یکم اپریل سنہ 2004 کو بنگلہ دیش کی تاریخ میں اسلحے اور گولہ بارود کی سب سے بڑی کھیپ پکڑی گئی جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ انڈیا کے علیحدگی پسندوں کے لیے تھی لیکن اس نے انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان تلخی میں اضافہ کیا تھا
بنگلہ دیش کے اُس وقت کے وزیر داخلہ امور لطف الزماں ضبط کیے گئے ہتھییاروں کا معائنہ کر رہے ہیںسنہ 2001 اور 2006 کے درمیان بنگلہ دیش میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی حکومت تھی جس کی سربراہی وزیراعظم خالدہ ضیا کر رہی تھیں۔ یہ بنگلہ دیش کے لیے مشکلات سے بھرا دور تھا اور اس دور میں پیش آنے والے چند بڑے واقعات میں سے ایک دس ٹرکوں سے بھرے ہتھیاروں کی برآمدگی کا تھا۔
یکم اپریل 2004 کو بنگلہ دیش کی تاریخ میں اسلحے اور گولہ بارود کی یہ سب سے بڑی کھیپ پکڑی گئی تھی۔
ان ہتھیاروں کو دو بڑے ٹرالروں (بحری جہازوں) کے ذریعے سمندری راستے سے چٹاگانگ میں واقع بندرگاہ پر لایا گیا تھا۔
بہت سے محققین کا خیال ہے کہ ہتھیاروں کے بڑے ذخیرے کی برآمدگی نے اُس وقت کی بی این پی حکومت کی انڈیا سے تعلقات میں تلخی پیدا کی تھی جو آج تک جاری ہے اور اس کے بعد سے آج تک خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی حکومت میں نہیں آ سکی ہے۔
بنگلہ دیش کے اُس وقت کے عہدیداروں نے دعویٰ کیا تھا کہ بی این پی حکومت نے انڈیا کے دباؤ پر وہ ہتھیار ضبط کیے تھے کیوں کہ بصورت دیگر وہ ہتھیار انڈیا میں علیحدگی پسندوں کے ہاتھوں میں پہنچ جاتے۔
لیکن بی این پی ہمیشہ یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ وہ ہتھیار انڈیا کے دباؤ پر نہیں بلکہ حکومتی اداروں کی مستعدی کی وجہ سے پکڑے گئے تھے اگر یہ کہ اگر اس وقت کی حکومت چاہتی تو وہ ہتھیار انڈین علیحدگی پسندوں کے ہاتھوں میں پہنچ سکتے تھے۔
دعویٰ کچھ بھی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلحے کی برآمدگی کے اس واقعے کے بعد بی این پی حکومت کے ساتھ انڈیا کے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گئے تھے۔
دوسری جانب انڈین حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ اتنے بڑے پیمانے پر نہیں، لیکن مختلف مواقع پر بنگلہ دیش سے ہتھیار شمال مشرقی انڈیا پہنچتے رہے ہیں اور دس ٹرک ہتھیاروں کی برآمدگی سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق ان ہتھیاروں کو پولیس کی مدد سے سی یو ایف ایل جیٹی پر آف لوڈ یعنی اُتارنے کے دوران پکڑا گیا۔
ان ہتھیاروں میں چینی ساختہ اے کے 47 (کلاشنکوف)، سیمی آٹومیٹک رائفلز، راکٹ لانچرز، راکٹ کے گولے، پستول، ہینڈ گرینیڈ اور بڑی مقدار میں کارتوس اور دھماکہ خیز مواد شامل تھا۔ گنتی کے بعد پتہ چلا کہ مختلف اقسام کے 1,970 ہتھیاروں کے علاوہ ساڑھے 11 لاکھ کارتوس، ساڑھے چھ ہزار میگزین، 27 ہزار دستی بم اور 150 راکٹ لانچرز پکڑی گئی ہتھیاروں کی کھیپ میں شامل تھے۔
برآمدگی کے بعد ہتھیاروں کو فوج نے اپنے قبضے میں لے لیا تھااس دن رات کے دو بجے سے صبح 6 بجے تک جاری رہنے والی اس مہم کی قیادت چٹاگانگ کے اُس وقت کے ڈی سی (پورٹ یا بندرگاہ) عبداللہ الباقی اور ایس پی (پورٹ) نے کی تھی۔ تقریباً 83 پولیس اہلکاروں کے علاوہ کوسٹ گارڈ کے اراکین نے بھی اس آپریشن میں حصہ لیا تھا۔
اس کے بعد مقامی پولیس سٹیشن کے اُس وقت کے ’او سی‘ کے کردار پر بھی سوالات اٹھنے لگے۔ ذرائع کے حوالے سے میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ بندرگاہ پر اسلحے کی کھیپ اُتارنے کے عمل کے دوران او سی خود وہاں موجود تھے۔
ہتھیاروں کی برآمدگی اور انڈیا کے ساتھ تعلقات میں تنزلی
اسلحہ برآمد ہونے سے پہلے بھی خالدہ ضیا کی بی این پی حکومت کے ساتھ انڈیا کے تعلقات اچھے نہیں تھے جس کی سب سے بڑی وجہ سکیورٹی کے مسائل اور اس ضمن میں ہونے والی الزام تراشی اور دعوے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب انڈیا اپنے شمال مشرق میں واقع سات ریاستوں کے بارے میں بہت فکر مند تھا۔ انڈیا کا الزام تھا کہ بنگلہ دیش کی بی این پی حکومت ان علاقوں میں سرگرم علیحدگی پسند تنظیموں کی مدد کر رہی ہے۔
اور پھر اسی کشیدہ حالات میں دس ٹرکوں میں لدا اسلحہ پکڑا گیا۔
اُس وقت وینا سیکری ڈھاکہ میں انڈین ہائی کمشنر تھیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا میں سرگرم اُس وقت کے علیحدگی پسند گروپوں کے رہنما بنگلہ دیش میں رہ کر اپنی سرگرمیاں چلا رہے تھے۔ اور بھاری مقدار میں ہتھیاروں کی برآمدگی کے واقعے نے اس وقت کی بنگلہ دیش کی حکومت کے علیحدگی پسند رہنماؤں کے ساتھ تعلقات کو بے نقاب کر دیا۔‘
حکومت ہند کی تشویش میں اضافہ ہوتا چلا گیا کیونکہ میڈیا میں اس واقعے سے بی این پی حکومت سے تعلق کی خبریں شائع ہوتی رہیں۔
سابق ہائی کمشنر نے دعویٰ کیا کہ ’وہ ہتھیار چین سے آئے تھے، وہ وہیں بنائے گئے تھے، اس سے متعلق سوالات پر بی این پی حکومت سے کوئی ٹھوس جواب نہیں مل سکا، ہم نے مختلف فورمز پر اس معاملے کو اٹھا کر اس پر بات کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔‘
اسلحے کی برآمدگی کے وقت توحید حسین کولکتہ میں انڈیا کے ڈپٹی ہائی کمشنر تھے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا ہمیشہ سے چاہتا تھا کہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ دوبارہ اقتدار میں آئے۔‘
اُن کا خیال ہے کہ اسلحہ اسی طرح برآمد ہوا جیسا کہ انڈیا چاہتا تھا۔ انڈیا اس کھیپ کے بنگلہ دیش پہنچنے کا انتظار کر رہا تھا۔
حسین کا کہنا ہے کہ ’ہم نے سُنا اور جانتے بھی ہیں کہ یہ ہتھیار انڈین خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے موصول ہونے والی معلومات، بروقت مداخلت اور کڑی نگرانی کی بنیاد پر برآمد کیے گئے تھے۔ لیکن کسی نے سرکاری طور پر اس کا اعتراف نہیں کیا۔‘
لیکن حسین کو اس واقعے سے بی این پی اور انڈیا کے تعلقات میں تلخی آنے والی بات پر شبہ ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’میرے خیال میں یہ سب سے بڑی وجہ نہیں تھی۔ اس کا اثر باہمی تعلقات پر ضرور پڑا تھا۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ انڈیا بنگلہ دیش میں بی این پی کے اقتدار میں رہنے کے حق میں نہیں تھا۔ اگر یہ مکمل طور پر حکومتی مدد سے ہو رہا تھا تو کیا دو نچلے درجے کے پولیس افسروں کے لیے اسے روکنا ممکن تھا؟ ایسا تو نہیں لگتا لیکن شاید حکومت کے اندر کے کچھ لوگ اس میں ملوث تھے، اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ معاملہ اتنا آگے نہ بڑھتا۔‘
حسین کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر انڈین انٹیلیجنس افسران نے اس مقام پر اسلحہ برآمد کرنے والوں کو الگ سے اعتماد میں لیا تھا۔
اب اس واقعے کے 20 سال بعد بھی خالدہ ضیا کی بی این پی اس پر تبصرہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔
سنہ 2004 میں اس معاملے میں نچلی عدالت کے فیصلے کے بعد بی این پی نے اسے ’تماشہ اور سیاست سے متاثر معاملہ‘ قرار دیا تھا۔
بی این پی رہنما رضوی احمد نے سنہ 2014 میں کہا تھا کہ یہ ڈرامہ بی این پی کو ’برباد‘ کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔
اسلحے کے دس ٹرکوں کی برآمدگی اور اس کے بعد کی کارروائی بی این پی کے دور حکومت میں ہی شروع ہوئی تھی۔
رضوی احمد نے دعویٰ کیا کہ کیس کی سماعت سے قبل تمام ضروری عدالتی کارروائیاں ان کی حکومت کے دور میں ہی شروع ہو چکی تھیں۔
عوامی لیگ کی رہنما شیخ حسینہ اس وقت حزب اختلاف میں تھیںسیاسی تنازع
اس واقعے کے بعد اس وقت کے وزیر مملکت برائے داخلہ امور لطف الزمان بابر نے کہا تھا کہ چٹاگانگ میں پکڑا گیا گولہ بارود مقامی طور پر استعمال کرنے اور تخریبی سرگرمیوں کے لیے لایا گیا تھا۔
عوامی لیگ کا براہ راست نام لیے بغیر انھوں نے کہا تھا کہ ’وہ 30 اپریل سے پہلے حکومت گرانے کی بات کر رہے تھے، ایسے میں اس معاملے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘
دوسری جانب اس وقت کی اپوزیشن لیڈر شیخ حسینہ نے اس معاملے کی بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
شیخ حسینہ نے کہا تھا کہ ’اگر بی این پی حکومت بین الاقوامی سطح پر تحقیقات کے ذریعے ان غیر قانونی ہتھیاروں کا راز فاش نہیں کرتی ہے تو یہ ثابت ہو جائے گا کہ وزیر مملکت برائے داخلہ امور اور وزیر اعظم کے ایک مشیر کا اس سے تعلق ہے۔‘
قومی پارٹی کے چیئرمین ایچ ایم ارشاد نے اس معاملے کو ’پراسرار‘ قرار دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی سرکاری ادارے کے تعاون کے بغیر اتنی بڑی کھیپ کو ملک میں لانا ممکن نہیں۔‘
اسلحے کی برآمدگی کے بعد میڈیا میں اس سے متعلق خبریں شائع ہوتی رہیں۔ واقعے کے ایک دن بعد روزنامہ یوگانتر نے شہ سرخی لگائی تھی ’ہزار کروڑ کے ہتھیار برآمد: منزل کیا تھی؟‘
اس رپورٹ میں کئی سوالات اٹھاتے ہوئے لکھا گیا کہ ’چٹاگانگ میں دس ٹرک اسلحہ اور گولہ بارود کی برآمدگی سے پورا ملک چونک گیا ہے۔ یہ ہتھیار یہاں کون لایا ہے؟ یہ ہتھیار کہاں جانے والے تھے؟ ملک بھر کے لوگوں کی زبانوں پر اس واقعے کا ذکر ہے، کیا یہ ہتھیار ملک میں تخریبی سرگرمیوں کو انجام دینے کے لیے لائے گئے تھے یا یہ الفا (آسام کی عسکریت پسند تنظیم) تک پہنچانے کے لیے لائے گئے تھے؟‘
بی این پی رہنما خالدہ ضیا اس وقت بنگلہ دیش کی وزیر اعظم تھیںاس واقعے کے دو دن بعد ’دینک آلو‘ اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا: ’یہ ہتھیار پولیس کی حفاظت میں جیٹی پر اتارے جا رہے تھے۔ سمگلر مقامی پولیس کی موجودگی میں فشنگ ٹرالر سے ہتھیار اتار رہے تھے۔‘
ہتھیار برآمدگی کے بعد انتظامیہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’وزارت داخلہ کی توجہ بنگلہ دیش کے اخبارات میں ہتھیاروں کی برآمدگی کے حوالے سے شائع ہونے والی کچھ قیاس آرائیوں کی طرف مبذول کرائی گئی ہے۔ حکومت کی رائے میں تحقیقات کے دوران میڈیا میں قیاس آرائی پر مبنی رپورٹیں شائع کی گئیں جس سے عام لوگوں کے ذہنوں میں کنفیوژن اور غلط فہمی پیدا ہو گی۔ حکومت نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ہوم سیکریٹری کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے اور اس کی بڑے پیمانے پر تحقیقات کی جا رہی ہے۔‘
جب حزب اختلاف نے اس معاملے کی بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ اٹھایا تو بی این پی کے اس وقت کے جنرل سیکریٹری اور حکومت میں ایک وزیر عبدالمنان بھویاں نے بی بی سی کو بتایا تھا: ’اگر ضرورت پڑی تو اس معاملے کی بین الاقوامی تحقیقات کرائی جائیں گی۔‘
تاہم حکومت نے کبھی بین الاقوامی تحقیقات پر غور نہیں کیا اور نہ ہی ایسی کوئی تحقیقات کروائی گئیں۔
حکومت کی طرف سے تشکیل دی گئی اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی میں اس وقت کے ڈی جی ایف آئی کے سربراہ بریگیڈیئر رزاق الحیدر اور این ایس آئی کے سربراہ بریگیڈیئر انعام الرحمان کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
دوسری جانب اس واقعے کے حوالے سے اخبارات میں طرح طرح کی خبریں آتی رہیں۔ حکومت میڈیا کے کردار سے کافی بے چین تھی۔ بعد میں اس کا نتیجہ بھی سامنے آیا۔
اس واقعے کے چند روز بعد اس وقت کی وزیراعظم خالدہ ضیا نے ایک پروگرام میں صحافیوں سے کہا کہ وہ ایسی تصاویر اور خبریں شائع نہ کریں جس سے ملک کی تصویر خراب ہو۔ ’منفی خبریں شائع کرنے سے ملک اور میڈیا کے امیج کو نقصان پہنچتا ہے۔‘

کیا انڈیا کے دباؤ پر اسلحہ ضبط کیا گیا؟
ہتھیاروں کی برآمدگی کے واقعے کے اگلے دن انڈین ریاست آسام کے ’ڈیلی ٹریبیون‘ اخبار نے لکھا کہ یہ ہتھیار انڈین ریاست کی عسکریت پسند تنظیم الفا کو بھیجے جانے تھے۔
دہلی میں مقیم ذرائع کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھوٹان میں چند روز قبل کیے گئے آپریشن ’آل کلیئر‘ کے دوران الفا کے ہتھیاروں کے ذخیرے کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے جس کے بعد سے الفا ہتھیار جمع کرنے کے لیے بے چین ہے۔
ایک اور انڈین اخبار ’دی ٹیلی گراف‘ نے لکھا کہ چٹاگانگ میں اتنی بڑی مقدار میں ہتھیاروں کی برآمدگی سے انڈیا ہل گیا ہے اور سوچنے لگا ہے کہ کیا ان کی منزل انڈیا ہی تو نہیں۔
اس واقعے کے چند دن بعد آسام کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ ترون گوگوئی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’چٹاگانگ میں برآمد ہونے والے ہتھیار آسام کی عسکری تنظیم الفا کے نام پر بھیجے گئے تھے۔ انٹیلیجنس ایجنسیوں کی طرف سے پچھلے دسمبر میں مجھے یہ اطلاع ملی تھی۔ اور یہ ہتھیار صرف بھوٹان میں الفا کے عسکریت پسندوں کو جنوری کے دوران ان کے ہتھیار چھیننے کی وجہ سے لگنے والے دھچکے کی تلافی کے لیے لائے جا رہے تھے۔‘
انھوں نے ہتھیاروں کی برآمدگی پر بنگلہ دیش حکومت کا شکریہ ادا کیا تھا۔
ہتھیاروں کی برآمدگی کے واقعے کے بعد ’دی ٹیلی گراف اخبار‘ نے تریپورہ کے اس وقت کے پولیس ڈائریکٹر جنرل جی این سریواستو کو لکھے ایک خط کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ انڈیا کے تئیں دوستانہ خیالات رکھنے والے لوگوں سے موصول ہونے والی معلومات کی بنیاد پر بنگلہ دیشی حکام نے ہتھیاروں کی سب سے بڑی کھیپ پکڑنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
اس پولیس افسر نے کہا کہ ان کے پاس ٹھوس معلومات ہیں کہ یہ ہتھیار شمال مشرق کی علیحدگی پسند تنظیموں میں تقسیم کرنے کے لیے بھیجے جا رہے ہیں۔
لطف الزماں بابر کو ہتھیاروں کی برآمدگی کے معاملے پر بعدازاں پھانسی کی سزا ہوئیانڈیا کی ڈیفنس انٹیلیجنس ایجنسی کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل (ر) گگن جیت سنگھ نے فروری سنہ 2013 میں انڈیا ٹوڈے میگزین کو ایک انٹرویو دیا۔
اس انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا: ’وہ دس ٹرک ہتھیار صرف الفا کے لیے نہیں لائے گئے تھے، بلکہ یہ علاقے میں سرگرم تمام علیحدگی پسند گروپوں کے لیے تھے۔‘
انڈین میگزین ’انڈیا ٹوڈے‘ نے تبصرہ کیا ہے کہ اس معاملے میں الفا کے اس وقت کے کمانڈر انچیف پریش بروا نے سب سے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ ان کا مقصد آسام کی علیحدگی کی تحریک کو تیز کرنا ہے۔
میجر جنرل (ر) گگن جیت سنگھ نے انڈیا ٹوڈے کو بتایا: ’پریش بروا بنگلہ دیش کی ملٹری انٹیلیجنس ایجنسی ڈی جی ایف آئی اور قومی سلامتی ایجنسی این ایس آئی کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔‘
اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سنہ 2004 میں گگن جیت سنگھ کو ان ہتھیاروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کا ذمہ دار بنایا گیا تھا۔
سنگھ اس بات کی انٹیلیجنس نگرانی کر رہے تھے کہ کس طرح اور کس راستے سے ہتھیاروں سے لدا جہاز جنوبی چین کی بیہائس بندرگاہ سے چٹاگانگ آ رہا ہے۔
سنگھ نے کہا کہ ’پریش بروا چٹاگانگ کے جی ای سی موڑ پر واقع ایک ہوٹل سے کام کر رہے تھے۔ ڈی جی ایف آئی کے اہلکار بھی ان کے قریب ہی ٹھہرے ہوئے تھے۔ میرے پاس اس وقت تک تمام معلومات تھیں جب تک یہ ہتھیار جیٹی تک پہنچے۔ جہاز سی یو ایف ایل جیٹی پر پہنچنے کے بعد انڈین انٹیلی جنس افسران نے چٹاگانگ میٹروپولیٹن پولیس کو مطلع کیا۔‘
’چٹاگانگ پولیس کا خیال تھا کہ یہ ہتھیار انڈیا سے عوامی لیگ کی مدد کے لیے آ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عوامی لیگ کے جنرل سیکرٹری عبدالجلیل نے بی این پی کی حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے 30 اپریل کی ڈیڈ لائن مقرر کی تھی۔‘
معاملے میں نیا موڑ
ہتھیاروں کی برآمدگی کے اس واقعہ میں کرناپھولی تھانے کی پولیس نے اسلحہ اور امگلنگ ایکٹ کے تحت دو مقدمات درج کیے تھے۔
ابتدائی تحقیقات کے بعد اس وقت کے افسران کی جانب سے چارج شیٹ داخل کرنے کے بعد اس وقت کی حکومت کے دور میں تفصیلی تحقیقات شروع ہوئیں۔
جنوری سنہ 2014 میں چٹاگانگ کی ایک عدالت نے بی این پی کی زیرقیادت مخلوط حکومت کے وزیر صنعت اور جماعت اسلامی کے امیر مطیع نظامی، وزیر داخلہ اور بی این پی رہنما لطف الزمان بابر اور دو انٹیلیجنس ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام سمیت اس واقعے میں شامل ہونے کے الزام میں فرد جرم عائد کی اور انھیں سزائے موت سنائی گئی۔
اس معاملے میں چٹاگانگ کی خصوصی عدالت نے انڈیا کی علیحدگی پسند تنظیم الفا کے فوجی کمانڈر پریش بروا کو بھی موت کی سزا سنائی تھی۔