سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف نکاح کیس کا تحریری فیصلہ منظرِعام پر آنے کے بعد سے اس میں بشریٰ بی بی کے حوالے سے درج نجی نوعیت کی تفصیلات اور جج کی جانب سے قانون کی تشریح کو سوشل میڈیا پر انسانی حقوق کی تنظیموں، سماجی کارکنوں اور وکلا کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف مبینہ ’عدت میں نکاح‘ کے مقدمے کے فیصلے کے بعد سے جہاں عمران خان کے خلاف ایک ہفتے میں تیسرا فیصلہآنا مضحکہ خیز قرار دیا جا رہا ہے وہیں قانونی ماہرین اس فیصلے کو ایک ’خطرناک نظیر‘ کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔
جمعرات اور جمعے کو کئی گھنٹے کی طویل سماعتوں کے بعد راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں اسلام آباد کی مقامی عدالت کے سینیئر سول جج قدرت اللہ کی جانب سے سنیچر کو دوپہر تین بجے یہ فیصلہ سنایا گیا جس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ کو سات، سات سال قید اور پانچ، پانچ لاکھ جرمانہ کیا گیا۔
تاہم تحریری فیصلہ منظرِ عام پر آنے کے بعد سے اس میں بشریٰ بی بی کے حوالے سے درج نجی نوعیت کی تفصیلات اور جج کی جانب سے قانون کی تشریح کو سوشل میڈیا پر انسانی حقوق کی تنظیموں، سماجی کارکنوں اور وکلا کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
وکیل ردا حسین نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ اس ’غیر قانونی‘ شادی سے متعلق فیصلے نے ہماری عدلیہ کی ساکھ کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ جہاں عدالتوں کو قانون کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے روایت کو ختم کرنا چاہیے وہ اس کا حصہ بن چکی ہیں۔ اس سے یہ پیغام جاتا ہے کچھ بھی مقدس نہیں رہا۔‘
وکیل اور پی ٹی آئی کی سابقہ رکنِ پارلیمان ملیکہ بخاری نے ایکس پر لکھا کہ ’اس نقائص سے بھرے ہوئے فیصلے نے ایک مثال قائم کی ہے جس کے باعث پاکستان بھر میں خواتین کو ان کے سابقہ شوہروں سے اسی قسم کے مقدمات اور الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘
تو اس فیصلے میں ایسا کیا ہے کہ اسے خواتین کے لیے ایک ’خطرناک نظیر‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

فیصلے میں کیا ہے؟
سنیچر کو مبینہ ’عدت کے دوران‘ نکاح کے مقدمے میں اسلام آباد کے سینیئر سِول جج قدرت اللہ کی جانب سے دیے گئے فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ’شواہد یہ ثابت کرتے ہیں کہ ملزمان (عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی) یکم جنوری 2018 کو ہونے والے نکاح سے پہلے روحانی تعلق کا جھانسہ دے کر ایک دوسرے سے رابطے قائم کر چکے تھے۔‘
اڈیالہ جیل میں قائم اس عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ’خاور مانیکا حلفیہ یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی سابق اہلیہ بشریٰ بی بی کا عمران خان سے رابطہ 2014 کے دھرنے کے دوران ہوا۔‘
جج قدرت اللہ کی جانب سے عمران خان اور بشریٰ بی بی کا حوالہ دے کر فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ’دونوں نے رابطہ ہونے کا اعتراف کیا لیکن ان کی طرف سے کسی بھی ناجائز تعلق کی تردید کی گئی۔‘
عدالتی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ’ہم اگر مان بھی لیں کہ دونوں کے درمیان ناجائز تعلق نہیں تھا تب بھی شکایت کنندہ کی غیرموجودگی میں ملزمان کی گھنٹوں پر محیط ملاقاتیں بےجواز تھیں اور اس کے نتیجے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پہلی بار دونوں میں تعلق قائم ہونے کے بعد سے ان کے رشتے میں دھوکے کا عنصر موجود تھا۔‘
عدالت نے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ ’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عدت سے متعلق معاملے پر خاتون کے مؤقف کو ترجیح دی جاتی ہے لیکن اس کیس میں شکایت کنندہ کی جانب سے اسے رد کر دیا گیا ہے جبکہ ملزمان کا نکاح فروری 2018 میں ہوا تھا اور پہلے نکاح کی عدت کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس پر دوسرا نکاح نہیں ہو سکتا۔
عدالتی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 496 کے تحت سزا سُنائی جا رہی ہے۔
تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 496 کے مطابق کوئی بھی شخص بے ایمانی یا غلط ارادے سے شادی کرتا ہے - یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ قانونی طور پر شادی شدہ نہیں - تو اسے سات سال تک قید اور جرمانے کی سزا سُنائی جا سکتی ہے۔

فیصلے کے بارے میں قانونی ماہرین کو کیا خدشات ہیں؟
اس مقدمے کے فیصلے میں متعدد ایسی باتیں درج ہیں جن کے بارے میں قانونی ماہرین کو اعتراض ہے۔
سندھ ہیومن رائٹس کمیشن سے منسلک ہائی کورٹ کی وکیل ردا طاہر نے بی بی سی سے اس بارے میں تفصیل سے بات کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ اسلام میں تین طرح کی شادیاں ہوتی ہیں۔ ایک ریگولر (یعنی صحیح) ایسی شادی میں تمام شرائط پوری ہوتی ہیں، ایک وائڈ (یعنی باطل) یعنی اگر کچھ ایسا جرم ہو گیا ہے کہ یہ شادی اب رہ نہیں سکتی اور ارریگولر (یعنی فاسد شادی)۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس علی ضیا باجوہ کی جانب سے دسمبر سنہ 2021 میں دیے گئے امیر بخش کیس کے فیصلے میں بھی یہ بات واضح طور پر لکھی گئی ہے کہ اگرعدت پوری ہونے سے پہلے شادی کر لی جائے تو یہ ایک فاسد شادی قرار پائے گی، غیر قانونی یا باطل نہیں۔‘
ردا بتاتی ہیں کہ اس حوالے سے تاریخ پر نظر دوڑائیں تو صدر ضیا الحق کے دور میں حدود آرڈیننس کو قانون میں شامل کیا گیا جسے سنہ 2006 میں ترمیم کر دیا گیا تھا۔ اس ترمیم کے تحت ریپ کی تعریف اور عورتوں کے تحفظ کے حوالے سے دیگر ایسی تعریفوں کو واپس پاکستان پینل کوڈ میں شامل کیا تھا۔
’اس ترمیم میں حدود آرڈیننس کے سیکشن 4 سے ’ویلڈلی‘ (یعنی درست طریقے سے شادی شدہ) کا لفظ نکال دیا گیا تھا، اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر کوئی شادی اریگولر یا فاسد بھی ہو گی تو یہ جرم تصور نہیں کیا جائے اور اس پر سزا نہیں ہو گی۔‘
انھوں نے بتایا کہ جب حدود آرڈیننس میں ترمیم نہیں ہوئی تھی تو سابقہ شوہروں کی جانب سے طلاق کے بعد بھی مذکورہ خاتون کے خلاف مقدمے درج کیے جاتے تھے اور خواتین کے پاس کوئی آپشن نہیں ہوتا تھا اور وہ معاشرے میں تنہا ہو جاتی تھیں۔ پروٹیکشن آف ویمن ایکٹ 2006کے بعد اس میں ترمیم تو کر دی گئی لیکن اس کے بعد بھی ایسے مقدمات سامنے آتے رہے۔
عاصمہ جہانگیر لیگل ایڈ سیل کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ندا علی نے اس فیصلے سے متعلق بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’فیصلہ 496 کے تحت دیا گیا ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ شادی غیر قانونی تھی لیکن عدت کا وقت پورا نہ ہونے سے متعلق تو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلے موجود ہیں کہ ایسی صورت میں یہ شادی اریگولر یا فاسد تصور ہو گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’دوسری اہم بات یہ ہے کہ شوہر کی جانب سے اس کیس میں درخؤاست تقریباً چھ برس بعد دی گئی ہے۔ اگر ان کے لیے یہ معاملہ اتنا اہم تھا تو یہ تاخیر کیوں کی گئی۔‘

یہ ایک خطرناک مثال کیوں ہے؟
تو کیا یہ فیصلہ ایک نظیر کے طور پر پیش ہو سکتا ہے؟ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 201 کے مطابق پاکستان کی ہائی کورٹس کے فیصلے ماتحت عدالتوں کے لیے ایسی نظیر بن جاتے ہیں جن کی پیروی کی وہ پابند ہوتی ہیں۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکل 189 کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلے تمام ماتحت عدالتوں کے لیے ایسی نظیر بن جاتے ہیں جن کی وہ پابند ہوتی ہیں۔
عام طور پر کسی بھی مقدمے میں وکلا کی جانب سے ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حوالے دیے جاتے ہیں تاکہ کسی قانونی سوال یا اصول سے متعلق ماضی کی مثالوں کی روشنی میں اپنا مقدمہ مضبوط کیا جا سکے۔
ردا طاہر کا کہنا تھا کہ ’ٹرائل کورٹ کے اپنے فیصلے بائنڈنگ نہیں ہوتے یعنی یہ کوئی نظیر نہیں ہوتی جس کی ماتحت عدالتیں پابند ہوں لیکن یہ ایک مشہور مقدمہ ہے جو ایک سابق وزیرِ اعظم اور سابق خاتونِ اول کے بارے میں ہے اور اس مثال کو استعمال کرتے ہوئے اور لوگ بھی عدالت میں آنے کی کوشش کریں گے اور ہر انسان خاص طور پر خواتین کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ وکیل کی فیس بھر سکیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آپ کو اس طرح دیکھیں کہ اگر ایک سابقہ خاتونِ اول اچھے وکلا کی موجودگی میں بھی اپنا دفاع نہیں کر سکی اور ان کی جانب سے اب معاملہ اپیل میں جائے گا لیکن ہر خاتون یہ نہیں کر سکتی۔
’جب کوئی مقدمہ مشہور ہوتا ہے اور اس کے بارے میں خبروں میں بات ہوتی ہے تو اس کا نچلی عدالتوں میں غلط استعمال کیا جا سکتا ہے اور خواتین کو اس سے نقصان ہو سکتا ہے۔‘
https://twitter.com/reema_omer/status/1753731930263085516
’ریاست نے خواتین کی پرائیویسی کے پرخچے اڑا دیے ہیں‘
لاہور ہائی کورٹ بار کی سیکریٹری صباحت رضوی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کس قدر غیر منصفانہ بات ہے کہ ایک عورت کی زندگی اور اس کے ماہواری کے سائیکلز پر عدالت میں بحث ہو رہی ہے۔ کیا عورت کے کوئی حقوق نہیں ہیں اگر وہ دوبارہ شادی کر لے تو اسے کرپٹ قرار دے دیا جاتا ہے۔‘
ردا طاہر کہ مطابق موجودہ سپریم کی جج جسٹس عائشہ ملک جب لاہور ہائی کورٹ میں تھیں تو ان کی جانب سے صدف عزیز کیس میں ٹو فنگر ٹیسٹ سے متعلق ایک اہم فیصلہ سامنے آیا تھا جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 14 کسی بھی عام شہری کو اپنا وقار برقرار رکھنے کا حق دیتا ہے، آرٹیکل 9 جینے کا حق اور پرائیویسی (رازداری) کا حق دیتا ہے اور آئین کا آرٹیکل 25 برابری کا حق دیتا ہے، سپریم کورٹ میں بھی عاطف ظریف کیس میں اس بات کو برقرار رکھا گیا تھا کہ کسی کا اپنا وقار برقرار رکھنے کا حق سب سے اہم حقوق میں سے ہے۔
https://twitter.com/nighatdad/status/1753792768881709448
انھوں نے کہا کہ ’اسلام آباد کی عدالت کے فیصلے میں جہاں بشریٰ بی بی کے سابق شوہر، ان کی ماہواری سے متعلق بات کر رہے ہیں تو اس سے ان کی رازداری اور وقار برقرار رکھنے کا حق چھینا گیا ہے۔ تو اگر آپ اسے آئین کی رو سے بھی دیکھیں تو یہ غیر آئینی بات تصور کی جا سکتی ہے۔‘
وکیل ریما عمر نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’خاور مانیکا کی جانب سے دیے گئے اس بیان سے لے کر کہ ان کی اہلیہ کی ماہوری معمول کے مطابق تھی، جج قدرت اللہ کی جانب سے یہ سوال پوچھنے تک کہ آیا کسی نامحرم مرد اور خاتون کے درمیان اکیلے میں ملاقات اسلام میں جائز ہے یہ ایک شرمناک فیصلہ ہے اور انصاف اور انسانی حقوق کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔‘
وکیل نگہت داد کا ایکس پر ایک پوسٹ میں کہنا تھا کہ یہ صرف ایک خاتون کی بات نہیں بلکہ ایسی ہزاروں خواتین کے مستقبل کی ایک جھلک ہے جو اس فیصلے کے باعث انھیں دیکھنا پڑ سکتا ہے۔‘