’ایرانی نظامِ حکومت کا امتحان‘: مہسا امینی کی موت کے بعد پہلے انتخابات ملک میں کوئی تبدیلی لا سکتے ہیں؟

حالیہ دنوں میں ملک بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے بعد ہونے والے ان انتخابات کو ایرانی نظامِ حکومت کا ایک امتحان کہا جا رہا ہے۔
iran election
Getty Images

ایران میں 2022 میں ملک گیر حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں کے بعد پہلے عام انتخابات آج ہو رہے ہیں۔

ایران میں ایک وقت میں اراکینِ پارلیمنٹ اور ماہرین کی اسمبلی کے اراکین کو منتخب کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ مجلس خبرگان رهبری یعنی ماہرین کی اسمبلی کے اراکین ایران کے رہبرِ اعلیٰ کا تقرر کرنے یا ان کو برخاست کرنے کے اختیارات رکھتے ہیں۔

ایران میں رہبرِ اعلیٰ کا عہدہ سب سے زیادہ طاقتور سمجھا جاتا ہے جسے ’کمانڈر اِن چیف‘ بھی کہا جاتا ہے۔

حالیہ دنوں میں ملک بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے بعد ہونے والے ان انتخابات کو ایرانی نظامِ حکومت کا ایک امتحان کہا جا رہا ہے۔

ایران، الیکشن، رہبرِ اعلیٰ، آیت اللہ علی خامنہ ای
EPA
ایران میں 2022 کے ملک گیر حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں کے بعد پہلے عام انتخابات آج ہو رہے ہیں

ایرانی عوام کے پاس آپشن کیا ہیں؟

ایران میں صدراتی امیدوار، پارلیمنٹ اور ماہرین کی اسمبلی کے اراکین بننے کے خواہشمند امیدواروں کو انتخابات لڑنے سے قبل نگہبان شوریٰ کی منظوری چاہیے ہوتی ہے۔

نگہبان شوریٰ میں علما اور قانون دان شامل ہوتے ہیں جن کی تقرری ملک کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کرتے ہیں۔

ایران میں 2009 کے صدارتی انتخابات کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے جس کے بعد حکام کی جانب سے ان مظاہروں کو روکنے کے لیے پُرتشدد کارروائیاں بھی کی گئی تھیں۔

اس کے بعد ہونے والے تمام انتخابات میں ان تمام امیدواروں کو جو حکومتی حکام پر تنقید کرتے ہیں یا اصلاح کار امیدواروں کی حمایت کرتے ہیں انھیں انتخابات لڑنے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔

نااہل ہونے والوں میں ایران کے چار سابق صدور اور دیگر بااثر سیاسی شخصیات شامل تھیں۔

ایران، الیکشن، رہبرِ اعلیٰ، آیت اللہ علی خامنہ ای
EPA
نگہان شوریٰ نے پارلیمنٹ کی 290 نشستوں کے لیے 15 ہزار 200 امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی ہے

اس بار ہونے والے عام انتخابات میں شوریٰ نگہبان نے پارلیمنٹ کی 290 نشستوں کے لیے 15 ہزار 200 امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی ہے۔ تاہم ان میں سے اصلاح کار گروہ کا حصہ سمجھے جانے والے اراکین کی تعداد صرف 30 ہے۔

ایران میں 2004 کے بعد سے اب تک پارلیمنٹ میں قدامت پسند افراد کو سبقت حاصل رہی ہے اور ان انتخابات میں بھی ممکنہ طور پر ان ہی کے جیتنے کی امید کی جا رہی ہے۔

پچھلے پارلیمانی انتخابات میں اصلاح کار کیمپ نے ایسے نمائندے ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی جو نظریاتی طور پر ان کے قریب ہوں۔ اصلاح کار گروپ کی جانب سے ووٹننگ میں حصہ لینے کے لیے لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی رہی ہے۔

لیکن پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ سیاستدانوں کے اصلاح پسند طبقے نے کہا ہے کہ وہ ایسے’بے معنی، غیر شفاف اور غیرمتاثرکُن‘ انتخابات کا حصہ نہیں بنیں گے۔

ان انتخابات سے ایران میں کیا تبدیلی آئے گی؟

ایرانی ووٹرز کے لیے معاشرتی آزادیاں اور معاشی صورتحال اہم ہے لیکن انتخابات کے ذریعے ملک میں کوئی بڑی تبدیلی آنے کے امکانات کم ہی ہیں۔ ان معاملات میں فیصلہ سازی کا اختیار پارلیمنٹ اور صدر کے پاس نہیں ہوتا بلکہ ایران کے رہبرِ اعلیٰ کے پاس ہوتا ہے۔

ایران کی ابتر معاشی صورتحال میں ملک کی خارجہ پالیسیوں کا بڑا کردار ہے اور یہ پالیسیاں آیت اللہ خامنہ ای بناتے ہیں۔ ان کی جانب سے معاشرتی آزادیوں سے متعلق پالیسیوں پر کسی بھی قسم کا سمجھوتا کرنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اس وقت حکومت، پارلیمنٹ، عدلیہ اور ماہرین پر مشتمل اسمبلی ان ہی افراد کے ہاتھ میں ہے جن کی تقرری کی منظوری آیت اللہ خامنہ ای دیتے ہیں۔

ان تمام چیزوں اور اصلاح کار یا جدت پسند امیدواروں کو نااہل قرار دیے جانے کے اقدمات کو دیکھتے ہوئے لوگ سمجھتے ہیں کہ جمعے کو ہونے والے انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ کمہی ہو گا۔

پچھلے 11 پارلیمانی انتخابات کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 2020 کے انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ سب سے کم 42 فیصد تھا۔ اس سے قبل انتخابات میں ٹرن آؤٹ ہمیشہ 50 فیصد سے زیادہ ہوتا تھا جبکہ 2016 کے انتخابات میں 62 فیصد ٹرن آؤٹ ریکارڈ کیا گیا تھا۔

ایران، الیکشن، رہبرِ اعلیٰ، آیت اللہ علی خامنہ ای
EPA
ایران میں 2021 کے صدارتی انتخابات میں بھی ووٹر ٹرن آؤٹ صرف 49 فیصد تھا

ایران میں 2021 کے صدارتی انتخابات میں بھی ووٹر ٹرن آؤٹ صرف 49 فیصد تھا۔ ڈالے گئے ووٹوں میں ’مسترد شدہ‘ ووٹوں کی تعداد تقریباً 37 لاکھ تھی۔ یہ انتخابات ابراہیم رئیسی جیتے تھے اور ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے۔

اب ایران میں انتخابی عمل میں لوگوں کی دلچسپی کم ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور ملک میں احتجاجی مظاہروں کا دورانیہ بھی بڑھ رہا ہے۔

ایران میں 2019 اور 2017 میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے جنھیں حکومت کی جانب سے طاقت کے زور پر کُچلا گیا تھا۔

ایران میں قدامت پسند سمجھی جانے والی حکومت کے لیے ایک ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ روایتی طور پر ان کے حامی سمجھے جانے والے اور انتخابات میں میں حصہ لینے والے افراد بھی حکومتی پالیسیوں پر تنقید کر رہے ہیں۔

اس گروہ کا ماننا ہے کہ حکومت کی طاقت بڑھنے اور انقلابی طاقتوں کے عروج سے بھی ملک میں نہ کوئی تبدیلی آئی اور نہ ہی نظام کی اصلاح ہو سکی۔

ایران میں اکثر طالب علموں کو رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کے لیے لے جایا جاتا ہے۔ ان طالبِ علموں کی تقاریر بھی خراب معاشی اور صورتحال سے متعلق شکایتوں سے بھری پڑی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومتی پالیسیوں سے اسرائیل اور امریکہ کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانب سے اپنے حامیوں کو ووٹنگ میں نہ صرف حصہ لینے کے لیے کہا گیا ہے بلکہ اس عمل کو مذہبی فریضہ بھی قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’انتخابات میں حصہ لینا ایک فرض ہے اور جو بھی ان کی مخالفت کرتا ہے وہ دراصل ایران اور اسلام کی مخالفت کر رہا ہے۔‘

ایران میں حکام کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ انتخابات صاف و شفاف ہوں گے لیکن ماضی کی روایات دیکھتے ہوئے ان کے دعوؤں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

ایرانی ووٹرز کیا سوچ رہے ہیں؟

ملک بھر میں سڑکوں پر بڑے بڑے انتخابی اشتہار تو نظر آ رہے ہیں لیکن جذبہ نظر نہیں آ رہا اور نہ یہ اشتہارات لوگوں کی توجہ حاصل کر پا رہے ہیں۔

حکومت کی جانب سے کیے گئے کچھ سروے یہ بتاتے ہیں کہ آدھے لوگوں کو تو یہ معلوم ہی نہیں کہ ملک میں دو انتخابات ایک ساتھ ہو رہے ہیں۔

خیال رہے کہ سنہ 2022 میں اخلاقی پولیس کی حراست میں نوجوان خاتون مہسا امینی کی موت ہو گئی تھی جس کے بعد ایران میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔

انھیں ’غیرمناسب حجاب‘ پہننے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

حکومت کی جانب سے ان مظاہروں کو طاقت کے ذریعے روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ان کارروائیوں میں سینکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔

زخمی ہونے والے ہزاروں افراد میں سے سینکڑوں آج بھی جیل میں بند ہیں اور کچھ کو سزائیں بھی سُنا دی گئی ہیں۔ اس سزاؤں میں سزائے موت بھی شامل ہے۔

ان سزاؤں کی نہ صرف انسانی حقوق کی تنظیموں نے مذمت کی بلکہ ان کی جانب سے عدالتی عمل کو ’بیکار‘ قرار دیا گیا۔

ایران، الیکشن، رہبرِ اعلیٰ، آیت اللہ علی خامنہ ای
EPA
ایران کے مرکزی بینک کے مطابق ملک میں شرح مہنگائی 56 فیصد تک پہنچ چکی ہے

ان احتجاجی مظاہروں کے بعد ملک میں سیاسی اور معاشرتی ماحول پہلے کے مقابلے میں مزید گھُٹا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔

ملک کے اندر ایک کریک ڈاؤن جاری ہے اور معاشی صورتحال بھی مزید ابتر ہو رہی ہے جس کے باعث لوگوں کی کھانے کی میزیں بھی خالی ہو رہی ہیں۔

ایران کے مرکزی بینک کے مطابق ملک میں شرح مہنگائی 56 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ حکومت اپنے معاشی وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی ہے اور ملک کی خارجہ پالیسی بھی ایران کی معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے کیونکہ اس کے نیوکلیئر پروگرام کے سبب مغربی ممالک کی طرف سے اسے پابندیوں کا سامنا ہے۔

ایسی صورتحال میں لوگوں کی بے چینی بڑھ رہی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US