔ میں نے اسے اپنا لیا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں ’میں اس کے علاوہ صرف ایک اور شناخت پسند کروں گی، وہ ایک پولیس افسر کی ہوگی اور انڈیا کو دہشت گردوں سے محفوظ رکھوں گی۔‘

مسکراہٹ ان کے چہرے سے نہیں ہٹی۔ خواب مشکل سے مرتے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US