پکڑوا ویواہ: ایسی رسم جس میں لڑکے کو اغوا کر کے زبردستی شادی کروا دی جاتی ہے

پکڑوا شادی ایک ایسی شادی ہے جس میں شادی کے قابل لڑکے کو اغوا کر کے اس کی زبردستی شادی کر دی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس قسم کی شادی پر فلمیں اور ٹی وی سیریل بھی بن چکے ہیں۔
علامتی تصویر
Getty Images

کیا آپ نے سنا کے برسرِ روزگار، ذمہ دار اور قابل جوان لڑکے شادیوں کا سیزن شروع ہوتے ہی گھروں تک محدود ہو جاتے ہوں یا گھر سے باہر اپنی سرگرمیوں کو انتہائی کم کر لیتے ہوں کیونکہ انھیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں کوئی ان کی شادی نہ کروا دے۔

ایسا ہی کچھ ہوتا ہے انڈیا کی ریاست بہار میں جہاں یہ ایک پرانی رسم اب بھی چلی آ رہی ہے جہاں کوئی بھی لڑکا کسی دن اچانک کسی ایسی اجنبی یا پھر جانی پہچانی لڑکی سے شادی پر مجبور کر دیا جاتا ہے جسے وہ پسند بھی نہیں کرتا۔

بہار میں اس قسم کی شادی کو ’پکڑوا ویواہ‘ کہا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک دس سال پرانی جبری شادی کو حال ہی میں بہار میں ہائی کورٹ نے منسوخ کر دیا ہے۔ اس معاملے میں لڑکے نے الزام لگایا تھا کہ اسے اغوا کر کے زبردستی شادی کروائی گئی۔

اس قسم کی شادی کی ریاست میں ایک طویل تاریخ ہے۔ پکڑوا ویواہ میں، لڑکی کی طرف کے لوگ لڑکے کو اغوا کر لیتے ہیں اور اپنی بیٹی سے شادی کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

تاہم لڑکی کے اہل خانہ نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس کے خلاف اپیل کرنے کے لیے قانونی مشورہ لے رہے ہیں۔

وہ خود اس فیصلے کے لیے اپنے وکیل کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں اور الزام لگا رہے ہیں کہ ان کے وکیل نے عدالت میں تمام ثبوت پیش نہیں کیے تھے۔

قصہ ہے کیا؟

یہ معاملہ نوادہ ضلع کے ریورا گاؤں کے چندر مولیشور سنگھ کے بیٹے روی کانت اور لکھی سرائے ضلع کے چوکی گاؤں کے بپن سنگھ کی بیٹی بندنا کماری کی شادی سے متعلق ہے۔

الزامات کے مطابق برسوں پہلے روی کانت سنگھ اپنے چچا ستیندر سنگھ کے ساتھ لکھی سرائے کے اشوک دھام مندر میں پوجا کرنے گئے تھے۔ تبھی انھیں بندوق کی نوک پر اغوا کر لیا گیا اور لکھی سرائے کی بندنا کماری سے زبردستی شادی کروا دی گئی۔ یہ واقعہ 30 جون 2013 کا ہے۔ اس وقت روی کانت کو فوج میں نئی نوکری ملی تھی۔

ستیندر سنگھ کے مطابق ’تقریباً آٹھ لوگ تھے، جن میں سے کچھ کے پاس ہتھیار بھی تھے۔ وہ روی کانت کو گھسیٹ کر لے گئے۔ انھوں نے مجھے بھی اٹھایا لیکن مجھے لکھی سرائے میں چھوڑ دیا اور بتایا کہ وہ تمہارے بیٹے کی شادی کر رہے ہیں۔ ہم نے گھر پر بھی اطلاع دی، گھر والے بھی وہاں پہنچے لیکن کچھ پتہ نہ چلا۔‘

ستیندر سنگھ کا دعویٰ ہے کہ یرغمال روی کانت صبح چار بجے بیت الخلا جانے کے بہانے باہر آیا، اس وقت گھر کے لوگ سو رہے تھے۔ اس کی موٹر سائیکل مندر کے پاس کھڑی تھی اور چابی اس کے پاس تھی۔

روی کانت اسی لمحے لکھی سرائے سے اپنی موٹر سائیکل پر فرار ہو گیا۔ لکھی سرائے کا اشوک دھام مندر لڑکی کے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔

روی کانت کے والد چندرمولیشور سنگھ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اور ان کے خاندان نے اس جبری شادی کو کبھی قبول نہیں کیا۔ تاہم اس کے لیے رشتہ داروں کی طرف سے دباؤ بنانے کی کوشش ضرور کی گئی۔

چندرمولیشور سنگھ کہتے ہیں کہ ’کسی کو اغوا کرنا اور اسے زبردستی سندور لگانا شادی نہیں ہے۔ پکڑوا شادی بہار میں ہوا کرتی تھی، ہو رہی ہو گی اور ہم نہیں جانتے کہ مستقبل میں کیا ہو گا لیکن ہم نہیں جانتے کہ ان لوگوں سے رشتہ کیسے قبول کریں جن سے ہم کبھی نہیں ملے جن کا ساتھ ہمیں پسند نہیں ہے۔‘

علامتی تصویر
Getty Images

پکڑوا ویواہ کیا ہے؟

پکڑوا شادی ایک ایسی شادی ہے جس میں شادی کے قابل لڑکے کو اغوا کر کے زبردستی شادی کر دی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس قسم کی شادی پر فلمیں اور ٹی وی سیریل بھی بن چکے ہیں۔

سنہ 1980اور اس سے پہلے بہار میں اس طرح کی شادیوں کے کئی واقعات دیکھنے میں آئے۔ شمالی بہار میں ایسی شادیاں زیادہ عام تھیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے لیے گاؤں میں گینگ تھے جو لڑکوں کو اغوا کرتے تھے۔ ایک زمانے میں شمالی بہار میں ملازمت پیشہ اور اہل لڑکوں کو شادی کے موسم میں گھر سے باہر نکلتے وقت خاص طور پر محتاط رہنے کا مشورہ دیا جاتا تھا۔

بہار پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں ہر سال جبری شادی کے تقریباً تین سے چار ہزار کیس درج ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ہم گذشتہ سالوں پر نظر ڈالیں تو جبری شادی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس میں ان جوڑوں کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں جو محبت کی وجہ سے گھر سے بھاگ جاتے ہیں۔

پکڑوا ویواہ کے اکثر کیسز میں بہن کے گھر جانے والا بھائی اس کی نند سے شادی پر مجبور کر دیا جاتا ہے، یا کوئی دیور اپنی بیوہ بھابی سے شادی کرتا ہے، کہیں چھپ کر ملنے والے عاشق گھر واپسی پر معشوقہ کو دلہن بنا کر لے جانے پر مجبور کر دیا جاتا ہیں۔

اگرچہ لڑکوں کے خاندان والے ان شادیوں کو ناپسند کرتے ہیں لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر غریب والدین اپنی بیٹیوں کی شادی کی ذمہ داری کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں اور غربت کی وجہ سے وہ ایسے لڑکوں پر نظر رکھتے ہیں جو معاشی طور پر مستحکم ہوں اور جیسے ہی ان کی مذہبی روایات کے مطابق شادی کے لیے موزوں وقت آتا ہے وہ ان لڑکوں کو پکڑ کر زبردستی شادی کر دیتے ہیں۔

’شادی نہیں، محبت کی شادی‘

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جبری شادی کو لڑکے کے گھر والے آہستہ آہستہ قبول کر لیتے ہیں اور اسے قبول کروانے میں معاشرے یا برادری کا دباؤ اہم کردار ادا کرتا ہے۔

چندرمولیشور سنگھ کہتے ہیں، ’میں فوج میں تھا اور مجھے اس کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے، لیکن آج کل اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ لڑکی کی شادی کے اخراجات کو بچانے کے لیے ہے۔‘

تاہم، بندنا کماری اور ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ یہ ’پکڑوا شادی‘ نہیں بلکہ محبت کی شادی تھی اور وہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست یا اپیل دائر کریں گی۔

اہل خانہ کا الزام ہے کہ ان کے اپنے وکیل نے تمام ثبوت عدالت میں پیش نہیں کیے۔

بندنا کماری کہتی ہیں کہ ’ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ غلط ہے لیکن ہمیں عدالت سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ ہم اس کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے۔ میرے پاس سارے ثبوت ہیں۔

’ہم دونوں نے اپنی مرضی سے شادی کی۔ ہمارے وکیل نے ہائی کورٹ میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ وہ ہمارا فون بھی نہیں اٹھا رہے ہیں۔‘

اس سلسلے میں ہم نے بندنا کماری کے وکیل سے بھی بات کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

دراصل بندنا کا کہنا ہے کہ روی کانت اس کی ایک کزن بہن کا بہنوئی ہے اور اسی وجہ سے اسے گھر آنا پڑا۔

اس دوران دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کیا اور اشوک دھام مندر میں شادی کر لی لیکن لڑکے کے والد کو یہ شادی منظور نہیں تھی۔

’سسرال میں ٹھہری لیکن انھوں نے قبول نہیں کیا‘

بندنا کی ماں شرومنی دیوی کا الزام ہے کہ بندنا کے وکیل نے اس معاملے میں کوئی مدد نہیں کی۔

شرومنی دیوی کا دعویٰ ہے کہ ’دونوں نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی اور لڑکے نے خوشی سے شادی کی تمام رسومات مکمل کیں اور منتر پڑھے۔ یہ شادی پورے معاشرے کے درمیان ہوئی تھی۔

بندنا کی پڑوسی نشا دیوی نے دعویٰ کیا ہے کہ لڑکے نے اپنی پسند کے مطابق شادی کی تھی۔

لڑکے نے لڑکی کو پسند کر کے اس سے شادی کر لی، اسے کسی نے نہیں پکڑا تھا لیکن یہ شادی لڑکے کے گھر والوں کو منظور نہیں تھی۔

بندنا کا دعویٰ ہے کہ روی کانت شادی کے بعد ان سے ملنے لکھی سرائے آیا کرتا تھا۔

وہ بھی تقریباً تین سال پہلے کئی ماہ تک اپنے سسرال کے گھر ٹھہری تھی۔ بندنا نے الزام لگایا ہے کہ اس کے سسرال میں اس کے ساتھ بدسلوکی کی گئی، اس لیے وہ وہاں سے واپس آئی۔

لیکن روی کانت کے گھر والوں کا دعویٰ ہے کہ روی کانت شادی کے اگلے ہی دن کسی طرح اپنے سسرال سے بھاگ گیا تھا۔

دراصل شادی کے بعد روی کانت نے لکھی سرائے کی فیملی کورٹ میں ان کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔

بندنا کماری کا الزام ہے کہ روی کانت نے اپنے گھر والوں کے دباؤ میں ایسا کیا۔ تاہم جنوری 2020 میں لکھیسرائے کی عدالت نے روی کانت کے خلاف فیصلہ دیا تھا اور بندنا کو روی کانت کی بیوی کا درجہ دیا گیا تھا۔

تاہم روی کانت کے خاندان نے اس فیصلے کے خلاف پٹنہ ہائی کورٹ میں اپیل کی تھی۔

اس پر سماعت مکمل ہونے کے بعد ہائی کورٹ نے گزشتہ ہفتے 2013 میں ہونے والے اس شادی کو منسوخ کرنے کا فیصلہ سنایا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں لڑکی کے اہل خانہ کی جانب سے شادی کے حوالے سے پیش کیے گئے شواہد کو ناکافی قرار دیا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US