مولانا ہدایت نے اپنی تحریک جس کا نام ’حق دو تحریک‘ ہے اسے بطور سیاسی جماعت آج سے ٹھیک سات ماہ پہلے (2023 میں) الیکشن کمیشن پاکستان میں رجسٹر کروا دیا تھا۔ اپنی انتخابی مہم کے بارے میں وہ کہتے ہیں ’میں اس وقت گھر گھر جا کر لوگوں کو کہہ رہا ہوں کہ وہ الیکشن کے دن ووٹ ڈالنے کے لیے آئیں۔ ایک خاموشی ہے، جیسے کہ لوگوں کو پہلے سے پتا ہو کہ ان کے چنندہ لوگ منتخب نہیں ہوں گے۔‘
’اگر میں جماعتِ اسلامی سے منسلک نہ ہوتا تو (علیحدگی پسند لیڈر) اللّہ نذر کے ساتھ پہاڑوں میں ہوتا۔‘
یہ الفاظ مولانا ہدایت الرحمان کے ہیں جو انھوں نے سنہ 2021 میں سُربندن کے مقام پر ایک احتجاجی ریلی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہے تھے۔
اس تقریر کے بعد بہت کچھ بدلا۔ اس دھرنے کے بعد مولانا کا نام نہ صرف فورتھ شیڈول میں ڈال دیا گیا بلکہ انھیں تُربت جانے سے بھی روک دیا گیا۔
مقامی صحافی عین قادر نے کہا کہ ’اگر یہی بات مولانا کی جگہ کسی قوم پرست جماعت کے لیڈر نے کی ہوتی تو انھیں یا تو گرفتار کرلیا گیا ہوتا یا پھر وہ غائب کر دیے گئے ہوتے۔‘
لیکن مولانا ہدایت الرحمان خطاب کرتے رہے۔ انھوں نے گوادر سے احتجاجی ریلیاں نکالیں جن میں انھیں خواتین کی حمایت حاصل رہی۔ بالاخر مولانا ہدایت الرحمان کو جنوری 2023 میں گرفتار کر لیا گیا بلکہ چار ماہ جیل میں گزارنے کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا۔
اب کچھ عرصے خاموش رہنے کے بعد حال ہی میں وہ اسلام آباد میں ماہ رنگ بلوچ کی جانب سے لگائے گئے لاپتہ افراد کے لواحقین کے کیمپ کے باہر نظر آئے۔
انھیں وہاں تقریر کرنے سے ماہ رنگ کی جانب سے یہ کہہ کر روک دیا گیا تھا کہ اس کیمپ میں صرف لاپتہ افراد کے لواحقین کو مائیکروفون دیا جائے گا۔ اور کسی بھی سیاسی لیڈر کو بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
مولانا ہدایت الرحمان سے میری بات حال ہی میں گوادر جاتے ہوئے ہوئی اور ان سے بات کرتے وقت یہی سوال ذہن میں تھا کہ ماہ رنگ کی سربراہی میں شروع کی گئی عوامی تحریک کے بعد وہ خود کو اور اپنی تحریک کو آنے والے انتخابات میں کہاں دیکھتے ہیں؟
مولانا نے کہا کہ ’دیکھیں میرا مقصد تو عوام کی بات کرنا ہے اور عوام کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت لاپتہ افراد کا ہے۔
’مجھے خوشی ہے کہ ہماری بیٹیاں اب تحریک کی سربراہی کر رہی ہیں جن کا مقصد بھی عوام کی بات کرنا ہے۔ میرا پیغام تو ہر کسی کے لیے ہے۔ اور میں کسی نہ کسی طریقے سے وہ کرتا رہوں گا۔‘
گوادر میں سنہ 2021 میں منعقدہ دھرنے میں شریک خواتین’مچھیرے کے بیٹے ہونے سے حق دو تحریک کی سربراہی تک‘
مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کا تعلق گوادر کے مضافاتی علاقے سُر بندر سے ہے اور ان کا خاندان شروع سے ماہی گیری سے منسلک رہا ہے۔
انھوں نے اپنی سیاسی جدوجہد کی شروعات سنہ 2003 میں بطور جماعتِ اسلامی کی طلبہ یونین اسلامی جمیعتِ طلبہ سے کی اور مذہب و فِق کی بنیادی تعلیم لاہور سے حاصل کی۔
وہ بلدیاتی الیکشن میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے ایک رکن کے مطابق ماضی میں مولانا ہدایت الرحمان بطور صوبائی جنرل سیکریٹری نیشنل پارٹی کا بھی حصہ رہے ہیں لیکن مولانا نے اس بات کی تردید کی۔

مولانا ہدایت الرحمان کا سیاسی مستقبل کیا ہے؟
مولانا ہدایت الرحمان نے اپنی انتخابی مہم کے بارے میں بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اس وقت گھر گھر جا کر لوگوں کو کہہ رہا ہوں کہ وہ الیکشن کے دن ووٹ ڈالنے کے لیے آئیں۔ ایک خاموشی ہے، جیسے کہ لوگوں کو پہلے سے پتا ہو کہ ان کے چنندہ لوگ منتخب نہیں ہوں گے۔‘
مولانا ہدایت نے اپنی تحریک جس کا نام ’حق دو تحریک‘ ہے اسے بطور سیاسی جماعت آج سے ٹھیک سات ماہ پہلے (2023 میں) الیکشن کمیشن پاکستان میں رجسٹر کروا دیا تھا۔ مولانا ہدایت خود گوادر کے صوبائی اور پنجگُور کے قومی حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’میں جماعتِ اسلامی کی نشست سے نہیں لڑ رہا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ اس تحریک کی اب ایک قانونی شکل ہو اور میں ان لوگوں کے خلاف ہوں جو لائے جاتے ہیں۔
’جن کا تعلق منشیات فروش گروہوں اور ٹرالر مافیا سے ہے۔ میں ایسے لوگوں کو ووٹ نہیں دوں گا اس لیے خود الیکشن میں کھڑا ہوں۔‘

’مولانا کی تحریک زوردار نہیں ہو گی‘
مکران سے تعلق رکھنے والے صحافی عین قادر نے بی بی سی کو بتایا کہ اب تک جنوب مغربی بلوچستان میں جتنے بھی سیاستدان آئے ہیں وہ ایک قوم پرست بیانیہ لے کر آئے ہیں۔ جس کی وجہ سے انھیں عوام نے یا تو پسند کیا یا بالکل ناپسند۔
’لیکن مولانا اور ان کی تحریک کے کارکنوں کے لیے اس بار سب سے بڑا چیلنج وہ مقدمات ہیں جن میں وہ اب تک پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اب یہ پیشیاں کب تک نمٹیں گی اور اس کے نتیجے میں وہ گراؤنڈ پر کتنی انتخابی مہم چلاسکیں گے یہ واضح نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’مکران کی موجودہ تمام تحریکوں میں، چاہے وہ چھوٹے پیمانے پر ہوں یا پھر بڑے پیمانے پر، ان سب کا ایک دوسرے سے تعلق ہے۔ چاہے وہ گوادر ہو یا کوئٹہ سراوان یا جھالاوان ہو لوگوں کا درد مشترکہ ہے۔‘
عین نے کہا کہ یا تو اب لوگ یہ سب لوگ ایک ساتھ مل کر ایک سیاسی پلیٹ فارم کا حصہ بن جائیں یا پھر الگ الگ مزاحمتی تحریکیں چلائیں۔ ’لیکن اب لوگ سمجھ چکے ہیں کہ اب کوئی اور چارہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ ایک دوسرے کو برداشت کرکے، سیاسی یا نظریاتی اختلافات بھلا کر ایک ساتھ چل نکلیں۔‘
مولانا سے بارہا یہ سوال کیا جاتا رہا کہ کیا وہ انتظامیہ سے مذاکرات کر کے ان کے ساتھ شامل ہو جائیں گے؟ جس کے بارے میں عین نے کہا کہ ایک تاثر یہ ملتا ہے کہ عام عوام نے متعدد بار ایسا ہوتے دیکھا ہے کہ جن لوگوں پر انھوں نے تکیہ کیا وہ کچھ ماہ بعد کوئی اور زبان بولنا شروع ہو گئے۔
بہرحال مولانا سے جب میں نے یہی سوال پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ’میری حمایت عوام سے ہے، کسی انتظامیہ سے نہیں۔ میں یہیں کا ہوں اور یہیں سے الیکشن لڑوں گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میں کہیں سے اچانک سے وارد نہیں ہوا ہوں۔ میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیتا رہا ہوں۔ فرق یہ ہے کہ مجھے خود کو زیادہ ثابت کرنا پڑرہا ہے۔‘
گوادر کے ’وائی چوک‘ پر 2021 اور 2022 میں دھرنا دینے کے بعد سے لے کر اب تک مولانا عوامی مسائل کی بات کرتے نظر آتے ہیں۔ اس وقت انھوں نے مکران اور خاص طور سے گوادر کو درپیش ’حفاظت کے نام پر بدتمیزی‘ سے بچانے کا بیڑہ اٹھایا تھا۔
جس کے بعد گوادر کے بیشتر مقامات پر عام عوام کو سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کی جانب سے روکنے اور ان کی مبینہ تضحیک کرنے کے عمل میں واضح طور پر کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
جنوری 2023 میں جب میں مچھیروں کو درپیش ٹرالنگ کے مسئلے پر ان سے انٹرویو لینے پہنچی تو انٹرویو کے کچھ ہی دیر بعد ان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ’اس وقت مجھ پر کئی ایف آئی آر بھی درج کی گئیں، ایک قتل کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ لیکن میں کہیں بھاگ نہیں رہا۔ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔‘
مولانا ہدایت الرحمان کی تحریک بھی عوامی مسائل کی نمائندگی کرنے کے بعد اب باضابطہ طور پر سیاست کا حصہ بننے جا رہی ہے۔ عین نے کہا کہ ’اب یہ انتخابی عمل پر منحصر ہے اور خاص طور سے چند عناصر پر کہ آیا وہ مولانا کو آنے بھی دیتے ہیں یا نہیں۔
’آگے جا کر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ مولانا جن باتوں پر اپنی مخالف جماعتوں پر تنقید کرتے رہے ہیں کیا وہ ان سے بہتر پرفارم کر کے دکھا سکتے ہیں؟‘