انیسوِں صدی کے امیر ممالک میں شامل وہ ملک جہاں اب گوشت کھانا بھی خواب بنتا جا رہا ہے

تقریباً سو سال پہلے تک ارجنٹینا دنیا کے امیر ممالک میں سے ایک تھا۔ اس کی دولت کا انحصار گوشت کی برآمد پر تھا مگر اب صورتحال یہ ہے کہ یہاں لوگوں کے لیے گوشت کا استعمال بھی خواب سا بنتا جا رہا ہے۔
سمیر کو لگتا ہے کہ صدر ملے لوگوں کی مشکلات کو سمجھتے ہیں
Getty Images
اوریانا اور سمیر نے حالیہ انتخابات میں صدر ہاویئیر میلی کو ووٹ دیا تھا

تقریباً سو سال پہلے تک ارجنٹینا دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک تھا۔ یہ فرانس اور جرمنی سے بھی زیادہ امیر ملک تھا۔

ارجنٹینا کی اس دولت کا انحصار گوشت کی برآمد پر تھا جس کی سب سے بڑی منڈی برطانیہ تھی مگر اس بات کو اب سو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ برسوں سے جاری معاشی بحران کے باعث اب یہ امیر ممالک کی فہرست میں 70ویں نمبر پر ہے اور وہ ملک جو گوشت کی درآمد کے لیے جانا جاتا تھا، وہاں لوگوں کے لیے اس کا استعمال ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔

اوریانا اور سمیر ایک نوجوان جوڑا ہے جو دارالحکومت بیونس آئرس کے ایک غریب علاقے میں رہتے ہیں۔

اوریانا کہتی ہیں کہ حالات بہت مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔ ’آپ مسلسل خود سے سوال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آیا ہم اپنے خرچے پورے کر پائیں گے۔ میرا گزارا کیسے ہو گا؟ ہم گوشت کی پیداور کے لیے جانے جاتے ہیں مگر ہم صرف مرغی کھا پاتے ہیں کیونکہ یہ سستی ہے۔‘

مگر مہنگائی کی وجہ سے مرغی بھی ایک آسائش بن گئی ہے۔ پچھلے سال ارجنٹینا کی شرحِ نمو تقریباً 211 فیصد رہی۔ صرف دسمبر کے مہینے میں ہی مہنگائی میں %25 اضافہ دیکھنے میں آیا۔

اوریانا اور سمیر ایک چھوٹے سے فلیٹ میں اپنی بیٹی کے ساتھ رہتے ہیں مگر اس گھر میں صرف یہ افراد رہائش پذیر نہیں، سمیر کے والدین اور ان کا بھائی بھی اس ہی فلیٹ میں رہتے ہیں۔

بلوں کی ادائیگی ایک مسلسل فکر کی وجہ ہے۔ کھانے پینے کا سامان، کرایہ، بجلی، ٹرانسپورٹ، غرض یہ کہ ہر چیز کی قیمت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

سمیر ڈیلیوری کا کام کرتے ہیں مگر بڑھتے معاشی مسائل کا مطلب ہے طلب میں کمی۔ ان کی کمائی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے مقابلہ نہیں کر پا رہی۔

سڑکوں پر بڑھتی بے چینی بھی ان کے لیے فکر کا سبب ہے۔ ’لوگ آپ کو فقط ایک فون کے لیے قتل کر سکتے ہیں۔‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ارجنٹینا کی 40 فیصد آبادی غربت کی شرح کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے مگر بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کی اصل شرح اس سے کہیں زیادہ ہے۔

حالیہ انتخابات میں، سمیر اور اوریانا، دونوں نے ارجنٹینا کے دائیں بازو کے لیڈر ہاویئر میلی کو ووٹ دیا۔ پچھلے سال وہ %55 ووٹ لے کر حکومت میں آئے ہیں۔

سمیر کو لگتا ہے کہ صدر ہاویئر لوگوں کی مشکلات کو سمجھتے ہیں۔ ’مجھے لگتا ہے کہ ارجنٹینا کو مہنگائی سے نمٹنے کے لیے ان جیسے ہی کسی کی ضرورت ہے۔‘

کلاڈیو پائیز کہتے ہیں کہ اگر مزید تین ماہ تک حالات ایسے ہی رہے تو وہ مشکل میں پڑ سکتے ہیں
BBC
ایک وقت تھا جب کلاڈیو کی درجن بھر کے قریب مٹھائیوں اور گروسری کی دکانیں تھیں

لیکن ہر کوئی اس سے متفق نہیں۔ ایک وقت تھا کہ کلاڈیو پائیز کی درجن بھر کے قریب مٹھائیوں اور گروسری کی دکانیں تھیں۔ اب یہ کم ہو کر صرف دو رہ گئی ہیں۔ ان کو ڈر ہے کہ حالات مزید ابتر ہونے جا رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر مزید تین ماہ تک حالات ایسے ہی رہے تو میں مشکل میں پڑ جاؤں گا اور میں اپنے خرچے بھی پورے نہیں کر پاؤں گا۔‘

ارجنٹینا میں لوگ زندہ رہنے کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈنے پر مجبور ہیں۔ کلاڈیو کی دکان سے کچھ ہی فاصلے پر ایک شخص اپنی گاڑی میں انڈے رکھ کر بیچ رہا ہے۔ وہ ایک ڈالر میں ایک درجن انڈے بیچ رہا ہے۔

کم قیمت کی وجہ سے اس کے پاس گاہکوں کی قطار ہے مگر پولیس چھاپے کے ڈر سے وہ یہاں زیادہ دیر رک نہیں سکتا۔

بیونس آئرس کی گلیاں آج بھی انیسویں صدی میں تعمیر کی جانے والی عالیشان عمارتوں سے مزین ہیں مگر وہیں ان گلیوں میں پتھاروں، ڈلیوری رائیڈرز اور غیر سرکاری ٹیکسیوں کی بھرمار ہے۔

سالٹا نیشنل یونیورسٹی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی افرادی قوت کا نصف سے زیادہ حصہ غیر رسمی شعبے سے منسلک ہے۔

اس کے علاوہ پچھلے سال قانون میں کی جانے والی ترامیم کے بعد سے ارجنٹینا میں ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے جو انکم ٹیکس دیتے ہیں۔ ایسے ملک کے لیے جو شدید مالی بحران سے گزر رہا ہو، یہ کوئی اچھی خبر نہیں۔

صدر میلی آزاد منڈیوں اور معیشت میں ریاست کے کم سے کم مداخلت کے حامی ہیں
Getty Images
ہاویئر میلی پچھلے سال%55 ووٹ لے کر حکومت میں آئے ہیں

دراصل اس وقت ارجنٹینا اپنی آمدن سے کہیں زیادہ خرچ کر رہا ہے۔ 44 ارب ڈالر کی خطیر رقم کے ساتھ ارجنٹینا اس وقت آئی ایم ایف کا سب بڑا مقروض ملک ہے۔

ارجنٹینا کے صدر کا دعوٰی ہے کہ ان کے پاس ان معاشی مسائل کا حل موجود ہے۔ صدر ہاویئر آزاد منڈیوں اور معیشت میں ریاست کے کم سے کم مداخلت کے حامی ہیں۔

انتخابی مہم کے دوران ہاویئر کو اس وقت کافی توجہ ملی جب انھوں نے ایک ریلی کے دوران مشینی آڑی لہرائی۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد اخراجا ت میں کمی لائیں گے۔

ان کے انتخابی وعدوں میں سے ایک مقامی کرنسی پیسو کو ختم کر کے اس کی جگہ ڈالر کو متعارف کروانا بھی تھا۔ مگر فی الحال ان وعدوں پر عملدرآمد کا امکان نہیں کیونکہ خود حکومت کے پاس ڈالرز کی کمی ہے۔

ارجنٹینا میں لوگ زندہ رہنے کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈنے پر مجبور ہیں
BBC
کہا جاتا ہے کہ غیر رسمی معیشت ارجنٹینا کی تقریباً نصف افرادی قوت کو ملازمت دیتی ہے

ان کا اگلا ہدف قومی خزانے کے اخراجات میں کمی لانا ہے۔ اس کے متعلق بلز کانگریس میں زیرِ التوا ہیں۔

تجزیہ کار سرجیو بیرنزٹائن کہتے ہیں کہ ’پچھلے 30 سال سے ہم پاگلوں کی طرح پیسے چھاپ رہے ہیں، جس کی وجہ سے مہنگائی کی شرح اتنی زیادہ ہے۔ اب پہلی بار، ہمارے پاس ایک ایسا صدر ہے جو اس مسئلے کو سمجھتا ہے۔‘

ان کے مطابق بجٹ میں توازن اس کا واحد حل ہے حالانکہ حکومت کی جانب سے اس کا وعدہ کیا تو گیا ہے مگر یہ آسان کام نہیں ہوگا۔

مگر یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ صدر میلی کو ووٹرز کی طرف سے واضح ذاتی مینڈیٹ حاصل ہے لیکن کانگریس میں ان کے پاس اکثریت نہیں۔

صدر ہاویئیر میلی کو کانگریس میں اکثریت حاصل نہِیں
Getty Images
29 جنوری 2024 کو بیونس آئرس میں لیا گیا نیشنل کانگریس کی عمارت کا فضائی منظر

ان کی پارٹی 2021 کے انتخابات میں صرف 15 فیصد سیٹیں حاصل کر سکی تھی۔ اس کے علاوہ، ملک میں ٹریڈ یونینوں کی شکل میں طاقتور اپوزیشن موجود ہے۔ انھوں نے گزشتہ ہفتے عام ہڑتال کی کال دی تھی اور ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے منعقد کیے۔

جوآن کروز ڈیاز کا تعلق ایک ایڈوائزری فرم سیفیڈاس گروپ سے ہے۔ ان کو خدشہ ہے کہ ان مجوزہ تبدیلیوں کے اثرات بہت نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’زیادہ تر افراد جنھوں نے صدر میلی کو ووٹ دیا تھا، وہ تبدیلی چاہتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ معیشت اور ریاست کے لیے اس آزادی پسندانہ نقطہ نظر کی حمایت کرتے ہیں۔‘

اگلے ہفتے، کانگریس میں صدر کی جانب سے پیش کیے جانے والے منصوبے پر رائے شماری ہو گی لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ صدر کی جانب سے پیش کیے جانے والے منصوبے منظور ہو جائیں گے۔

اور اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ ان اقدامات سے مہنگائی کی شرح پر کوئی فرق پڑے گا اور یہی واحد چیز ہے جو لوگوں کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔

ڈیاز کے مطابق ’حالات کو سدھارنے اور لوگوں کو بہتر محسوس کروانے کے لیے صدر کے پاس صرف چند مہینے ہی ہیں۔ ان کا سیاسی ہنی مون بہت مختصر ہونے کا امکان ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow