پاکستانی حکومت نے زیارات کے لیے محتلف ممالک میں جانے والے پاکستانیوں کا ڈیٹا محفوظ بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس ضمن میں ایران، عراق اور شام کی حکومتوں کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ چند روز قبل وزیر داخلہ نقوی کے حالیہ دورہ ایران اور عراق کے دوران کیا گیا۔

پاکستانی حکومت نے زیارات کے لیے محتلف ممالک میں جانے والے پاکستانیوں کا ڈیٹا محفوظ بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس ضمن میں ایران، عراق اور شام کی حکومتوں کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے۔
یہ فیصلہ چند روز قبل وزیر داخلہ نقوی کے حالیہ دورہ ایران اور عراق کے دوران کیا گیا۔
واضح رہے کہ ان تینوں ملکوں کی حکومتوں نے پاکستان سے متعدد بار شکایات کی تھیں کہ زیارت کے لیے آنے والے سینکڑوں پاکستانی ان ملکوں میں غائب جاتے ہیں۔
وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف نے ایک پریس کانفرنس کے دوران انکشاف کیا کہ چالیس ہزار پاکستانی زائرین عراق، شام اور ایران جا کر یا تو وہیں مقیم ہو گئے یا پھر لاپتہ ہو چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت کے پاس ان کا مکمل ریکارڈ موجود نہ ہونے کے باعث ان کی نگرانی ممکن نہیں، جس کی وجہ سے حکومت نے زائرین کو منظم کرنے کے لیے ایک نیا کمپیوٹرائزڈ نظام متعارف کروایا، جس کے تحت اب یہ زائرین مخصوص، رجسٹرڈ زائرین گروپ آپریٹرز کے ذریعے ہی سفر کریں گے۔
سردار یوسف کا کہنا تھاکہ ماضی میں زائرین انفرادی یا غیر رسمی گروپوں کی شکل میں عراق، شام اور ایران جایا کرتے تھے جہاں ان کی کوئی سرکاری نگرانی یا رجسٹریشن نہیں ہوتی تھی۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اس بے نظمی کے نتیجے میں نہ صرف پاکستانی زائرین کا تحفظ خطرے میں پڑا بلکہ میزبان ممالک کی جانب سے بھی حکومت پاکستان کو شکایات موصول ہوئیں۔
زائرین کے لیے نیا سسٹم کیسے کام کرے گا؟

وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نے اپنی پریس کانفرنس میں مزید بتایا کہ زائرین گروپ آرگنائزیشن بھی جج ٹور آپریٹرز کی طرح کام کریں گی اور ایک منظم اور کمپیوٹرائزڈ نظام کے تحت صرف رجسٹرڈ اور اہل کمپنیوں کو ہی زیارت گروپ آرگنائزرز کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔
انھوں نے بتایا کہ اس ضمن میںوزارت مذہبی امور کو 1413 درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں سے 585 کلیئر ہوئیں جن میں سے 340 شارٹ لسٹ ہوئیں اور اب 50 آپریٹرز تمام مراحل مکمل کر چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ زائرین کے ان گروپ آپریٹرز کو جلد زائرین کی رہنمائی اور سہولت کاری کا عملی کام سونپا جائے گا۔
وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ نیا ڈیجیٹل سسٹم ملک کے ان تمام ایئرپورٹس پر نصب کیا جائے گا، جہاں سے بین الاقوامی پروازیں چلتی ہیں اور اس سسٹمکی تنصیب سے ان تمام زائرین کا ڈیٹا محفوظ کیا جائے گا جو ایران، عراق اور شام میں زیارت کے لیے جاتے ہیں۔
وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق زائرین کا یہ ڈیٹا ان تینوں ممالک کی حکومتوں کے ساتھ بھی شیئر کیا جائے گا۔
’انسانی سمگلر یورپ جانے کے خواہشمند افراد کو زائرین کے روپ میں لے جاتے ہیں‘

وزارت داخلہ کے اہلکار کا کہنا تھا کہ انسانی سمگلروں نے یورپ جانے کے لیے یہ روٹ بھی اپنایا اور یورپ جانے کے خواہشمند افراد کو زائرین کے روپ میں ایران، عراق اور شام کا ویزا ٹریول ایجنٹس سے حاصل کرنے کے بعد ان ممالک میں قانونی طور پر داخل ہوتے ہیں۔
’پھر ان ملکوں میں موجود انسانی سمگلروں کے گروہ کے ارکان ان سے رابطہ کر کے وہاں سے یورپی ممالک میں ڈنکی لگانے کے لیے انھیں تیار کرتے ہیں۔‘
وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق لیبیا اور یونان میں کشتی حادثات، جن میں درجنوں پاکستانیوں کی موت واقع ہوئی تھی، ان کی تحقیقات میں بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ انسانی سمگلنگ میں ملوث گروہ یورپی ملکوں میں جانے کے خواہشمند افراد کو زائرین کے روپ میں ایران، عراق اور شام لے کر جاتے ہیں اور پھر وہاں سے ڈنکی لگا کر ترکی، یونان اور یورپی ممالک میں پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
وزارت داخلہ کے اہلکار کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کی جانب سے 40 ہزار پاکستانی کے کوائف نہ ملنے کی جو بات کی گئی، وہ اعداوشمار پندرہ سے بیس سال پرانے ہیں اور ایران، عراق اور شام کی حکومتوں نے مختلف ادوار میں پاکستانی حکومتوں کو آگاہ کیا تھا کہ زیارت کے لیے آنے والے ہزاروں پاکستانی غائب ہو گئے۔
’گروپ میں جانے والے زائرین کے سالار کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کون مسنگ ہے‘

جنید ڈھر ’ٹریول اینڈ ٹوئرز‘ کے نام سے کمپنی چلاتے ہیں، انھوں نے ہمارے نامہ نگار ریاض سہیل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے جو ایران اور عراق زائرین جاتے ہیں ان میں سے کئی غیر قانونی تارکین وطن بن جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ گروپ میں ایران جانے کے لیے ایک سالاری نظام موجود ہے جس کے تحت امام بارگارہوں اور انجمنوں کو رجسٹرڈ کیا جاتا ہے اس میں کچھ سالار بھی ملوث ہوتے ہیں جو لوگوں کو وہاں سمگل کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ایران سے عراق تک جو عربین واک ہوتی ہے اس میں بھی کچھ لوگ عراق میں داخل ہو جاتے ہیں۔
’لوگ ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہیں اور اس رش کا فائدہ اٹھا کر کچھ لوگ سلپ ہو جاتے ہیں وہاں یہ لوگ ہوٹل انڈسٹری میں کام کرتے ہیں جہاں انھیں ڈالرز میں آمدن ہوتی ہے۔‘
جنید کے مطابق وہ لوگ جو ویزا پر جا کر سلپ ہو جاتے ہیں ان کی کمپنیوں کو تو نوٹس مل جاتے ہیں لیکن جو لوگ ایران سے بغیر ویزا، اس رش کا فائدہ اٹھا کر شامل ہوتے ہیں ان کی کوئی پکڑ دھکڑ نہیں ہوتی۔
جنیدر ڈھر کے مطابق ’عراق کے لیے پہلے سفارتخانہ ایک فہرست جاری کرتا تھا جس میں تمام زائرین کے نام اور پاسپورٹ نمبر ہوتے تھے یہ گروپ ویزا تھا لیکن اب ای ویزی جاری کیے جاتے ہیں اور جو سالار ہے اس کی ذمہ داری بھی بنتی ہے جو ضمانتی بھی ہے۔ عراق میں اب سختی کر دی گئی ہے لیکن ایران میں ایسا نہیں۔‘
شعیہ رہنما امین شہیدی کا کہنا ہے کہ گروپ میں جانے والے زائرین کے سالار کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے گروپ میں کون سے لوگ مسنگ ہیں اور یہ اس وقت معلوم ہوتا ہے جب وہ وطن واپسی کے لیے ایئرپورٹ پر پہنچتے ہیں اور جب حکام اس گروپ میں شامل ان افراد کے بارے میں پوچھتے ہیں جو ان ملکوں میں آنے پر تو ان کے ساتھ تھے لیکن واپسی پر اس گروپ میں شامل نہیں ہوتے۔
امین شہیدی کا کہنا تھا کہ بہت سے پاکستانی ایران اور عراق میں محنت مزوری کی وجہ سے رک جاتے ہیں تاہم جب ان کے ویزوں کی معیاد ختم ہو جاتی ہے تو ان ملکوں کے حکام ان پاکستانیوں کو وطن واپس بھیج دیتے ہیں۔
جنید ڈھر نے بتایا کہ ’پاکستانی ایران میں زیادہ تر کپڑے کی انڈسٹری میں کام کرتے ہیں چونکہ ایرانی حکومت زائرین کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے اور وہاں جانے کے لیے بھی کوئی گارنٹی نہیں چاہیے، اس لیے کچھ لوگ اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘