امریکہ کو غزہ میں جنگ بندی کی توقع: ’اگر حماس نے مجوزہ منصوبہ تسلیم کیا تو اسرائیل بھی مان جائے گا‘

امریکہ میں قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت کو ’مکمل توقع‘ ہے کہ اسرائیل غزہ میں جنگ بندی کے مجوزہ منصوبے کو تسلیم کر لے گا۔
غزہ جنگ، اسرائیل، حماس، امریکہ
Getty Images

امریکہ میں قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت کو ’مکمل توقع‘ ہے کہ اسرائیل غزہ میں جنگ بندی کے مجوزہ منصوبے کو تسلیم کر لے گا۔

امریکی صدر بائیڈن کی جانب سے پیش کی جانے والی تجویز تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے مرحلے میں چھ ہفتے کی جنگ بندی ہو گی۔ اس دوران اسرائیلی فوج غزہ کے رہائشی علاقوں سے نکل جائے گی۔ امریکہ کے مطابق یہ معاہدہ تمام یرغمالیوں کی رہائی، مستقل ’دشمنی کے خاتمے‘ اور غزہ کی تعمیر نو کے ایک بڑے منصوبے کا باعث بنے گا۔

اسرائیلی حکومت کے بعض ارکان نے اس منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ جبکہ رفح میں لڑائی جاری ہے جہاں اسرائیل مسلسل فضائی بمباری کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق رفح میں اس کی تمام 36 پناہ گاہیں خالی کرا لی گئی ہیں۔ یہاں کے رہائشیوں کو لڑائی سے قبل انخلا کی وارننگ دی گئی تھی۔

اتوار کی صبح اے بی سی نیوز سے گفتگو کے دوران جان کربی نے کہا کہ امریکہ کو ’مکمل توقع‘ ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کے مجوزہ منصوبے کو تسلیم کر لے گا، اگر حماس بھی اسے تسلیم کرتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم حماس کے باضابطہ جواب کے منتظر ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو امید ہے کہ دونوں فریقین ’جتنا جلدی ہوسکے‘ پہلے مرحلے پر عملدرآمد شروع کرسکتے ہیں۔

لڑائی میں چھ ہفتے کے وقفے کے بارے میں جان کربی نے کہا کہ ’دونوں فریقین ایک ساتھ بیٹھیں گے اور دوسرے مرحلے پر مذاکرات کی کوشش کریں گے کہ یہ کیسا ہوگا اور اسے کب شروع کیا جاسکتا ہے۔‘

بائیڈن نے گذشتہ ہفتے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ منصوبے کے دوسرے مرحلے میں مرد فوجیوں سمیت تمام بقیہ یرغمالیوں کی واپسی ہوسکتی ہے۔ ان کے مطابق جنگ بندی سے ’دشمنی کا مستقل خاتمہ ہوسکے گا۔‘

امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان کے مطابق امریکی انٹیلیجنس کا خیال ہے کہ حماس کو فوجی اعتبار سے اس قدر نقصان پہنچایا جاچکا ہے کہ اب اس کے جنگجو سات اکتوبر جیسا حملہ دہرا نہیں سکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ایسا نہیں کہا کہ وہ اسرائیلی عوام کے لیے واضح خطرہ نہیں۔۔۔ مگر اب ان کے پاس فوجی صلاحیتیں نہیں (کہ وہ نقصان پہنچا سکیں)۔‘

حماس کے زیرِ انتظام وزارت صحت کے مطابق جنگ کے آغاز سے غزہ میں 36 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ حماس کے سات اکتوبر کے حملے میں قریب 1200 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی جبکہ 252 یرغمالیوں کو غزہ لے جایا گیا تھا۔

’اگر نتن یاہو نے اس پر عمل کیا تو مستعفی ہو جائیں گے‘، اسرائیلی وزرا کی دھمکی

امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی جانب سے پیش کردہ مجوزہ منصوبے کے اعلان کے بعد دو اسرائیلی وزرا نے دھمکی دی ہے کہ اگر وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے اس منصوبے پر عمل کیا تو وہ مستعفی ہو جائیں گے اور حکومتی اتحاد توڑ دیں گے۔

وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ اور قومی سلامتی کے وزیر اتامار بین گویر کا کہنا ہے کہ وہ حماس کی تباہی سے قبل کسی بھی قسم کے معاہدے کے خلاف ہیں۔

دوسری جانب، اپوزیشن لیڈر یائر لاپید نے اعلان کیا ہے کہ اگر نتن یاہو اس منصوبے کی حمایت کرتے ہیں تو وہ حکومت کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔

اس سے قبل ماضی میں اسرائیلی وزیراعظم خود کہہ چکے ہیں کہ جب تک حماس کی عسکری اور حکومتی صلاحیتوں کو ختم نہیں کر دیا جاتا اور تمام یرغمالی رہا نہیں ہو جاتے تب تک مستقل جنگ بندی کا امکان نہیں۔

سنیچر کے روز سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں، سموٹریچ کا کہنا تھا کہ انھوں نے وزیر اعظم نتن یاہو کو بتا دیا ہے کہ وہ کسی ’ایسی حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے جو اس مجوزہ منصوبے سے اتفاق کرے اور حماس کی تباہی اور تمام یرغمالیوں کی واپسی کے بغیر جنگ ختم کر دے۔‘

بین گویر بھی ان سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’[اس] معاہدے کا مطلب ہے جنگ کا خاتمہ اور حماس کو تباہ کرنے کے مقصد کو ترک کر دینا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا یہ ایک نامناسب معاہدہ ہے جو اسرائیلی ریاست کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور اس سے دہشت گردی کی جیت ہو گی۔

israel
Getty Images

بین گویر کا کہنا تھا کہ وہ اس تجویز سے اتفاق کرنے کے بجائے ’حکومت تحلیل‘ کرنے کو ترجیح دیں گے۔

نتن یاہو کی حکومت کو پارلیمنٹ میں معمولی اکثریت حاصل ہے اور اسے قائم رکھنے کے لیے انھیں متعدد اتحادیوں کی حمایت درکار ہے۔ بین گویر کی جماعت کے پاس چھ نشستیں ہیں جبکہ سموٹریچ کی جماعت کے پاس سات سیٹیں ہیں۔

دوسری جانب اسرائیل کے سب سے بااثر اپوزیشن سیاست دانوں میں سے ایک یائر لاپید نے تنازع میں گھرے وزیر اعظم کو اپنی حمایت کی پیشکش کی ہے۔ ان کی جماعت کے پاس 24 سیٹیں ہیں۔

ان کا کہنا ہےنے کہا کہ اگر بین گویر اور سموٹریچ حکومت سے الگ ہوتے ہیں تو یرغمالیوں کی واپسی کے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے وہ نتن یاہو کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔

یہ تنازع ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب تل ابیب میں ہزاروں افراد نے ریلی نکالی ہے اور اسرائیلی حکومت سے امریکی صدر کے مجوزہ منصوبے کو قبول کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

مظاہرین نے اسرائیلی وزیراعظم کے استعفیٰ کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ریلی کے دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں اور کچھ مظاہرین کو حراست میں لیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔

سنیچر کے روز مصر، قطر اور امریکہ کے ثالثوں نے ایک مشترکہ بیان میں اسرائیل اور حماس پر زور دیا ہے کہ وہ بائیڈن کے مجوزہ معاہدے کو ’حتمی شکل‘ دیں۔

برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے بھی اس منصوبے کی حمایت کی ہے۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر حماس جنگ بندی کے منصوبے کو قبول کرتا ہے تو ان کی حکومت غزہ کے لیے مزید امداد فراہم کر سکتی ہے۔

غزہ کی تعمیر نو، اسرائیل حماس امن معاہدہ
Getty Images
امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ نیا معاہدہ غزہ کی تعمیر نو کے ایک بڑے منصوبے کی بنیاد بنے گا

غزہ جنگ کے خاتمے کا مجوزہ منصوبہ کیا ہے؟

اس سے قبل جمعے کو امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی جانب سے پیش کردہ مجوزہ منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وقت آ گیا ہے کہ یہ جنگ ختم ہو۔‘

انھوں نے حماس پر زور دیا تھا کہ وہ غزہ تنازع کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی نئی تجویز قبول کر لے۔

نیا مجوزہ منصوبہ تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے مرحلے میں چھ ہفتے کی جنگ بندی کا اعلان کیا جائے گا۔ اس دوران اسرائیلی فوج غزہ کے آبادی والے علاقوں سے نکل جائے گی جبکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھیجی جانے والی امداد میں ’اضافہ‘ کیا جائے گا اور فلسطینی قیدیوں اور کچھ اسرائیلی یرغمالیوں کا تبادلہ بھی ہو گا۔

صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ بالآخر مستقل ’دشمنی کے خاتمے‘ اور غزہ کی تعمیر نو کے ایک بڑے منصوبے کی بنیاد بنے گا۔

حماس کا کہنا ہے کہ وہ اس تجویز کو مثبت انداز میں دیکھ رہا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن
Getty Images
امریکی صدر جو بائیڈن نے تسلیم کیا کہ اسرائیلی حکومت میں موجود کچھ حکام سمیت کچھ اسرائیلی ممکنہ طور پر اس مجوزہ معاہدے کے خلاف ہوں گے

جمعے کو وائٹ ہاؤس میں بات کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں ’مکمل جنگ بندی‘، آبادی والے علاقوں سے اسرائیلی فورسز کا انخلا اور فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کا تبادلہ شامل ہے۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ یہ ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ ’حماس کہتا ہے کہ وہ جنگ بندی چاہتا ہے۔ یہ معاہدہ ان کے لیے یہ ثابت کرنے کا موقع ہے کہ وہ حقیقتاً یہی چاہتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس جنگ بندی کے نتیجے میں محصور علاقوں تک پہنچنے والی امداد میں اضافہ ممکن ہو گا اور روزانہ کی بنیاد پر 600 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہو پائیں گے۔

مجوزہ منصوبے کے دوسرے مرحلے میں فوجیوں سمیت تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو چھوڑا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد یہ جنگ بندی ’مستقل طور پر دشمنی کے خاتمے‘ کی بنیاد بنے گی۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون ان افراد میں شامل ہیں جنھوں نے حماس کو یہ تجویز ماننے کا مشورہ دیا ہے۔انھوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا ہے کہ حماس کو ’اس معاہدے کو قبول کرنا چاہیے تاکہ ہم لڑائی کو روک سکیں۔‘

لارڈ کیمرون کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم بہت عرصے سے یہ کہتے آئے ہیں کہ اگر ہم سب صحیح اقدم اٹھانے کے لیے تیار ہوں تو اس تنازع کو مستقل امن میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔‘

’آئیے اس موقعے سے فائدہ اٹھائیں اور اس تنازع کو ختم کریں۔‘

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے بھی اس پیشرفت کا خیرمقدم کیا ہے۔ ایکس پر جاری اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ دنیا ’غزہ میں بہت زیادہ مصائب اور تباہی دیکھ چکی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ یہ ختم ہو۔

’میں (صدر) بائیڈن کے اقدام کا خیرمقدم کرتا ہوں اور تمام فریقین سے کہتا ہوں کہ وہ جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی، بلا روک ٹوک انسانی امداد کی رسائی اور بالآخر مشرق وسطیٰ میں ایک پائیدار امن کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts