ڈی ایچ اے اسلام آباد میں سیلاب سے بہہ جانے والی کار: شہروں میں ’اربن فلڈنگ‘ کے چار خطرات اور ان سے بچاؤ کا طریقہ

اسلام آباد پولیس کے مطابق اس گاڑی میں ایک ریٹائرڈ کرنل اور ان کی بیٹی سوار تھے اور تاحال گاڑی کا کوئی سراغ نہیں ملا اور اس حوالے سے ریسکیو آپریشن اب بھی جاری ہے۔ یہ منظر اس خوفناک حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ اب سیلاب اور اس کی تباہ کاریاں صرف پہاڑی علاقوں اور دریاؤں کے گرد موجود علاقوں تک ہی محدود نہیں رہیں بلکہ اب یہ شہروں میں موجود بڑی بڑی سوسائٹیز کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔

سیلابی پانی نے سرمئی رنگ کی سیڈان کار کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور اب یہ تیزی سے بہتی ہوئی تیز پانی کا جانب جا رہی تھی۔ گاڑی کے ایک شیشے سے ایک ہاتھ بظاہر مدد کے لیے اشارہ کر رہا تھا اور یہ بے بسی کی تصویر آس پاس موجود افراد کے کیمرے میں فلم بند ہو رہی تھی۔ مگر اس وقت کسی کے لیے بھی ان کی مدد کو پہنچنا مشکل تھا۔

آج پاکستان میں لوگوں کی صبح سوشل میڈیا پر اس افسوس ناک ویڈیو کو دیکھنے سے ہوئی جو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی (ڈی ایچ اے) کے فیز فائیو کی ہے۔

اسلام آباد پولیس کے مطابق اس گاڑی میں ایک ریٹائرڈ کرنل اور ان کی بیٹی سوار تھے اور تاحال گاڑی کا کوئی سراغ نہیں ملا اور اس حوالے سے ریسکیو آپریشن اب بھی جاری ہے۔

یہ منظر اس خوفناک حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ اب سیلاب اور اس کی تباہ کاریاں صرف پہاڑی علاقوں اور دریاؤں کے گرد موجود علاقوں تک ہی محدود نہیں رہیں بلکہ اب یہ شہروں میں موجود بڑی بڑی سوسائٹیز کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔

اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور میں سیلابی پانی میں بہتی گاڑیاں تو اب جیسے ایک معمول بن چکی ہیں۔ اس کے ساتھ بجلی کے کھمبوں سے کرنٹ لگنے کے باعث ہونے والی ہلاکتیں، برساتی نالوں میں اچانک تغیانی اور پھر سولر پینلز گرنے کے واقعات شہروں میں رہنے والوں کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔

یہاں یہ بتاتے چلیں کہ آفات سے نمٹنے والے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) کے مطابق وفاقی دارالحکومت اس کے گردونواح اور پنجاب کے مختلف شہروں میں حالیہ بارشوں کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد 138 ہو گئی ہے جبکہ ان بارشوں کی وجہ سے نہ صرف بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے بلکہ لوگوں کی کروڑوں روپے مالیت کی املاک بھی اربن فلڈنگ کی نظر ہو گئی ہیں۔

ادھر صوبہ پنجاب میں اربن فلڈنگ کی وارننگ جاری کی گئی ہے اور ابھی بھی پورے صوبے میں رین اینڈ فلڈ ایمرجنسی نافذ ہے۔

آئیے آپ کو ان خطرات کے بارے میں بتاتے ہیں جو اربن فلڈنگ کے دوران بڑھ سکتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ان سے بچاؤ کیسے ممکن ہے۔

لیکن پہلے یہ جانتے ہیں کہ ریٹائرڈ کرنل اسحاق قاضی اور ان کی بیٹی کی گاڑی کا سراغ لگانے میں اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے۔

Islamabad car
Getty Images
وہ لمحہ جب 21 جولائی کو ریسکیو حکام اسلام آباد میں سیلاب کی زد میں آنے والی ایک گاڑی کو نکال رہے تھے

باپ بیٹی کو بچانے والے آپریشن میں اتنی دیر کیوں لگ رہی ہے؟

ریٹائرڈ کرنل اور ان کی بیٹی کی تلاش کے لیے ریسکیو ٹیموں کے علاوہ نیوی کے غوطہ غور بھی کام کر رہے ہیں۔

امدادی کاموں میں مصروف ریسکیو کے اہلکار صبغت اللہ کا کہنا تھا کہ 'جس نالے میں ان کی گاڑی گری ہے اس کو پانچ سو میٹر تک کنکریٹ سے ڈھکا ہوا ہے۔'

انھوں نے کہا کہ 'کنکریٹ کے نیچے بھی جا کر دیکھ لیا ہے لیکن وہاں پر بھی نہ تو گاڑی کا کوئی سراغ نہ ملا ہے اور نہ ہی باپ بیٹی کا۔'

انھوں نے کہا کہ پانی کا بہاؤ اتنا تیز ہے کہ 'مشکل دکھائی دیتا ہے کہ وہ گاڑی سمیت اس نالے میں موجود ہوں۔'

انھوں نے کہا کہ 'اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ پانی کا بہاؤ گاڑی سمیت ان دونوں کو لنگ نالےمیں لے گیا ہو گا اور اس کے بعد لنگ نالہ بھی دریائے سواں میں گرتا ہے۔'

صبغت اللہ کا کہنا تھا کہ غروب آفتاب کے بعد بھی ریسکیو ورک جاری رہے گا۔

اربن فلڈنگ: برساتی نالوں میں تغیانی کا بڑا خطرہ

شہروں کے مختلف علاقوں میں برساتی ندی نالے موجود ہوتے ہیں جن کا مقصد بارش کے پانی کی نکاسی ہوتی ہے۔

ریسکیو اور ریلیف کے کاموں میں حصہ لینے والے صبغت اللہ کا کہنا ہے کہ ’بدقسمتی سے ملک کے مختلف شہروں میں جو برساتی نالے بنائے گئے ہیں وہ ڈرین ایج سسٹم کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے گئے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بارشوں کے دوران ڈرین ایج سسٹم چوک ہونے کی وجہ زیادہ دباؤ برساتی ندی نالوں پر آ جاتا ہے اور ان ندی نالوں میں ان کی کپیسٹی سے زیادہ پانی آنے کی وجہ سے سیلاب کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پوٹھوہار ریجن میں فلش فلڈنگ ہوتی ہے جس میں پانی کا بہاؤ بہت ہی تیز ہوتا ہے جس کی بنیادی وجہ برساتی ندی نالوں کی صفائی نہ ہونا ہے جس کے باعث ان میں پانی سٹور کرنے کی گنجائش نہایت کم رہ جاتی ہے۔‘

پی ڈی ایم اے کے مطابق بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب میں سب سے زیادہ نقصان ان گھروں کا ہوتا ہے جو کہ برساتی نالوں کے ساتھ نشیبی علاقوں میں واقع ہیں۔

صبغت اللہ کا کہنا تھا کہ ’ان علاقوں میں رہنے والے افراد بارش کے بعد سیلابی صورت حال پر نظر رکھیں اور جب وہ گھر بنائیں تو اس چیز کا خیال رکھیں کہ کہیں ان کے گھر کی تعمیر سے نالوں میں پانی کا بہاؤ متاثر تو نہیں ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں اس علاقے میں ہیوی مشینری کی موومنٹ میں رکاوٹ نہ ہو۔‘

electricity poll
Getty Images

بجلی کے کھمبوں کا خطرہ

بارش کے دنوں میں کرنٹ لگنے کی وجہ سے لوگوں کی اموات کے بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور بارشوں کے دوران اکثر واپڈا اور پی ڈی ایم اے کی جانب سے مقامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر عوام کو یہ واضح پیغام دیا جاتا ہے کہ وہ بلاضرورت گھروں سے نہ نکلیں اور اپنے بچوں کو بجلی کے کھمبوں کے پاس نہ جانے دیں۔

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں بجلی کی ترسیل کھمبوں اور تاروں کے ذریعے ہی کی جاتی ہے اور بجلی کا یہ انفراسٹکچر اوپن ہونے کی وجہ سے اس بات کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں کہ سیلاب کے دوران بجلی کے کھمبوں کو چھونے سے جانی نقصان ہوسکتا ہے۔‘

صبغت اللہ کا کہنا تھا کہ ’17 جولائی کو راولپنڈی میں جو بارش ہوئی تھی اس کے بعد مختلف علاقوں میں پانی کھڑا ہو گیا تھا اور اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے انھوں نے واپڈا کے حکام سے درخواست کی کہ ان علاقوں میں بجلی کی سپلائی معطل کر دی جائے جہاں پر پانی کھڑا ہوا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’چونکہ پاکستان میں بجلی کی سپلائی کھمبوں کے ذریعے ہی ہوتی ہے اور اگر بارش کے دوران پانی کھڑا ہو جائے اور ان کھمبوں کو بجلی کی سپلائی انسولیٹر کے ذریعے ہوتی ہے اور اگر اس میں نقص پیدا ہو جائے تو پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے یہ کرنٹ زمین میں جانے کی بجائے پانی میں آ جاتا ہے اور کھبموں کو چھونے کی بجائے اس پانی میں جانے سے بھی موت واقعہ ہو سکتی ہے۔‘

jeep
Getty Images

’تیسرا بڑا خطرہ سڑکوں پر گاڑیاں کھڑی ہونا ہے‘

حالیہ دنوں میں ہونے والےشدید بارشوں کے دوران یہ دیکھا گیا ہے کہ سیلاب کا پانی نہ صرف سڑکوں پر جمع ہو گیا بلکہ وہاں پر کھڑی ہوئی کچھ گاڑیوں کو بھی اپنے ساتھ بہا لے گیا۔

صبغت اللہ کا کہنا تھا کہ محکمہ موسمیات کے مطابق اس سال 25 فیصد بارشیں زیادہ ہوں گی۔

انھوں نے کہا کہ ’عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جس سڑک پر تین فٹ سے زیادہ پانی کھڑا ہو جاتا ہے تو وہاں پر موجود ایسی گاڑیاں جن کا وزن کم ہوتا ہے وہ ان کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اربن فلڈنگ میں پانی کی سپیڈ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اگر آپ کی گاڑی پانی میں بہہ جائے تو انسانی ہاتھوں سے اس کو روکنا ناممکن ہو جاتا ہے اور یہ یہ صرف تب رکتی ہے جب اس کے سامنے کوئی بڑی رکاوٹ آ جائے۔‘

انھوں نے کہا کہ چونکہ گاڑی کے ٹائروں میں بھی ہوا ہوتی ہے اس لیے وہ گاڑی کوپانی پر فلوٹ کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر آپ کبھی ایسی صورتحال میں پھنسیں تو گاڑی کے شیشے بند رکھیں اور گاڑی کا پچھلا حصہ توڑ کر وہاں سے نکلنے کی کوشش کریں۔‘

انھوں نے کہا کہ اسلام آباد کے علاقے سید پور ویلج میں پیر کو بارش کے بعد جو گاڑی برساتی نالے میں گری اس کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ گاڑیبرساتی نالے کے قریب ہی کھڑی کی گئی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’ہر شخص کو اپنے گھر کے ادرگرد کے ماحول کا پتا ہوتا ہے اور اگر آپ کا گھر کسی ندی نالے یا نشیبی علاقے میں ہے تو اس کا سب سے بہتر حل یہی ہے کہ اپنی گاڑی کو گھر میں یا کسی محفوظ مقام پر پارک کریں۔‘

صبغت اللہ کا کہنا تھا کہ ’بہتر یہی ہوتا ہے کہ جس شخص کے پاس گاڑی ہے اس کو اپنی گاڑی میں لائف جیکٹ ضرور رکھنی چاہیے تاکہ ایسی ناگہانی صورت حال میں بچا جا سکے۔‘

buildings
Getty Images

مخدوش عمارتوں کا خطرہ

پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں ایسی عمارتیں موجود ہیں جن کی تعمیر کی معیاد ختم ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود ان عمارتوں میں لاکھوں افراد رہ رہے ہیں۔

مخدوش عمارتوں کے گرنے کے واقعات کے بعد تمام صوبائی حکومتوں نے اپنے اپنے علاقوں میں ایسی مخدوش عمارتوں کی نشاندہی کرنا شروع کر دی ہے اور ایسی عمارتوں میں رہنے والے متعدد افراد کو نوٹسز بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔

شدید بارشوں میں کسی بھی جانی اور مالی نقصان سے بچنے کا واحد حل تو ان عمارتوں کو خالی کرنا ہے لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔

محکمۂ موسمیات کی جانب سے بارہا یہ تنبیہ جاری کی جاتی ہے کہ تیز ہواؤں، آندھی اور طوفان کی صورت میں کچی عمارتوں کے در و دیوار گِرنے سے نقصان ہو سکتا ہے۔ رواں مون سون سیزن کے دوران ایسی درجنوں ہلاکتوں کی اطلاعات دی گئی ہیں۔

ان حالات میں حکومت کی کیا ذمہ داری ہے؟

سیلاب سے متعلق ضلعی انتظامیہ ارلی وراننگ سسٹم کے ذریعے لوگوں کو ممکنہ سیلاب سے متعلق آگاہ کرتی ہے اورسیلاب کی صورت میں لوگوں کو ریسکیو کرنے کے لیے ضلعی انتظامیہ کے پاس مطلوبہ سامان وافر مقدار میں ہونا چاہیے۔

اربن فلڈنگ میں شدت کے بعد ضلعی انتظامیہ سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے رییلیف کیمپ بھی قائم کرتی ہے اور جب ان علاقوں سے پانی اتر جاتا ہے تو انھیں گھروں کو جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔

سب سے اہم سوال یہ ہے کہسیلاب کے دوران کس موقع پر گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقام پر چلے جانا چاہیے؟

پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ ’جب گھروں میں دو سے تین فٹ تک پانی جمع ہو جائے اور اسں میں مسلسل اضافہ ہونے کا امکان ہو تو بہتر یہی ہوتا ہے کہ گھر کے افراد محفوظ مقام پر منتقل ہو جائیں۔‘

’گذشتہ ہفتے جو بارش ہوئی تھی اس کے بعد نالہ لئی سے ملحقہ نشیبی علاقوں میں گھروں میں چار فٹ سے بھی زیادہ پانی داخل ہو گیا تھا لیکن ان اہلِ علاقے نے اپنا گھر بار چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔‘

پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ ’راولپنڈی میں جب 2001 میں شدید سیلاب آیا تھا اور نالہ لئی میں پانی کی سطح 30 فٹ تک بلند ہو گئی تھی تو اس وقت نشیبی علاقوں میں رہنے والوں کو زبردستی ان کے گھروں سے نکالا گیا تھا۔‘

خیال رہے کہ سنہ 2001 میں اسلام آباد اور راولپنڈی میں ہونے والی شدید بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی اربن فلڈنگ کی وجہ سے متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow