مودی کا ایک کروڑ گھروں کے لیے سولر لگانے کا اعلان: انڈیا میں سولر پاکستان سے تقریباً تین گنا سستا کیسے ہے؟

پاکستان میں انڈیا کے مقابلے صورتحال یکسر مختلف ہے اور یہاں تین کلوواٹ کا سولر سسٹم پانچ سے چھ لاکھ کے درمیان دستیاب ہے جبکہ پانچ کلو واٹ کے سسٹم کی قیمت سات سے نو لاکھ کے درمیان ہے۔ آخر قیمتوں میں اس فرق کی وجہ کیا ہے؟

شمسی توانائی اب دنیا بھر کے لوگوں کے لیے کوئی نئی چیز نہیں رہی اور انڈیا میں ایک عرصے سے توانائی کی ضروریات پوری کرنے اور کاربن اخراج کو کم کرنے کی جانب نہ صرف حکومت بلکہ عوام کی بھی توجہ مبذول ہو رہی ہے۔

22 جنوری کو بابری مسجد کی جگہ تعمیر ہونے والے رام مندر کے افتتاح کے بعد شام گئے وزیراعظم نریندر مودی نے اس سلسلے میں ایک بڑا اعلان کیا۔

انھوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’ایودھیا سے واپسی کے بعد میں نے پہلا فیصلہ یہ کیا ہے کہ ہماری حکومت ایک کروڑ گھروں کی چھتوں پر سولر پینل لگانے کے ہدف پر عملدرآمد شروع کرے گی۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’اس سے نہ صرف غریب اور متوسط طبقے کے بجلی کے بل میں کمی آئے گی بلکہ انڈیا کو توانائی کے شعبے میں خود انحصاری بھی حاصل ہو گی۔‘

سولر
Getty Images

انڈیا میں سولر سسٹم کے لیے کتنا خرچ آتا ہے؟

اگر آپ انڈیا میں ہیں اور اپنے گھر میں شمسی توانائی سے بجلی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے مختلف کمپنیاں اپنی خدمات فراہم کر رہی ہیں۔

آن لائن مصنوعات فروخت کرنے والی ویب سائٹ ’ایمازون‘ پر کم سے کم قیمت والا سولر سسٹم 25 ہزار روپے میں لگانے کی پیشکش کی جا رہی ہے جس میں ایک چارج کی جانے والی بیٹری، ایک انورٹر اور ایک سولر پینل ہو گا جس کے لیے کم از کم 80 مربع فٹ چھت کا رقبہ ہونا چاہیے۔

اسے مکان، دکان اور دفتر کے لیے بوقت ضروت قابل عمل بتایا جا رہا ہے لیکن جب ہم نے توانائی کے شعبے کی دیگر مصنوعات کی مارکیٹنگ کرنے والے ایک جرمن اور انڈین کمپنی کے معاون محمد عبدالحفیظ سے رابطہ کیا تو انھوں نے انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 25 ہزار والے سولر سسٹم پر ’زیادہ سے زیادہ ایک بلب اور ایک پنکھا ہی چل سکتا ہے اور کسی گھر کے لیے مناسب اور اچھا سولر سسٹم ڈیڑھ لاکھ روپے میں لگ سکتا ہے جس میں تین کلو واٹ بجلی کی فراہمی ہو گی۔‘

’اسی طرح پانچ کلو واٹ کے سولر سسٹم کے لیے تقریبا ڈھائی لاکھ انڈین روپے تک کے اخراجات آئیں گے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اب تک انڈیا میں عام قسم کی بیٹریاں اور انورٹر تو بنتے رہے ہیں لیکن اب ٹاٹا گروپ اور اڈانی گروپ جیسی بڑی کمپنیوں نے سولر پینل تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں ان کے پلانٹس بھی وجود میں آئے ہیں۔

تاہم پہلے سولر پینلز بطور خاص چین سے درآمد کیے جاتے تھے اور اب بھی کیے جا رہے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ان کی قیمتیں کم ہوئی ہیں اور ماحول دوست ہونے کے سبب انڈیا میں اس کی بہت طلب ہے۔

سولر
Getty Images

انڈیا میں سولر سستا، پاکستان میں مہنگا کیوں؟

پاکستان میں صورتحال یکسر مختلف ہے اور یہاں تین کلوواٹ کا سولر سسٹم پانچ سے چھ لاکھ کے درمیان دستیاب ہے جبکہ پانچ کلو واٹ کے سسٹم کی قیمت سات سے نو لاکھ کے درمیان ہے۔

بی بی سی اردو کے روحان احمد نے اسلام آباد میں سولر پینلز کے کام سے منسلک کمپنی ریوٹیک الیکٹرک اینڈ سولر سروس کے مالک انجینیئر آفتاب جان سے بات کی۔

انھوں نے بتایا ہے کہ ’انڈیا اور پاکستان میں سولر سسٹمز کی قیمتوں میں سب سے بڑا فرق تو دونوں ملک کی کرنسیوں کی قدر میں پایا جانے والا فرق ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا میں تو شاید تین کلو واٹ کا سولر سسٹم ڈیڑھ لاکھ روپے میں نصب ہونا ممکن ہے لیکن پاکستان میں ایسا بالکل ناممکن ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں ایسے سسٹم کے لیے سستے سے سستا انورٹر جو دستیاب ہو گا اُس کی قیمت 75 ہزار روپے ہے اور بیٹری تقریباً 20 سے 25 ہزار روپے کی لگا لیں، باقی سولر پینلز وغیرہ کا خرچہ اس میں شامل کریں تو یہ انڈیا کے مقابلے میں اچھا خاصا مہنگا ہو جاتا ہے۔‘

ان کے مطابق سولر سسٹم میں استعمال ہونے والی اشیا بیرونِ ملک سے درآمد کی جاتی ہیں اور اس پر امریکی ڈالر کی قیمتوں کا اثر بھی پڑتا ہے۔

انجینیئر آفتاب نے مزید کہا کہ ’سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان امپورٹرز پر نظر رکھنے کے لیے کوئی ریگولیٹری اتھارٹی موجود نہیں جو قیمتوں پر نظر رکھے اور یہ دیکھے کون کتنا منافع کما رہا ہے۔‘

گھروں پر سولر سسٹم کا رواج عام ہو رہا ہے
Getty Images
سولر پینلز کے سستے ہونے کی وجہ سے گھروں پر سولر سسٹم لگانے کا رواج اب عام ہو رہا ہے

کیا انڈیا چین پر انحصار کیے بغیر سولر پینلز بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟

اس سلسلے میں اڈانی گروپ کی ویب سائٹ اڈانی سولر پر یہ بات کہی گئی ہے کہ ’اڈانی سولر، اڈانی گروپ کا سولر پی وی مینوفیکچرنگ ونگ ہے، جو انڈیا میں ایک متنوع تنظیم ہے اور یہ عوامی طور پر تجارت کرنے والی 9 کمپنیوں پر مشتمل ہے۔‘

اس میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ ’اڈانی سولر 4 گیگا واٹ مینوفیکچرنگ کی صلاحیت کے ساتھ انڈیا کی پہلی اور سب سے بڑی کمپنی ہے جو فوٹو وولٹک مینوفیکچرنگ کے میدان میں خدمات کے ساتھ اس کی مصنوعات بھی پیش کرتی ہے۔‘

اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ فی الحال اڈانی سولر انڈیا کی مغربی ریاست کے شہر مندرا میں 10 گیگا واٹ سولر پی وی مینوفیکچرنگ کا دنیا کا پہلا مکمل مربوط اور جامع ایکو سسٹم بنا رہا ہے۔

انڈیا کی ایک اور کمپنی ٹاٹا پاور سولر بھی اس شعبے میں تقریبا تین دہائیوں سے خدمات انجام دے رہی ہے اور اس کے بھی اپنے مینوفیکچرنگ یونٹ ہیں۔

اس کا کہنا ہے کہ وہ انڈیا سمیت دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اپنی خدمات فراہم کر رہی ہے۔ انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ کے صرف ایک ضلع میں اس نے سات ہزار سے زیادہ مقامات پر 10۔8 میگاواٹ روف ٹاپ سولر سسٹم لگائے ہیں۔

اس کے علاوہ دوسری ریاستوں میں اس نے حکومت کے ساتھ مشترکہ معاہدے کر رکھے ہیں جن کے تحت یہ کمپنی خدمات سرانجام دے رہی ہے۔

ان دونوں کمپنیوں کے علاوہ ملک میں متعدد دوسری کمپنیاں بھی شمسی توانائی پر مبنی سروسز فراہم کرتی ہیں۔ ان میں سے ٹاٹا سمیت کئی کمپنیاں دوسرے ممالک میں بھی خدمات فراہم کر رہی ہیں۔ ان میں سرووٹیک پاور سسٹم، واری انرجیز، وکرم سولر اور گولڈی سولر جیسی کمپنیاں شامل ہیں۔

ہم نے ٹاٹا پاور سولر سے رابطے کی کوشش کی تو ہمیں بتایا گيا کہ ان کے ڈیلرز آپ کی ضرورت اور گھر یا مجوزہ علاقے کا دورہ کرنے کے بعد ہی اخراجات کا تخمینہ پیش کر سکتے ہیں اور وہ کم سے کم سولر سسٹم پر آنے والے اخراجات کے بارے میں بتانے کے مجاز نہیں۔

محمد عبد الحفیظ نے بتایا کہ عام طور پر آف گرڈ اور آن گرڈ دو طرح کے سولر سسٹم لگائے جا رہے ہیں اور دونوں کے اخراجات میں فرق ہے۔

زراعت
Getty Images
سولر سسٹم سے جہاں فضائی آلودگی سے نجات حاصل ہو گی وہیں توانائی کے لیے یہ ایک قابل عمل متبادل ہے

’ہم نے تو صرف 31 ہزار روپے کا ڈرافٹ جمع کرایا تھا‘

انڈیا میں اس سے قبل مختلف ریاستیں شمسی توانائی سے بجلی حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کر رہی تھیں اور اس کے لیے ان کے ہاں مختلف قسم کی سکیمیں بھی رہی ہیں۔

مثال کے طور پر شمالی ریاست بہار میں سنہ 2005 کے بعد گاؤں میں سولر لیمپ پوسٹس لگائے گئے جس پر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 35 سے 45 ہزار روپے ادا کیے گئے جبکہ سرکاری امداد سے گھروں میں بھی سولر سسٹم نصب کیے گئے۔

ہم نے بہار کے نانپور بلاک کے بڑے گاؤں جانی پور کے رہائشی اور استاد روہت کمار سے بات کی، جن کے ہاں یہ سسٹم سنہ 2017 میں لگا تھا اور اب تک کامیابی کے ساتھ کام کر رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ سرکار کی رعایتی سکیم کے تحت ان کے گاؤں میں چار گھروں میں یہ سہولت فراہم کی گئی تھی۔ انھوں نے اپنی جانب سے اس کے لیے 31 ہزار روپے کا ڈرافٹ جمع کرایا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ انھیں ایک کلو واٹ بجلی کا نظام فراہم کیا گيا تھا جس میں چار بیٹریاں، انورٹر اور متعدد سولر پینلز دیے گئے تھے۔ اس نظام کے لگنے کے بعد پانی کو چھت پر پہنچانے کے لیے موٹر پمپ بھی چل جاتے تھے۔ چار پنکھے چھ گھنٹوں تک چل سکتے ہیں جبک اس کے ساتھ بیک وقت آٹھ دس بلب بھی روشن ہو سکتے ہیں۔

شمسی توانائی کے نظام کے فوائد کو دیکھتے ہوئے نانپور کے ایک اور رہائشی محمد اشتیاق نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے تین سولر پینلوں پر مشتمل ایک سولر سسٹم لگایا۔

اس کے لیے ایک پینل انھیں ساڑھے سات ہزار روپے کا آیا تھا جبکہ ایک اچھی بیٹری کم از کم 15 ہزار روپے میں آتی ہے اور اچھا انورٹر تقریباً 10 ہزار روپے کا آتا ہے۔ اس طرح 50 ہزار روپے میں انھوں نے سنہ 2014 میں اپنے یہاں سولر سسٹم نصب کرایا تھا جسے اب انھوں نے ہٹا دیا کیونکہ ان کے ہاں بجلی کی فراہمی کی حالت بہتر ہوئی ہے اور اب صرف انورٹر سے ان کی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں۔

اب جبکہ انڈیا کے وزیر اعظم نے ایک کروڑ گھروں میں بجلی کے بل میں بچت اور مستقل بجلی کی فراہمی کے لیے سولر سسٹم لگانے کی بات کہی ہے تو اس سے دور دراز کے گاؤں کے ساتھ ساتھ شہروں میں بھی بجلی کی فراہمی کی صورت حال میں بہتری کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔

تونائی کے شعبے میں کام کرنے والے محمد عبدالحفیظ کا کہنا ہے کہ یہاں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ حکومت کس قدر پائیدار سسٹم فراہم کرتی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts