انڈین پارلیمان نے ’جموں کشمیر تنظیمِ نو بل‘ میں ترمیم کو منظور کر کے دہائیوں قبل پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے آئے ہندو اور سکھ مہاجرین کے لیے کشمیر کی اسمبلی میں ایک نشست مختص کی ہے۔

انڈین پارلیمان نے ’جموں کشمیر تنظیمِ نو بل‘ میں ترمیم کو منظور کر کے دہائیوں قبل پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے آئے ہندو اور سکھ مہاجرین کے لیے کشمیر کی اسمبلی میں ایک نشست مختص کی ہے۔
ترمیم کے مطابق 1990 میں وادی چھوڑ کر جانے والے کشمیر پنڈتوں کے لیے بھی دو سیٹیں محفوظ ہوں گی۔
مہاجرین سے مراد وہ غیر مسلم کشمیری ہیں جو 1947 کی جنگ کے دوران پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر میں مظفرآباد، میرپور، بھمبھر، باغ اور پلاندری کے علاقوں سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر آئے تھے۔
اُن کی نمائندگی کے لیے اب جموں کشمیر کی اسمبلی میں ایک سیٹ ریزرو رہے گی، جس کے لیے نمائندے کو یہاں کے لیفٹننٹ گورنر نامزد کریں گے۔
جموں کشمیر کی سابق اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 83 تھی اور اس میں دو سیٹیں ریزرو تھیں، جن کے لیے نمائندوں کو نامزد کیا جاتا تھا۔ لیکن تنظیمِ نو بل کے بعد یہ تعداد 95 ہو گئی ہے جس میں محفوظ سیٹیں اب پانچ ہوں گی۔
آئینی ضابطے کے تحت اس کے علاوہ 24 سیٹیں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے لیے مخصوص ہیں۔ تاہم اس ضابطے میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ ان سیٹوں پر کون انتخابات لڑ سکتا ہے، یا یہ کہ ان سیٹوں کے لیے کسی کو نامزد کیسے کیا جائے گا یا پھر آیا ان پر بھی الیکشن ہوں گے۔ تازہ بل میں پانچ محفوظ سیٹوں میں سے دو کشمیری پنڈتوں اور ایک پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر کے پناہ گزینوں کے لیے مخصوص رہے گی۔
انڈیا کے وزیر داخلہ نے بدھ کے روز پارلیمنٹ میں اس بل کی ترمیم پر بحث کا جواب دیتے ہوئے اسے ایک ’تاریخی قدم‘ قرار دیا۔ تاہم ان مہاجرین کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔

’ہم تو 24 میں سے آٹھ مانگتے تھے مگر صرف ایک ملی‘
پاکستانی زیرانتظام کشمیر کے پناہ گزینوں کی تنظیم ’ایس او ایس انٹرنیشنل‘ کے سربراہ راجیو چُنی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آئین میں باقاعدہ طور پر 24 سیٹیں ہمارے لیے ریزرو ہیں لیکن ہم دہائیوں سے صرف آٹھ سیٹوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
’آپ ہی بتائیں اس ایک سیٹ سے ہمیں خوش ہونا چاہیے؟ ہمارے ساتھ تو دھوکہ ہوا ہے۔‘
راجیو چُنی کہتے ہیں کہ ’1947 میں پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر سے 40 ہزار خاندانوں پر مشتمل 12 لاکھ لوگ یہاں آئے تھے۔ سنہ 1990 میں تشدد اور ہلاکتوں کی وجہ سے وادی چھوڑ چکے کشمیری پنڈتوں کے لیے دو سیٹوں کی ریزرویشن پر راجیو حیرانی کا اظہار کرتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’خود ہوم منسٹر نے پارلیمنٹ میں بولا ہے کہ کشمیری پنڈت تارکین وطن افراد کی تعداد ایک لاکھ 57 ہزار ہے، اور اُن کے لیے دو سیٹیں رکھی گئی ہیں۔
’ڈیڑھ لاکھ لوگوں کے لیے دو سیٹیں اور 12 لاکھ کے لیے صرف ایک، یہ تو ناانصافی ہے۔‘

کشمیری پنڈت بھی ناخوش کیوں ہیں؟
پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران وزیرداخلہ امِت شاہ نے کہا کہ کشمیر میں تشدد اور ہلاکتوں کی وجہ سے کشمیری اقلیتیوں کے ہزاروں خاندانوں کو وادی میں سب کچھ چھوڑ کر نکلنا پڑا تھا لیکن نریندر مودی پہلے وزیراعظم ہیں جنھوں نے ان کی آباد کاری اور بہتر سہولات کے لیے تاریخی کام کیا۔
انھوں نے کہا کہ ’ہماری حکومت نے مہاجر پنڈتوں کے لیے ماہانہ وظیفہ 3250 روپے فی خاندان سے بڑھا کر 13ہزار روپے کر دیا ہے، اور اب ان کی بہتر سیاسی نمائندگی کے لیے دو سیٹیں محفوظ کر دی ہیں۔‘
تاہم کشمیری پنڈتوں کی تنظیم ’جموں کشمیر پیس فورم‘ کے سربراہ ستیش محل دار نے نئی دلّی سے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ ’حکومت برسوں سے کہتی آئی ہے کہ پنڈتوں کو دوبارہ کشمیر میں آباد کیا جائے گا، دو سیٹیں مائیگرنٹس کے لیے محفوظ کرنے کا مطلب ہے کہ ہم لوگوں کا مائیگرنٹ سٹیٹس اب مستقل ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اگر ریزرویشن ہی کرنا تھا، تو جموں کشمیر میں دو تین حلقوں کو ہمارے لیے ریزرو کرتے، ان پر پنڈت اُمیدوار کسی بھی پارٹی سے انتخاب لڑتے، لیکن جو کچھ کیا گیا اس سے جمہوریت کمزور ہو گئی ہے اور آئین کا مذاق بنایا گیا ہے۔‘
ستیش محل دار کا کہنا ہے کہ کشمیر میں فی الوقت کشمیری پنڈتوں کے ایسے 800 خاندان ہیں جو 1990 میں اور اس کے بعد دہائیوں تک ہوئے تشدد کے دوران کشمیر میں ہی رہے۔ ’کیا ان لوگوں کو کوئی حق نہیں، انھیں کیوں اپنے ہی حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔‘

’پاکستانی‘ مہاجرین کا کیا ہو گا؟
جموں کشمیر میں فی الوقت تین طرح کے مہاجرین ہیں۔ ایک تو کشمیری پنڈت ہیں جو وادی چھوڑ کر دوسرے انڈین شہروں میں مقیم ہیں، دوسرے وہ دو لاکھ ہندو ہیں جو 1947 میں پاکستانی پنجاب سے جموں آئے تھے، انھیں یہاں ویسٹ پاکستانی رفیوجیز کہتے ہیں۔
تیسری قسم کے مہاجرین کی تعداد سب سے زیادہ ہے: پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر سے جموں آنے والے لوگ۔
کشمیری پنڈتوں اور ایل او سی کی دوسری جانب سے آئے ہندووٴں کے لیے اسمبلی نشستیں محفوظ کرنے کے فیصلے پر ویسٹ پاکستانی رفیوجی حیران بھی ہیں اور ناراض بھی۔
جموں میں مقیم ان کے ایک رہنما لابھا رام گاندھی نے بی بی سی کے ساتھ گفتگو کے دوران بتایا کہ ’حق تو ہمارا بنتا تھا۔ ہم خوش تھے کہ مودی سرکار نے ہمیں شہریت دی، ہمیں ووٹ دینے کا حق دیا، لیکن اب اسمبلی میں نمائندگی کا پہلا حق تو ہمارا تھا۔
’جو لوگ سرحد پار کر کے کشمیر سے آئے، ان کے وزیر بنتے رہے ہیں۔ انھیں سبھی حقوق حاصل ہیں، ہمیں کیا ملا؟‘
واضح رہے کہ ماضی میں وزارتی عہدوں اور اسمبلی کی نشستوں پر فائز رہنے والے کئی ایسے مہاجرین میں آر ایس چِب، رمن بھلا، سردار رنگیل سنگھ اور سردار ہربھنس سنگھ جیسے معروف سیاست دان شامل ہیں۔
24 سیٹوں کا معمّہ
مبصرین کہتے ہیں کہ کشمیر کی اسمبلی میں شروع سے ہی 24 سیٹیں محفوظ رکھنے کا مطلب یہ تھا کہ کسی نہ کسی وقت وہ کشمیر بھی انڈیا کا حصہ ہو گا۔
اس نظریے کو 1994 میں انڈین پارلیمان میں منظور کی گئی قرارداد سے تقویت ملتی ہے جس کے مطابق پاکستان کا زیرِ انتظام کشمیر بھی انڈیا کا ’اٹوٹ انگ‘ ہے۔
تاہم دو درجن محفوظ سیٹوں کے بارے میں دہائیوں سے ابہام رہا ہے اور یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ ان سیٹوں پر کون انتخاب لڑے گا۔
سینیئر صحافی شیخ قیوم کہتے ہیں کہ ’دہائیوں سے اقتدار اور اختیار کا مرکز کشمیر رہا ہے۔ بی جے پی نے تو ریکارڈ پر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگلا وزیراعلیٰ جموں سے ہو گا۔ پاور سینٹر کو سرینگر سے جموں منتقل کرنے کے لیے اسمبلی سیٹوں کی تعداد اہم ہے۔‘
تاہم بعض قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ اسمبلی کے لیے گورنر کے ذریعے نامزدگیوں پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔ ایک معروف وکیل نے نام ظاہر نہ کرنےکی شرط پر بتایا کہ ’اسمبلی کے لیے ممبران کی نامزگی ایک سیاسی عمل ہے۔
’گورنر آئینی سربراہ ہوتا ہے، وہ سیاسی تعیناتیاں کیسے کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے جو بھی ممبر نامزد ہو گا وہ ایوانِ حکمران جماعت کا مطیع فرمان ہو گا۔‘