احتساب عدالت کی جانب سے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد اکثر افراد یہ پوچھ رہے ہیں کہ جب عمران خان کو اس سے قبل سرکاری تحائف کے معاملے پر تین برس قید کی سزا ہوئی تھی (جسے بعد میں معطل کیا گیا) تو اب دوسری بار کس بنیاد پر سزا سنائی گئی۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ کیس کے تحائف کو مالیت سے کم قیمت پر خریدنے کے الزام میں 14، 14 سال قید کی سزائیں سنائی ہیں۔
عمران خان اور بشریٰ بی بی پر ایک ارب 57 کروڑ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے اور عمران خان کو عدالت کی جانب سے 10 سال کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ عمران خان کا 342 کا بیان ہی ریکارڈ نہیں کیا گیا جبکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کا بیان رات گئے ریکارڈ کیا گیا تھا۔
گذشتہ سال اگست کے دوران ایک ٹرائل کورٹ نے عمران خان کو خریدے گئے سرکاری تحائف سے ہونے والی آمدن اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے کے الزام میں تین سال قید کی سزا سنائی تھی جسے بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر دیا تھا۔
مگر آج جس مقدمے میں عمران خان اور ان کی اہلیہ کو قید کی سزا سنائی گئی وہ گذشتہ برس قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر کیے گئے ریفرنس کی نتیجے میں دی گئی جس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ پر غیر ملکی شخصیات سے ملنے والے تحائف کو مالیت سے کم قیمت پر خریدنے کا الزام تھا۔
احتساب عدالت کی جانب سے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد اکثر افراد یہ پوچھ رہے ہیں کہ جب عمران خان کو اس سے قبل سرکاری تحائف کے معاملے پر تین برس قید کی سزا ہوئی تھی (جسے بعد میں معطل کیا گیا) تو اب دوسری بار کس بنیاد پر سزا سنائی گئی۔
آئیے پہلے جانتے ہیں کہ آج سنائی گئی سزا کے بارے میں نیب کی جانب سے دائرکیے گئے ریفرنس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ پر کیا الزامات عائد کیے گئے تھے؟
توشہ خانہ کیس کا یہ معاملہ الگ کیوں؟
یکم اگست 2022 کو اس وقت کے چیئرمین نیب نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس پر تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
پانچ اگست 2022 کو ڈی جی نیب نے توشہ خانہ ریفرنس پر تحقیقات شروع کیں اور پھر لگ بھگ ایک سال بعد 14 جولائی 2023 کو توشہ خانہ کی تحقیقات تفتیش میں تبدیل ہو گئیں۔
ریفرنس کے مطابق بطور وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے غیر ملکی سربراہان سے 108 تحائف حاصل کیے جن میں سے انھوں نے 14 کروڑ روپے مالیت کے 58 تحائف اپنے پاس رکھے۔
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے سعودی ولی عہد سے موصول جیولری سیٹ انتہائی کم رقم کے عوض اپنے پاس رکھا تھا اور توشہ خانہ قوانین کے مطابق تمام تحائف توشہ خانہ میں رپورٹ کرنا لازم ہیں۔
ریفرنس کے مطابق ’دورانِ تفتیش معلوم ہوا کہ بشریٰ بی بی کا سعودی ولی عہد سے جیولری سیٹ تحفے میں ملا، یہ جیولری سیٹ ملٹری سیکریٹری کے ذریعے توشہ خانہ میں رپورٹ تو ہوا لیکن جمع نہیں کروایا گیا۔
’بشریٰ بی بی اور عمران خان نے توشہ خانہ قوانین کی خلاف وزری کی، دونوں نے اتھارٹی کا استعمال کرتے ہوئے جیولری سیٹ کی من پسند قیمت لگوائی۔‘
ریفرنس کے مطابق ’عمران خان اور بشریٰ بی بی نے جیولری سیٹ 90 لاکھ روپے کی رقم کی ادائیگی کے عوض وصول کیا۔
’قیمت کا اندازہ لگانے والے پرائویٹ فرد سے لگوائی گئی جیولری سیٹ کی قیمت انتہائی کم تھی۔ جیولری سیٹ کی اصل قیمت لگانے کے لیے دبئی کے ماہر سے بھی رابطہ کیا گیا۔‘
خیال رہے کہ نیب نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف گراف جیولری سیٹ کا ریفرنس فائل کیا تھا جس میں جیولری سیٹ میں نیکلس، ایئر رنگز، بریسلٹ اور ایک انگوٹھی شامل تھی۔
نیب کے مطابق ’جیولری سیٹ کی کل مالیت 1 ارب 57 کروڑ 40 لاکھ روپے تھی جس کی عمران خان اور بشریٰ بی بی نے 90 لاکھ رقم ادا کی تھی۔‘
یہ کیس اس سے قبل عمران خان کو توشہ خانہ فوجداری ریفرنس کے تحت ملنے میں والی سزا سے مختلف ہے جس کی تفصیلات درجِ ذیل ہیں۔
گذشتہ سال عمران خان کو سرکاری تحائف کے کس معاملے پر سزا ہوئی جسے معطل کیا گیا
توشہ خانہ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد اکثر افراد کی جانب سے یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ جب عمران خان کو اسے سے قبل توشہ خانہ کیس میں تین برس قید کی سزا سنائی گئی تھی تو اب دوسری مرتبہ سزا کیوں سنائی گئی ہے۔
ہمارے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق جس مقدمے میں عمران خان کو تین سال قید کی سزا دی گئی تھی وہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست کے نتیجے میں سامنے آئی تھی۔ بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے یہ فیصلہ معطل کر دیا گیا تھا۔
اس وقت سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی بیرسٹر محسن نواز رانجھا نے ان کے خلاف ایک ریفرنس دائر کیا جسے سپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔
ریفرنس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عمران خان نے سرکاری توشہ خانہ سے تحائف خریدے مگر الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اثاثہ جات کے گوشواروں میں انھیں ظاہر نہیں کیا، اس طرح وہ ’بددیانت‘ ہیں، لہٰذا انھیں آئین کے آرٹیکل 62 ون (ایف) کے تحت نااہل قرار دیا جائے۔
ریفرنس کی کاپی کے مطابق درخواست گزار نے کہا تھا کہ عمران خان پر قانونی طور پر لازم تھا کہ وہ ہر مالی سال کے آخر میں اپنے، اپنی اہلیہ اور زیر کفالت افراد کے تمام تر اثاثے چھپائے بغیر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرواتے۔
دستاویز میں یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ عمران خان نے ’جانتے بوجھتے‘ توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف کو چھپایا اور یہ کہ انھوں نے قبول کیا ہے جیسا کہ مختلف میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ انھوں نے یہ تحائف فروخت کیے۔ لیکن الیکشن کمیشن کے دستاویزات میں ان کی فروخت بھی چھپائی گئی۔
دستاویز کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کو اپنی حکومت کے دوران کل 58 تحائف ملے جن میں گراف کی ’مکہ ایڈیشن‘ گھڑی سمیت مختلف اشیا تھیں۔ یہ تحائف عمران خان نے توشہ خانہ سے 20 اور بعد ازاں 50 فیصد رقم ادا کر کے حاصل کیے۔
ان میں سے کئی ایسے ہیں جن کی لاگت 30 ہزار روپے سے کم تھی لہٰذا قانون کے مطابق وہ یہ تحائف مفت حاصل کر سکتے تھے جبکہ 30 ہزار سے زائد مالیت کے تحائف کی قیمت کا 20 فیصد (قانون میں تبدیلی کے بعد 50 فیصد) ادا کر کے حاصل کیے گئے۔
گذشتہ برس پانچ اگست کو اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں مجرم قرار دیتے ہوئے تین سال قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
عمران خان نے کون سے تحائف خریدے؟
عمران خان کی حکومت کے ابتدائی دو ماہ کے دوران لیے گئے ان تحائف میں گراف کی گھڑی شامل ہے، جس کی مالیت کا تخمینہ آٹھ کروڑ 50 لاکھ روپے لگایا گیا جبکہ اسی گفٹ سیٹ میں شامل دیگر تحائف میں 56 لاکھ 70 ہزار مالیت کے کف لنکس، 15 لاکھ مالیت کا ایک قلم اور 87 لاکھ 50 ہزار مالیت کی ایک انگوٹھی بھی شامل تھی۔
ان چار اشیا کے لیے عمران خان نے دو کروڑ روپے سے زائد رقم جمع کرائی اور یہ تحائف سرکاری خزانے سے حاصل کیے۔
اسی طرح رولیکس کی ایک گھڑی جس کی مالیت 38 لاکھ تھی، عمران خان نے یہ ساڑھے سات لاکھ کے عوض خریدی۔
رولیکس ہی کی ایک اور گھڑی جس کی مالیت 15 لاکھ روپے لگائی گئی، سابق وزیراعظم نے تقریباً ڈھائی لاکھ میں خریدی۔
اسی طرح ایک اور موقع پر گھڑی اور کف لنکس وغیرہ پر مشتمل ایک باکس کی کل مالیت 49 لاکھ تھی، جس کی نصف رقم ادا کی گئی جبکہ جیولری کا ایک سیٹ 90 لاکھ میں خریدا گیا جس کی مالیت ایک کروڑ 80 لاکھ سے زائد مختص کی گئی تھی۔
دستاویر کے مطابق وہ گھڑی جس کے بارے میں یہ الزام ہے کہ اسے بیچ دیا گیا، وہ بھی الیکشن کمیشن کے گوشواروں میں درج نہیں کی گئی۔
خیال رہے کہ یہ گھڑی سابق خاتون اول بشریٰ بی بی نے سعودی عرب کے پہلے دورے کے دوران تحفے کے طور پر لی تھی۔ اس کی مالیت 85 ملین بتائی گئی ہے جسے توشہ خانے سے 20 فیصد ادائیگی کے بعد لیا گیا۔
توشہ خانہ کیا ہے؟
توشہ خانہ یا سٹیٹ ریپازیٹری کا نام تو آپ نے اس سارے معاملے کے دوران بار بار سنا ہو گا۔ یہ دراصل ایک ایسا سرکاری محکمہ ہے جہاں دوسری ریاستوں کے دوروں پر جانے والے حکمران یا دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو ملنے والے قیمتی تحائف جمع کیے جاتے ہیں۔
کسی بھی غیر ملکی دورے کے دوران وزارتِ خارجہ کے اہلکار ان تحائف کا اندراج کرتے ہیں اور ملک واپسی پر ان کو توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتا ہے۔
یہاں جمع ہونے والے تحائف یادگار کے طور پر رکھے جاتے ہیں یا کابینہ کی منظوری سے انھیں فروحت کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے قوانین کے مطابق اگر کوئی تحفہ 30 ہزار روپے سے کم مالیت کا ہے تو تحفہ حاصل کرنے والا شخص اسے مفت میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔
جن تحائف کی قیمت 30 ہزار سے زائد ہوتی ہے، انھیں مقررہ قیمت کا 50 فیصد جمع کروا کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سنہ 2020 سے قبل یہ قیمت 20 فیصد تھی تاہم تحریک انصاف کے دور میں اسے 20 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا گیا تھا۔
ان تحائف میں عام طور پر مہنگی گھڑیاں، سونے اور ہیرے سے بنے زیوارت، مخلتف ڈیکوریشن پیسز، سوینیرز، ہیرے جڑے قلم، کراکری اور قالین وغیرہ شامل ہیں۔