امریکی دفتر خارجہ نے پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان کی جانب سے ان کی حکومت گرانے کی امریکی سازش کے موقف کو ایک بار بھر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ الزامات ہمیشہ سے جھوٹ ہیں۔

امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان میں سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے حوالے سے امریکی عہدیدار ڈونلڈ لو پر عائد کیے جانے والے الزامات غلط تھے اور ہمیشہ سے غلط ہی ہیں۔
میتھیو ملر نے یہ بات جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران امریکی ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی میں پاکستان کے انتخابات سمیت دیگر موضوعات پر ہونے والی سماعت میں اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو کی بطور گواہ پیشی سے متعلق سوالات کے جواب میں کہی۔
امریکی کانگریس کی کمیٹی برائے خارجہ امور کی ایک ذیلی کمیٹی پاکستان میں انتخابات، جمہوریت کے مستقبل اور پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے موضوعات پر 20 مارچ کو سماعت کر رہی ہے۔
یہ سماعت ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب پاکستان میں تحریکِ انصاف سمیت متعدد سیاسی جماعتوں کی جانب سے آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے دعوے کیے گئے ہیں۔
ترجمان محکمۂ خارجہ سے جب سوال کیا گیا کہ آیا اس سماعت کے نتائج کا پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر کوئی اثر پڑے گا تو میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ ’محکمۂ خارجہ کے اہلکار کانگریس کے سامنے پیش ہوتے رہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے کام کا اہم جزو ہے کہ ہم کانگریس کو اس کا کام کرنے میں مدد دیں چاہے وہ پالیسی بنانے کی بات ہو یا نگرانی کی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'لہٰذا ہم ہمیشہ کانگریس کے ساتھ ہونے والی غیر رسمی بات چیت، رسمی بات چیت اور ہمارے عہدیداروں کی جانب سے فراہم کی جانے والی حقیقی گواہی سب کے منتظر رہتے ہیں۔'
کانگریس کی کمیٹی میں ڈونلڈ لو کی پیشی اور تحریکِ انصاف کی جانب سے ان پر عائد کیے گئے الزامات کے حوالے سے سوال کے جواب میں ترجمان کا کہنا تھا کہ 'اسسٹنٹ سیکریٹری لو کے خلاف الزامات غلط ہیں اور وہ ہمیشہ سے غلط تھے‘ اور یہ بات وہ بارہا کہہ چکے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہم یقیناً امریکی حکام کو لاحق کسی بھی خطرے کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور اپنے سفارتکاروں کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی کسی بھی کوشش کی مذمت کرتے ہیں۔'
خیال رہے کہ ڈونلڈ لو پر اپنی حکومت گرانے کی سازش میں ملوث ہونے کا الزام لگانے والی سابق وزیرِاعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف پاکستان میں حالیہ الیکشن کے بعد احتجاج کرنے والی جماعتوں میں سے سب سے بڑی پارٹی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کرکے اس کی نشستیں کم کروائی گئی ہیں۔
پاکستان میں عام انتخابات میں پی ٹی آئی بحیثیت سیاسی جماعت حصہ نہیں لے پائی تھی کیونکہ انٹرا پارٹی الیکشن کے معاملے پر الیکشن کمیشن کی جانب سے ان کا انتخابی نشان اُن سے واپس لے لیا گیا تھا۔
عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے قومی اسمبلی کی 93 نشستیں جیتی تھیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن نے 75 اور پاکستان پیپلز پارٹی نے 54 سیٹیں جیتی تھیں۔
پاکستان میں اس وقت ن لیگ، پی پی پی اور دیگر جماعتوں کی اتحادی حکومت قائم ہے۔
پاکستان میں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی گونج امریکہ میں اس وقت سُنائی دی جب امریکہ میں دو درجن سے زائد اراکینِ کانگریس نے صدر جو بائیڈن اور سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن سے ایک خط کے ذریعے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان میں بننے والی نئی حکومت کو اس وقت تک تسلیم نہ کریں جب تک عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات نہ ہو جائیں۔
ٹیکساس سے منتخب ہونے والے رُکنِ کانگریس کی جانب سے لکھے گئے خط پر مزید 30 اراکین کے دستخط بھی موجود تھے۔ اس خط میں امریکی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ ’پاکستانی حکام پر واضح کیا جائے کہ امریکی قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے والوں کا احتساب کرتا ہے۔‘

کمیٹی کی سماعت میں کون سے موضوعات زیرِ بحث آئیں گے؟
کمیٹی برائے خارجہ امور کی ذیلی کمیٹی کی چیئرمین شپ ری پبلکن سینیٹر جو ولسن کے پاس ہے۔ سماعت کے دوران ان کے اردگرد کمیٹی کے دیگر نمائندگان بھی موجود ہوں گے۔
ماضی میں متعدد سماعتوں میں بطور ’وِٹنس‘ پیش ہونے والے اٹلانٹک کونسل سے منسلک تجزیہ کار شجاع نواز نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ عام طور پر کمیٹی کے سامنے ایسی سماعتوں میں متعدد شخصیات پر مشتمل ایک پینل پیش ہوتا ہے اور وہ کمیٹی کے چیئرمین اور اراکین کے سوالات کے جوابات دیتا ہے۔
لیکن اس بار کمیٹی کی جانب سے صرف ایک شخصیت کو بطور ’وِٹنس‘ بُلایا گیا ہے اور وہ شخصیت ہیں امریکی محکمہ خارجہ کے ’بیورو برائے وسطیٰ ایشیا‘ سے منسلک اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو۔
ڈونلڈ لو اس سماعت کے دوران نہ صرف پاکستانی انتخابات کے حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کو رائے دیں گے بلکہ کمیٹی کے اراکین کے سوالات کے جواب بھی دیں گے۔
ڈونلڈ لو کا نام پاکستان میں رہنے والوں کے لیے نیا نہیں کیونکہ یہ وہی امریکی شخصیت ہیں جن پر سابق وزیرِاعظم عمران خان نے پی ٹی آئی حکومت گرانے کا الزام لگایا تھا۔ امریکہ کی جانب سے ان الزامات کی متعدد مرتبہ تردید کی جا چکی ہے۔
شجاع نواز نے اس حوالے سے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’یہ سماعت اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ عمران خان کی جانب سے الزامات لگائے جانے کے بعد طویل عرصے سے ڈونلڈ لو منظرِعام پر نہیں تھے اور اب وہ بڑے عرصے بعد پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔‘
شجاع نواز کے مطابق اس سماعت کے دوران پاکستان کے انتخابات پر سوالات بھی متوقع ہیں۔
واشنگٹن میں پاکستان سے متعلق معاملات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار عزیر یونس بھی شجاع نواز کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ وہاں کانگریس کے اراکین کی جانب سے ڈونلڈ لو سے پاکستانی انتخابات کی ساکھ اور جمہوریت کی حالت کے حوالے سے سوالات بھی پوچھے جائیں گے۔‘
وہ سمجھتے ہیں کہ اس سماعت کے دوران پاکستان پر چینی قرضے اور اقتصادی اور سیاسی استحکام کے حوالے سے بھی سوالات پوچھے جا سکتے ہیں۔
ڈونلڈ لو اس سماعت کے دوران نہ صرف پاکستانی انتخابات کے حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کی رائے دیں گے بلکہ کمیٹی اراکین کے سوالات کے جوابات بھی دیں گےکانگریس کی کمیٹی برائے خارجہ امور کی پاکستان میں انتخابات اور جمہوری نظام میں دلچسپی کیوں؟
واشنگٹن میں خارجہ پالیسی اور پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی کانگریس کی ذیلی کمیٹی کی جانب سے پاکستان میں انتخابات اور جمہوریت پر سماعت منعقد کرنا پی ٹی آئی لابنگ کا نتیجہ ہے۔
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور واشنگٹن کے ہڈسن انسٹیٹیوٹ کے ساتھ بطور سکالر منسلک حسین حقانی کا کہنا ہے کہ ’ایسا لگتا ہے کہ یہ سماعت امریکہ میں پی ٹی آئی حامیوں کی لابنگ کا نتیجہ ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات بین الاقوامی سطح پر اُٹھانے چاہتے ہیں اور وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب بھی ہوں گے۔‘
امریکی تھنک ٹینک دا ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کگلمین بھی سمجھتے ہیں کہ 20 مارچ کو ہونے والی ’سماعت امریکہ میں عمران خان کے حامی پاکستانی امریکی ووٹ دہندگان اور پی ٹی آئی کی لابنگ کا نتیجہ ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکہ میں مقیم پاکستانیوں میں عمران خان کی مقبولیت اور یہاں پی ٹی آئی کی مستحکم موجودگی کے سبب کانگریس کے متعدد اراکین پاکستان کی صورتحال سے واقف ہیں اور یہ سب انھوں نے امریکہ میں موجود پاکستانی ووٹ دہندگان سے سُنا ہوگا۔‘
سابق وزیرِاعظم عمران خان کی جماعت اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ امریکہ میں پاکستان کے حوالے سے ہونے والی سماعت ان ہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
پی ٹی آئی رہنما زلفی بخاری نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’ہم نے بین الاقوامی اور قومی سطح پر (انتخابات میں مبینہ دھاندلی) کے حوالے سے آواز اُٹھائی اور بطور سیاسی جماعت ہمارا کام ہی آگاہی پھیلانا ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ہم نے ہر ملک میں آواز اُٹھائی ہے اور اگر امریکہ کے چند اراکینِ کانگریس نے یہ سماعت بُلائی ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے پاکستان کی صورتحال دیکھی اور پاکستان میں انتخابات میں جو دھاندلی ہوئی، اس کو سامنے لانے والی پی ٹی آئی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
کانگریس کی امور خارجہ کی ذیلی کمیٹی میں ہونے والی سماعت کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
کانگریس کی کمیٹی برائے امور خارجہ کی ذیلی کمیٹی عام طور پر مختلف موضوعات پر سماعت کے بعد اپنی رپورٹ کانگریس میں جمع کرواتی ہے۔ امریکی کانگریس ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ پر مشتمل ہوتی ہے۔
اگلے ہفتے منعقد ہونے والی اس سماعت کے حوالے سےجب پاکستانی دفترِ خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران سوال کیا گیا تو ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے اس بارے میں کہا کہ ’ہمیں اس سماعت کے بارے میں علم ہے۔ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور تمام معاملات پر امریکہ کی رائے کو اہمیت دیتا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں امید ہے کہ اس بات چیت سے دونوں ممالک کے دو طرفہ تعلقات میں مزید مدد ملے گی اور امریکی کانگریس اپنے معاون کا کردار جاری رکھے گی۔‘
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ امریکہ میں ہونے والی سماعت کے پاکستان کی نئی حکومت یا پاکستان اور امریکہ تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
شجاع نواز کے خیال میں امور خارجہ کی ذیلی کمیٹی کی جانب سے رکھی گئی سماعت ظاہری طور پر پاکستان کو ایک اشارہ دینے کی کوشش ہوسکتی ہے کہ ’لوگ آپ سے سوال کر رہے ہیں اور آپ سیدھی راہ پر آجائیں۔‘
شجاع نواز کہتے ہیں کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ امریکہ اس موقع پر پاکستان میں ہونے والے انتخابات پر کوئی سٹینڈ لے گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ایسا ضرور ممکن ہے کہ کہیں پسِ منظر میں امریکہ کی جانب سے اس معاملے کو حل کرنے کی تجویز دی جائے۔
دیگر ماہرین بھی سمجھتے ہیں کہ واشنگٹن میں ہونے والی سماعت کا پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ پاکستان اس وقت بائیڈن انتظامیہ کی ترجیحات میں شامل نہیں۔
مائیکل کگلمین کا کہنا ہے کہ ’یہ سماعت پاکستان میں تو بڑی خبر ہوسکتی ہے لیکن ایسا نہیں لگتا کہ امریکہ میں اس کا کوئی اثر ہوگا کیونکہ پاکستان اس وقت کیپیٹل ہِل یا بائیڈن انتظامیہ کی ترجیحات میں شامل نہیں۔‘
’کیپیٹل ہل خارجہ پالیسی نہیں بناتی بلکہ امریکی حکومت بناتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اگر اس معاملے پر ہونے والی سماعت میں کوئی حیران ن نتیجہ سامنے آتا ہے تو اس کے اثرات پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر پڑ سکتے ہیں کیونکہ مالی امداد اور پاکستان کے حوالے سے کسی بھی نئے قانون بنائے جانے میں کانگریس کا کردار ہو گا۔‘
اس سماعت اور پاکستان پر اس کے اثرات کے حوالے سے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کہتے ہیں کہ ’کانگریس کے اراکین کسی بھی معاملے پر کچھ اراکین کی درخواست پر سماعت منعقد کر سکتے ہیں، ان سماعتوں سے میڈیا کی دلچسپی بھی پیدا ہوتی ہے لیکن اس سے تب تک کوئی فرق نہیں پڑتا جب تک اس حوالے سے (امریکی کانگریس میں) کوئی قانون سازی نہ ہو۔‘
حسین حقانی ماضی میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر تعینات رہے ہیںان کا کہنا ہے کہ کانگریس کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ امریکی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہو سکے، مثال کے طور پر وہ کسی ملک کی امداد کم یا بند کرواسکتے ہیں۔
’لیکن اس وقت پاکستان کو امریکہ کی جانب سے کوئی بڑی امداد نہیں مل رہی اس لیے یہاں پاکستان کو دی جانے والی امداد میں کمی کے لیے کچھ ہے ہی نہیں۔‘
حسین حقانی کا مؤقف بھی دیگر ماہرین کی آرا سے مطابقت رکھتا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان اس وقت امریکہ کی خارجہ پالیسی میں ترجیحی حیثیت نہیں رکھتا۔ امریکی کانگریس ان سماعتوں کا جو بھی نتیجہ مرتب کرے گی اس پر عمل کرنا یا نہ کرنا امریکی صدر کا استحقاق ہو گا۔
انھوں نے ماضی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سقوطِ ڈھاکہ کے وقت ’1971 میں کانگریس میں سماعتوں کے دوران مشرقی پاکستان میں پاکستان کی سرگرمیوں پر کافی تنقید ہوئی تھی لیکن صدر رچرڈ نکسن نے پھر بھی پاکستان کی حمایت کی۔‘
ماضی میں عمران خان کی جانب سے امریکی پالیسیوں پر کافی سخت تنقید دیکھنے میں آئی ہے اور ابتدائی طور پر پی ٹی آئی حکومت گرائے جانے کا الزام بھی واشنگٹن پر ہی لگایا گیا تھا۔
اس تناظر میں حسین حقانی کا کہنا ہے کہ ’امریکیوں کی اکثریت پی ٹی آئی اور اس کے بانی کو امریکہ مخالف سمجھتی ہے، ایسا نہیں لگتا کہ کانگریس میں ہونے والی سماعتوں سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کچھ بدلے گا۔‘
’تاریخی طور امریکہ نے کبھی بھی کسی ملک کے انتخابات کو ماننے سے انکار نہیں کیا، باوجود اس کے کہ ان انتخابات کی شفافیت پر خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔‘