تاجکستان میں حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ بدھ کو افغانستان سے ملحقہ سرحد پر جھڑپ کے دوران تین ’دہشت گرد‘ مارے گئے ہیں۔ جھڑپ کے دوران دو تاجک سرحدی گارڈز کی ہلاکت کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔ تاجک حکام کا مزید کہنا ہے کہ فی الحال سرحد پر حالات پرسکون ہیں اور اس واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔
تاجکستان میں حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ بدھ کو افغانستان سے ملحقہ سرحد پر جھڑپ کے دوران تین ’دہشت گرد‘ مارے گئے ہیں۔ جھڑپ کے دوران دو تاجک سرحدی گارڈز کی ہلاکت کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔
تاجکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’خاور‘ نے تاجکستان کی سکیورٹی کمیٹی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ مسلح افراد نے ضلع شمس الدین شوہین میں قووق کے علاقے میں منگل کو رات گئے تاجک سرحد عبور کی۔ یہ علاقہ سرچشمہ سرحدی چوکی کے کنٹرول میں ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اگلی صبح سرحدی گارڈز کو ان افراد کے ٹھکانے کا علم ہو گیا۔
رپورٹ کے مطابق دہشتگردوں نے تاجک سرحدی گارڈز کے احکامات پر ہتھیار ڈالنے سے انکار کرتے ہوئے فائرنگ شروع کر دی۔
حکام کا کہنا ہے کہ دہشتگرد سرحدی چوکیوں میں سے ایک پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تینوں دہشتگرد ایک فوجی آپریشن کے نتیجے میں مارے گئے جبکہ جائے وقوعہ سے کچھ ہتھیار اور گولہ بارود بھی قبضے میں لیا گیا۔
معافی کا مطالبہ
تاجکستان کے حکام نے اس واقعے پر افغانستان میں طالبان حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت دہشت گرد تنظیموں سے نمٹنے کے لیے اپنی بین الاقوامی ذمے داریاں پوری کرنے میں غیر سنجیدہ ہے اور بار بار غیر ذمے داری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔‘
تاجکستان کی سکیورٹی کمیٹی نے اُمید ظاہر کی ہے کہ طالبان حکومت اس واقعے پر تاجکستان کے عوام سے معافی مانگے گی اور سرحد پر سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات کرے گی۔
سکیورٹی کمیٹی نے دعویٰ کیا کہ تاجکستان کے پاس سرحد کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مکمل صلاحیتیں موجود ہیں، لہذا افغانستان سے سرحد پار کرنے کی کسی بھی کوشش کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
تاجک حکام کا مزید کہنا ہے کہ فی الحال سرحد پر حالات پرسکون ہیں اور اس واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔
تاجکستان، افغانستان سرحد پر بڑھتا ہوا تشدد
24 دسمبر کو ریڈیو لبرٹی کی تاجک سروس ’اوزودی‘ نے بھی اطلاع دی کہ تاجکستان اور افغانستان سرحد پر ہونے والی جھڑپ میں دو تاجک افسران اور کئی مسلح افغان باشندے مارے گئے ہیں۔
’اوزودی‘ نےہلاک ہونے والے دو اہلکاروں کیشناخت سرچشمہ فوجی یونٹ سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ عصمت اللہ قربانوف اور 33 سالہ زریبون نوروز بیکوف کے طور پر کی۔
گذشتہ ایک ماہ کے دوران تاجکستان اور افغانستان کی سرحد پر تشدد کا یہ تیسرا واقعہ تھا۔ نومبر کے آخر میں تاجکستان کے سرحدی اضلاع درووز اور شمس الدین شوہین میں دو حملوں میں تین چینی شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
تاجک حکام نے اسے دہشت گردی کی کارروائیاں قرار دیا تھا۔ بیجنگ نے تاجکستان سے ان دونوں واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
تاجکستان نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ حملہ افغانستان کی جانب سے کیا گیا اور اس میں گرنیڈ سے لیس ایک بغیر پائلٹ کے طیارے یعنی ڈرون کا استعمال کیا گیا۔

طالبان حکومت نے اس حملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ تاجکستان میں چینی شہریوں پر ہونے والا حملہ اُن گروہوں کی کارروائی ہے جو خطے کے ممالک کے درمیان انتشار، عدم استحکام اور بےاعتمادی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تاہم طالبان وزارتِ خارجہ کی جانب سے سامنے آنے والے اس بیان میں کسی بھی ملک یا گروہ کا براہِ راست نام نہیں لیا گیا تھا۔
طالبان حکومت کی جانب سے اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانیوں کے باوجود تاجکستان، سرحد کے ساتھ سمگلرز اور مسلح گروہوں کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کرتا رہتا ہے۔
تاجک آزاد نیوز پورٹل ’پامیر انسائیڈ‘ کے مطابق 24 دسمبر کے حملے میں ہلاک ہونے والوں میں ایک سرحدی دستوں کے لیفٹیننٹ کرنل زیریبن نوروز بیکوف بھی شامل تھے۔

سرحدی چوکیاں
تاجکستان اور افغانستان کی سرحد پر تازہ ترین واقعہ اسی روز پیش آیا، جب تاجکستان نے افغانستان کے ساتھ سرحد پر چار نئی چوکیاں قائم کیں۔
تاجک صدر کے دفتر کے مطابق 24 دسمبر کو صدر امام علی رحمان نے دیگر سکیورٹی ایجنسیوں کے سربراہان کے ہمراہ سرحد پر سہولیات کے افتتاح کے لیے ایک آن لائن تقریب میں شرکت کی۔
نئی سرحدی چوکیاں افغانستان کے ساتھ سرحد کے پہاڑی اور دشوار گزار علاقوں میں تعمیر کی گئی ہیں، یہ ان علاقوں میں بنائی گئی ہیں، جہاں سے دراندازی اور سمگلنگ کے خطرات زیادہ ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حالیہ برسوں میں، سرکاری معلومات کے مطابق سرحد پر 80 سرحدی چوکیاں تعمیر کی گئی ہیں۔
حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ تاجکستان نے افغانستان کی سرحد کے قریب ٹینکوں کی تربیت کا مرکز بھی قائم کیا۔
’پامیر انسائیڈر‘ کے مطابق یہ سارے اقدامات چین کی جانب سے تاجکستان میں اس کے شہریوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کے تناظر اور تاجکستان سے اس معاملے پر سخت کارروائی کے مطالبے کے بعد سامنے آئے ہیں۔
تاجکستان کی افغانستان کے ساتھ 1344 کلو میٹر طویل سرحد ہے اور پہاڑی علاقے کی وجہ سے اس کے مکمل تحفظ کو یقینی بنانا مشکل ہے۔
تاجکستان افغانستان سے مغربی یورپ تک منشیات کی سمگلنگ کے اہم راستے پر واقع ہے۔