سابق انڈین پولیس کانسٹیبل ’بیماریاں اور پریشانیاں دور کرنے والے بھولے بابا‘ کیسے بنے

مقامی میڈیا کے مطابق سورج پال سنگھ 1990 کی دہائی کے آخر تک اتر پردیش پولیس میں کانسٹیبل رہے۔ اس کے بعد ان کا رجحان روحانیت کی جانب ہونے لگا اور انھوں نے نوکری چھوڑ دی، نیا نام اختیار کیا اور عوامی سطح پر ستسنگ (مذہبی اجتماع) کے دوران وعظ دینے لگے۔

انڈیاکی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے ہاتھرس میں ایک مذہبی اجتماع میں بھگدڑ مچ جانے سے ہلاکتیں حالیہ برسوں کا بدترین سانحہ ہے جس میں مرنے والوں کی اکثریت خواتین کی ہے۔

خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق اتر پردیش پولیس نے بدھ کے روز ہاتھرس میں مذہبی اجتماع کے منتظمین کے خلاف ایف آئی آر درج کی جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ منتظمین نے اجازت مانگتے ہوئے ’ستسنگ‘ میں آنے والے عقیدت مندوں کی اصل تعداد کو چھپایا، ٹریفک مینجمنٹ میں تعاون نہیں کیا اور بھگدڑ کے بعد شواہد چھپائے۔

لیکن ایف آئی آر میں ’ستسنگ‘ کرانے والے گرو ساکار وشوا ہری کا نام نہیں ہے جو ’بھولے بابا‘ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔

بی بی سی نمائندہ دلنواز پاشا نے بتایا کہ یہ ستسنگ (اجتماع) پھولرائی گاؤں میں ہوا تھا اور عینی شاہدین کے مطابق جب اجتماع کرانے والے ’بھولے بابا‘ کے نام سے مشہور مذہبی گرو جانے لگے تو ان کے پاؤں کی دھول حاصل کرنے کے لیے بھگدڑ مچ گئی۔ تو یہ بھولے بابا کون ہیں جن کی زندگی کی داستان کسی فلم کی کہانی لگتی ہے۔

عقیدت مندوں کا دعوی

دلنواز پاشا کی ملاقات اترپردیش کے بہرائچ ضلع سے آنے والی ایک عقیدت مند گومتی دیوی سے ہوئی جن کے گلے میں ’بھولے بابا‘ یعنی نارائن ساکار کی تصویر والا لاکٹ تھا۔

اس لاکٹ کو انھوں نے اس ہولناک واقعے کے بعد بھی پوری عقیدت کے ساتھ پہن رکھا تھا اور ان کی عقیدت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔

گومتی دیوی تقریباً چار سال سے بابا کے ستسنگوں میں شامل ہو رہی ہیں۔ انھوں نے اپنے گلے میں موجود نارائن ساکار کی تصویر والا ہار دکھاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اسے ’گلے میں لٹکانے سے فائدہ ہوتا ہے، سکون ملتا ہے، بیماریاں ٹھیک ہوتی ہیں، گھر کی پریشانیاں دور ہوتی ہیں اور روزگار ملتا ہے۔‘

جبکہ بہرائچ سے ہی آنے والے دنیش یادو کہتے ہیں: 'ہمارے طرف کے لوگ بابا کی تصویر کے ساتھ پوجا کرتے تھے، انھیں دیکھ کر ہم نے بھی پوجا شروع کردی، ہم ایک سال سے ان کے ساتھ ہیں۔ ہمیں ابھی تک کوئی تجربہ نہیں ہوا ہے لیکن ہمیں بھگوان (بابا) پر یقین ہے، ہماری منتیں پوری ہوتی ہیں۔'

لیکن اس واقعے کے بعد سے بابا اور ان کے ساتھیوں کا کوئی سراغ نہیں ہے جبکہ اترپردیش کے وزیر اعلی نے متاثرین کو تمام طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے اور پولیس ’بھولے بابا‘ اور ان کے ساتھیوں کی تلاش میں ہے۔

یوپی پولیس نے ایف آئی آر درج کر لی ہے
Getty Images
یوپی پولیس نے ایف آئی آر درج کر لی ہے

آخر یہ ’بابا‘ کون ہیں؟

بھولے بابا کے نام سے مشہور روحانی مبلغ کا اصل نام سورج پال سنگھ بتایا جاتا ہے جنھیں ’نارائن ساکار وشوا ہری‘ یا ’بھولے بابا‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ ان کا تعلق اتر پردیش کے ضلع کاس گنج کی پٹیالی تحصیل کے بہادر نگر گاؤں سے ہے۔

ان کے پیروکار اترپردیش کے مغربی اور وسطی حصوں اور پڑوسی ریاستوں راجستھان، ہریانہ اور مدھیہ میں کئی جگہوں سے آتے ہیں جبکہ ان کے پروگراموں میں کئی اہم سیاسی رہنما بھی نظر آتے رہے ہیں۔

مقامی میڈیا کے مطابق سورج پال سنگھ 1990 کی دہائی کے آخر تک اتر پردیش پولیس میں کانسٹیبل رہے۔ اس کے بعد ان کا رجحان روحانیت کی جانب ہونے لگا اور انھوں نے نوکری چھوڑ دی، نیا نام اختیار کیا اور عوامی سطح پر ستسنگ (مذہبی اجتماع) کے دوران وعظ دینے لگے۔

دلنواز پاشا نے فون پر بتایا کہ انھیں بعض ذرائع نے بتایا کہ سورج پال سنگھ کو ریپ کے الزام کے بعد پولیس کے عہدے سے برخاست کر دیا گيا تھا لیکن اس دعوے کی پولیس یا دوسرے ذرائع سے ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

وہ کووڈ19 کے دوران اس وقت خبروں میں آئے تھے جب انھیں اجتماع میں شرکت کے لیے 50 لوگوں کی اجازت دی گئی تھی لیکن ان کے اجتماع میں ہزاروں لوگ پہنچ گئے تھے۔

مقامی میڈیا میں ان کے بارے میں لکھا گیا کہ انتظامیہ نے آشرم کے تئیں نرم گوشہ اختیار کر رکھا تھا یہاں تک کہ کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران بھی ان کے پیروکاروں کو آشرم میں پوجا کرنے کی اجازت تھی۔

ایک رپورٹ کے مطابق انھیں بہوجن سماج پارٹی کی حکومت کے دوران لال بتی والی گاڑی بھی فراہم کی گئی تھی جو بڑے عہدے کے سرکاری افسران یا وزرا کو دی جاتی ہیں۔

جھونپڑی سے ابتدا

وہ خود کو نارائن ساکار ہری کا شاگرد بتاتے ہیں اور اپنے پیروکاروں سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے اندر ہی بھگوان کو تلاش کریں۔

ٹی وی 9 ہندی کی ایک رپورٹ کے مطابق انھوں نے پٹیالی کے بہادر نگر گاؤں میں اپنی جھونپڑی سے ستسنگ یعنی مذہبی وعظ و نصیحت کا پروگرام شروع کیا تھا۔

ایک انٹرویو کے دوران ’بھولے بابا‘ نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کا کوئی گرو نہیں ہے اور انھوں نے 18 سال تک پولیس میں کام کرنے کے بعد اچانک رضاکارانہ طور پر ریٹائرمنٹ لے لیا۔

بابا کا آہستہ آہستہ اثر و رسوخ بڑھتا گیا اور اب ان کے مذہبی اجتماع میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں۔

دی ہندو اخبار کی رپورٹ کے مطابق گاؤں میں مسٹر پال کا نارائن ساکار ہری آشرم 30 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ وہ کاروں کے ایک قافلے کے ساتھ چلتے ہیں اور ان کے پاس اپنے ذاتی محافظوں کا ایک دستہ ہے۔

وہ میڈیا سے دور رہتے ہیں اور کسی کو ان کی تصویر لینے کی اجازت نہیں ہے۔ دیہی علاقوں میں ان کے عقیدت مندوں کی کافی تعداد ہے۔ علاقے کے لوگوں کے مطابق ان کے آشرم میں کوئی مورتی یا مجسمہ نہیں ہے۔

ان کی عمر 60 کی دہائی کے اوائل میں ہے اور وہ عام طور پر سفید کوٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس ہوتے ہیں۔وہ رنگین چشمہ (عینک) پہنتے ہیں۔

پیروکاروں میں زیادہ تر خواتین

ان کے پیروکاروں میں زیادہ تر خواتین ہیں جو عام طور پر گلابی لباس میں ملبوس ہوتی ہیں۔ ہاتھرس میں مرنے والوں میں خواتین کی تعداد 90 فیصد بتائی جا رہی ہے جو اس بات کا مظہر ہے کہ ان کے عقیدت مندوں میں خواتین ہی زیادہ تھیں۔

ان کی اہلیہ اکثر اجتماعات کے دوران ان کے ساتھ ہی کرسی پر موجود ہوتی ہیں جنھیں ’ماتاشری‘ (مادر محترم) سے مخاطب کیا جاتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2014 میں انھوں نے اپنے ٹھکانے کو بہادر نگر سے مین پوری کے بیچوا منتقل کیا اور آشرم کو ایک مقامی منتظم کے زیر انتظام چھوڑ دیا۔ تاہم، انھوں نے اس خطے میں اجتماعات کا انعقاد جاری رکھا جو تقریبا ہر منگل کے روز ہوتا ہے۔

اسی زمانے میں ایک سادھو آسا رام باپو کے معاملے اور گرفتار کے بعد انھوں نے اپنے حفاظتی عملے سے خواتین کو ہٹا دیا تھا اور میڈیا سے دوری اختیار کر لی تھی جبکہ اپنے عقیدت مندوں کو تصاویر لینے سے منع کر دیا تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ مسٹر پال کے ٹھکانے کی منتقلی کے باوجود آشرم میں روزانہ 10-12 ہزار لوگوں کی آمد ہوتی ہے۔

سوشل میڈیا پر اس حوالے سے جہاں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہیں یہ کہا جا رہا ہے کہ ان کے عقیدت مندوں میں زیادہ تر نچلی ذات کے غریب لوگ تھے اور انھیں سیاسی پارٹیوں کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US