پیر کی رات انڈیا کے نائب صدر جگدیپ دھنکھر کی جانب سے اچانک مستعفیٰ ہونے کی خبر نے اِن قیاس آرائیوں کو بڑے پیمانے پر جنم دیا ہے کہ آخر اس فیصلے کے پیچھے کیا وجوہات کارفرما ہو سکتی ہیں۔
74 سالہ جگدیپ دھنکھر اگست 2022 میں نائب صدر بنے تھے اور اُن کے عہدے کی مدت میعاد 2027 تک تھیپیر کی رات انڈیا کے نائب صدر جگدیپ دھنکھر کی جانب سے اچانک مستعفیٰ ہونے کی خبر نے اِن قیاس آرائیوں کو بڑے پیمانے پر جنم دیا ہے کہ آخر اس فیصلے کے پیچھے کیا وجوہات کارفرما ہو سکتی ہیں۔
جگدیپ دھنکھر انڈیا کے ایوانِ بالا (راجیہ سبھا) کے چیئرمین بھی ہیں۔ اُن کی جانب سے یہ اعلان پارلیمان کے مون سون سیشن کے پہلے روز کیا گیا ہے۔ اپنے استعفے میں انھوں نے اپنی صحت کو درپیش خدشات کے پیش نظر استعفی دینے کا اعلان کیا ہے۔
حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے جگدیپ دھنکھر کو نائب صدارت کے عہدے پر فائز کیا تھا تاہم اُن بی جے پی کی جانب سے اُن کے استعفے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
لیکن حزب اختلاف کے بہت سے رہنماؤں نے نائب صدر کے اچانک استعفے پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ ایک رُکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ’ویسا نہیں ہے جیسا نظر آ رہا ہے۔‘
74 سالہ جگدیپ دھنکھر نے اگست 2022 میں نائب صدر بنے تھے اور اس عہدے پر اُن کی مدت میعاد سنہ 2027 تک تھی۔
پیر کے روز جگدیپ دھنکھر نے بطور چیئرمین ایوان بالا، راجیہ سبھا کے اجلاس کی صدارت کی تھی۔ اس اجلاس کے دوران چند نئے ممبران نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا تھا۔
اس اجلاس کے دوران 50 اراکین راجیہ سبھا کی جانب سےہائیکورٹ کے ایک جج یشونت ورما کے خلاف مواخذے کی تحریک بھی جمع کروائی گئی تھی۔ جج پر الزام ہے کہ رواں سال کے آغاز پر اُن کے گھر سے بہت سا کیش (رقم) برآمد کیا گیا تھا۔ جسٹس یشونت ورما کے خلاف پہلے ہی تحقیقات جاری ہیں اور انھوں نے اپنے یا اپنے خاندان کے کسی فرد کی جانب سے کسی غلط کام کے ارتکاب سے انکار کیا ہے۔
رواں ہفتے کے آغاز پر جب نائب صدر جگدیپ دھنکھر کے سرکاری شیڈول کا اعلان کیا گیا تھا تو اس میں بتایا گیا تھا کہ انھوں نے بدھ کو انڈیا کے مغربی شہر جے پور کا سرکاری دورہ بھی کرنا تھا۔
لیکن پھر اچانک پیر کی شب ان کی جانب سے بھیجا گیا استعفی انڈیا کی صدر دروپدی مرمو کو موصول ہوا جس میں درج تھا کہ وہ (جگدیپ) ’اپنی صحت کی دیکھ بھال کو ترجیح دینا اور طبی مشورے کی پابندی کرنا چاہتے ہیں۔‘
اس استعفے میں مزید کہا گیا کہ ’اس اہم مدت (یعنی جتنا عرصہ وہ نائب صدر رہے) کے دوران انڈیا کی غیر معمولی اقتصادی ترقی اور بے مثال ترقی کا مشاہدہ کرنا اور اس کا حصہ بننا ایک اعزاز اور باعثِ اطمینان بات ہے۔‘
نائب صدر کے مستعفی ہونے کے اس اچانک اقدام نے انڈیا کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی۔ چند سیاسی رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے دھنکھر کے مستعفیٰ ہونے سے چند ہی گھنٹے قبل اُن سے براہ راست بات کی تھی۔
شیوسینا پارٹی کے ترجمان آنند دوبے نے سوال کیا کہ ’اس حکومت میں آخر کیا چل رہا ہے؟‘
انھوں نے کہا کہ ’بظاہر یہ فیصلہ مناسب مشاورت یا اس معاملے پر بحث کے بغیر سامنے آیا ہے۔ اگر صحت کا مسئلہ ہوتا (جیسا کہ استعفے میں بیان کیا گیا ہے) تو استعفیٰ (ایوانِ بالا کے جاری) اجلاس سے چند دن پہلے یا اس کے بعد بھی پیش کیا جا سکتا تھا۔‘
جگدیپ دھنکھر انڈیا کے ایوانِ بالا (راجیہ سبھا) کے چیئرمین بھی ہیںانڈیا کی مرکزی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رکن پارلیمان منیش تیواری نے اس اقدام کو ’مکمل طور پر غیر متوقع‘ قرار دیا اور کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ جگدیپ دھنکھر کو اپنی صحت کو ہی اولین ترجیح دینی چاہیے۔۔۔ لیکن واضح طور پر ان کے اس غیر متوقع استعفیٰ میں ویسا نہیں ہے جیسا نظر آ رہا ہے۔‘
کانگریس کے ایک اور رکن پارلیمان جے رام رمیش نے اس استعفے کو ’بے مثال‘ قرار دیا۔
انھوں نے پیر کی سہ پہر جگدیپ دھنکھر کی زیر صدارت ہونے والے مشاورتی کمیٹی کے اجلاس سے دو وزرا کی غیر موجودگی کی بابت بھی بات کی۔
رمیش نے کہا کہ دھنکھر کو اُن (وزرا) کی غیر موجودگی کے بارے میں ذاتی طور پر مطلع نہیں کیا گیا تھا اور اسی لیے انھوں نے میٹنگ کو منگل تک کے لیے ملتوی کر دیا تھا۔
دھنکھر پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور وہ پہلی بار سنہ 1989 میں راجستھان کی سیٹ سے بطور رُکن پارلیمان منتحب ہو کر اسمبلی پہنچے تھے۔
سنہ 2003میں انھوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی اور انھیں پارٹی کے لیگل ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ بنا دیا گیا۔ سنہ 2019 میں انھیں ریاست مغربی بنگال کا گورنر مقرر کیا گیا، چونکہ اُس وقت مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کی حکومت تھی اس لیے گورنر دھنکھر کی ریاستی حکومت کے ساتھ تکرار جاری رہتی تھی۔
انھوں نے سنہ 2022 میں گورنر کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا جس کے بعد بی جے پی نے انھیں انڈیا کا نائب صدر نامزد کیا تھا۔
رواں برس مارچ میں دہلی کے ایک مقامی ہسپتال میں جگدیپ دھنکھر کی انجیو پلاسٹی ہوئی تھی تاہم چند روز کی رخصت کے بعد وہ دوبارہ کام پر واپس آ گئے تھے اور حالیہ دنوں میں پارلیمان میں کافی سرگرم تھے۔